آثار

"قلب سفید قاصدک ھا"

مریم لطیفی
24 دورہ

افشین محمودی کی 2014 کی ایک فیچر فلم ہے، جس میں دو جنگ زدہ بچوں کی زندگیوں اور انہیں درپیش مسائل کو دکھایا گیا ہے۔

ڈائریکٹر اور رائٹر افشین محمودی، پروڈیوسر علی رونتان، پروڈکشن مینیجر حسین اسماعیلی، سیٹ ڈیزائنر کوروش امانی، کاسٹیوم ڈیزائنر سمیرا موہنسان، میک اپ ڈیزائنر محسن دارسنج، موسیقی محمد فرشتہ نژاد، ساؤنڈ انجینئر اور ساؤنڈ مکسر اصغر آبگون، کیمرہ مین مصطفیٰ کشفی، تدوین حسین زندباف،مشاور برائے مقامی زبان کوروش دیلمی، منظر نامہ مونا خوش روش، ایگزیکٹو مینیجر   کیارش عباسی اور اداکاروں میں ماہ چہرہ خلیلی، حبیب بختیاری ، آزادہ شمس، کاظم روزی طلب، آرسام تہرانچی ، علی نکتہ سنج، مہشید خاکی، نیما داودی  اور دیگر شامل تھے۔[1]

نوے منٹ کی یہ فلم امین کلچرل اینڈ آرٹسٹک پروڈکشن کی کاوش ہے اور اسے 2017 میں ریلیز کیا گیا ۔ یہ ایرانی سنیما کی تاریخ میں سب سے کم کمائی کرنے والی فلموں میں سے ایک ہے، جس کی کل فروخت 840,000 ریال ہے۔[2]اکس آفس پر ناکامی کے بعد، فلم کو نومبر 2017 میں سورہ ویژول آرٹس انسٹی ٹیوٹ نے ہوم تھیٹر کی نمائش کے لیے ریلیز کیا۔[3]

قلب سفید قاصدک ]ڈینڈیلین[ ‌کو 2014 میں 28 ویں انٹرنیشنل چلڈرن اینڈ یوتھ فلم فیسٹیول[4] اور 2015 میں 29 ویں انٹرنیشنل یوتھ فلم فیسٹیول میں دکھایا گیا تھا، [5]لیکن کوئی بھی ایوارڈ جیتنے میں ناکام رہی۔

آٹھ سالہ ہانیہ (مہشید خاکی)خرم شہر پر عراقی حملے کے نتیجے میں  اپنے والدین اور دادی کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتی ہے ۔ اسے اور اس کے بھائی ہومن (نیما داؤدی) کو جنگ سے دور ایک گاؤں میں ان کی ماں  کے ماموں، "جان بابا "(حبیب بختیاری) کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ جان بابا ایک امام زادے کے مزار پر  خادم کے فرایض انجام دیتے ہیں  اور اکیلے رہتے ہیں۔ وہ نہایت خوشی سے ہانیہ اور ہومن کو کفالت میں لے لیتے ہیں۔

ہومن خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے، لیکن ہانیہ، ڈر کی وجہ سے، خود کو  نئے حالات کے مطابق ڈھالنے میں قاصر  دکھائی دیتی ہے۔ اسکول کے پہلے دن، