آثار
باشو غریبہ کوچک فیچر فلم
زینب احمدی
15 دورہ
فلم "باشو، غریبہ کوچک" بہرام بیضائی کی 1985ء میں بنائی گئی ایک شاہکار فلم ہے جو عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ایک یتیم اور بے گھر ہو جانے والے بچے کی کہانی پیش کرتی ہے۔
بیضائی خود ہی اس فلم کے مصنف بھی ہیں۔ ایک انٹرویو میں فلم نامہ لکھنے کے ابتدائی محرک کے بارے میں ان کا کہنا تھا: "اس فلم کا بنیادی اور مرکزی خیال محترمہ سوسن تسلیمی (جو اس فلم میں مرکزی خاتون کا کردار ادا کرتی ہیں) کا دیا ہوا تھا جو میری ان سے ہونے والی گفت و شنید کے دوران پروان چڑھا۔ میرے لیے یہ فلم اس وقت سے سنجیدہ ہوئی جب میں نے سوسن تسلیمی کے انداز کو شمالی ایران کی ایک دیہاتی خاتون کے مطابق پایا۔" [1] فلم کا ماحول اسی تجویز کی بنیاد پر شمالی ایران کے ایک گاؤں میں قائم کیا گیا ہے۔[2]
جنگ سے اس فلم کا تعلق اس کی کہانی کی وجہ سے ہے جو ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔[3]
"باشو، غریبہ کوچک" ایک 35 ملی میٹر کی 120 منٹ کی فلم ہے جو ادارہ برائے فکری نشو و نما اطفال و نوجوانان (کانون پرورش فکری کودکان و نوجوانان) کی پیشکش ہے۔ یہ فلم پہلی بار 3 فروری 1989ء کو تہران کے ساتویں بین الاقوامی فجر فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی۔ اس کے ہدایت کار، فلم نامہ نگار اور ایڈیٹر بہرام بیضائی ہیں۔ داریوش فرہنگ اور حسن آقا کریمی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ اس کے پروڈیوسر علی رضا زرین، کیمرہ مین اور پروڈیوسنگ کرنے والے فیروز ملک زادہ، سین سیکرٹری شہرزاد پویا، موسیقار فیروز ملک زادہ اور مرکزی اداکار سوسن تسلیمی، پرویز پورحسینی، اکبر دودکار، عدنان عفراویان، فرخ لقا ہوشمند اور رضا ہوشمند ہیں۔ [4]
ایک لڑکا جس کا نام باشو ہے، جنوبی علاقوں (اہواز) سے تعلق رکھتا ہے اور عراقی بمباری میں اس کے گھر کے تمام افراد اس کے سامنے شہید ہوجاتے ہیں ۔ وہ مجبوراً ایک ٹرک پر سوار ہو کر بھاگ نکلتا ہے اور شمالی ایران میں پناہ لے لیتا ہے۔ اتفاق سے اس کی ملاقات "نایی" نامی ایک ایسی عورت سے ہوتی ہے جس کا شوہر جنگ پر جنوبی علاقوں میں گیا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں ایک دوسرے کی زبان اور بولی سے ناواقف ہیں، لیکن بچے اور عورت کے درمیان جذباتی رشتہ قائم ہو جانے کی وجہ سے ن نایی اسے پناہ دیتی ہے اور باشو آہستہ آہستہ ان کے خاندان کا حصہ بن جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد نائی کا شوہر واپس آتا ہے اور باشو کو اپنا بیٹا بنا لیتا ہے۔ [5]
اس فلم میں باشو ایران کی اولاد کی علامت ہے جس کی نسلی شناخت جنگ کی نذر ہو جاتی ہے اور وہ نئی شناخت کی تلاش میں ایک نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے (یعنی ملک کے جنوب سے شمال کی طرف ہجرت کر لیتا ہے)۔ یہ دنیا اس کی گزشتہ زندگی سے زیادہ تر متصادم ہے: اجنبی زبان، مختلف سماجی ثقافت اور رنگ۔ لیکن آخرکار اس نئے ماحول اور اس کے درمیان ہونے والے ایک کشمکش کے بعد، وہ کہانی کی عورت کے ساتھ مثالی جذباتی رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ایک نئی اور عمیق شناخت حاصل کر لیتا ہے۔
"نایی" ایران کی علامت ہے۔ یہ وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں گھر اور بچوں کی محافظ ہے۔ بیضائی کہتے ہیں: "شاید یہ میرے اندر کی ایک کشش ہے کہ اس سرزمین میں جہاں ہر چیز انتشار کا شکار ہے، میں رشتہ جوڑنے اور اپنائیت ایجاد کرنے کی بات کروں اور میں اس انتشار کو وحدت اور یکجہتی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔" بیضائی کی اس وحدت سے مراد فلم میں شمال (نایی) اور جنوب (باشو) کا سنگھم ہے۔ ان دونوں کی ثقافت، زبان اور بولی جداگانہ ہے اور آخرکار وہ ایک دوسرے کو قبول کر لیتے ہیں اور درحقیقت فلم کا پیغام یہ ہے کہ ہمدردی، ہم زبانی سے بڑھ کر ہے۔ [6]
"باشو، غریبہ کوچک" ایک حقیقت پسندانہ فلم ہے جس کا بنیادی موضوع جنگ کے سماجی اثرات ہیں اور یہ جنگ کی شدت کے دوران 1980ء کی دہائی کے وسط میں بننے والی سب سے سیاسی فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ [7]
بہرام بیضائی ہمیشہ علامتوں اور استعاروں پر مبنی اپنے مخصوص اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایرانی اساطیر کو اپنی کہانی میں اس طرح سموتے ہیں۔ لیکن اس فلم میں ان علامتوں کا استعارہ کم نظر آتا ہے اور ہدایت کار نے اپنی فلم کے جنگ مخالف تصور پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے، اسی لیے یہ فلم ان کی دیگر تخلیقات کے مقابلے میں عوام میں زیادہ مقبول ہوئی اور اس سے ربط قائم کرنا نسبتاً آسان تھا۔ اس فلم میں بیضائی نے تضاد کے عنصر سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور شمال کے سرسبز و شاداب ماحول کو جنوب کے گرم اور جنگ زدہ ماحول کے مقابلے میں پیش کیا ہے اور اس اصول کو پیش کرنے میں انہوں نے سادگی کو معیار بنایا ہے۔
اس فلم کی شہرت اور مقبولیت کا بڑا سہرا اس کے اداکاروں کو جاتا ہے، خاص طور پر سوسن تسلیمی کی انتہائی مؤثر اداکاری۔ تسلیمی کے بغیر یہ فلم ایک لنگڑے انسان کی مانند ہے، اور ان کی موجودگی نے فلم نامے کی کئی خامیوں اور فلمی نواقص کو چھپا دیا۔ بیضائی نے سوسن تسلیمی کے ساتھ ساتھ عدنان عفراوی نامی ایک ناتجربہ کار اداکار سے بھی کام لیا ہے جو ناخواندہ ہونے کی وجہ سے فلم نامہ پڑھ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن اس لڑکے کی معصوم اور سادہ نگاہیں اس کردار میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تھیں۔ اس فلم میں تسلیمی اور عدنان کے دو افراد پر مشتمل مناظر ایرانی سنیما کے یادگار مناظر میں سے ہیں۔ [8]
اس کے برعکس، بعض نقاد اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ فلم 1980ء کی دہائی میں ایرانی عوام کے اعتقادی اور قومی مسائل سے کم ہی عہدہ برآ ہوئی ہے اور اس کا پیغام نعروں پر مبنی ہے۔ [9]
اس فلم میں اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی سنیما میں پہلی بار مقامی زبان استعمال ہوئی ہے۔ [10]
اس کے علاوہ یہ فلم ٹوکیو کے پہلے چینل، جرمنی کے ZDF اور فرانس کے مختلف چینلز جیسے معتبر ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پر بھی نشر ہوئی۔ [11]
اس شعبے کے بعض نقادوں کے خیال میں فلم "باشو، غریبہ کوچک" کی کہانی درج ذیل چیزوں کا مرکب ہے: "ماں" (لیو باورونکووا کی تحریر، ترجمہ فاطمہ زہروی، ناشر: کانون پرورش فکری کودکان و نوجوانان)، "مهاجر کوچک" (رضا رہگزر کی تحریر، ناشر: کانون پرورش فکری کودکان و نوجوانان)، "لیو ٹالسٹائی" کی ایک مختصر کہانی جس کا نام "عید پاک" ہے، اور عوامی روایات میں مشہور اور بارہا شائع ہونے والی ایک پرانی حکایت (ایک روایت کے مطابق ملا نصر الدین سے اور دوسری روایت کے مطابق بہلول سے منسوب) ہے۔ ان ماہرین کے خیال میں بیضائی نے ان کہانیوں پر جو محنت کی ہے، وہ واقعات کے مقام کو روس اور تہران سے شمالی علاقے میں تبدیل کرنا، اس خطے کے بعض قدرتی عناصر اور مخصوص رسم و رواج اور نیز بعض اداکاروں کے انتخابات کی تصویری دلکشی سے فائدہ اٹھانا ہے۔ [12]
[1] عبدی، محمد، غریبه بزرگ، تهران، ثالث، 2004، ص 257؛ ماهنامه صنعت سینما، ش 146، اگست 2014، ص 48
[2] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلمهای جنگ و دفاع ایران، تهران، ساقی، 2013، ص 51
[3] صدر، حمیدرضا، درآمدی بر تاریخ سیاسی سینمای ایران، تهران، نی، 2002، ص 283.
[4] عبدی، محمد، سابق، ص 257.
[5] حیدری، غلام، فیلمشناخت ایران، تهران، قطره، 2004، ص 147.
[6] عبدی، محمد، سابق ، ص 94 ؛ امیری، نوشابه، جدال با جهل، تهران، ثالث، 2009، ص 123 و 124.
[7] صدر، حمیدرضا، درآمدی بر تاریخ سیاسی سینمای ایران، تهران، نی، 2002، ص 283
[8] «ایستگاه بازگشت، مروری بر سینمای دهه 60»، نشریه فیلم و سینما، ش 254، ص 1
[9] ماهنامه فیلمنگار، ش 152، جولائی 2016، ص 35 ـ 34.
[10] طالبینژاد، احمد، سینما اگر باشد، تهران، روزنه، 2018، ص 110 تا 111 و 190، عبدی، محمد، سابق ، ص 257.
[11] سابق ، ص 128.
[12] - http://www.sarshar.org
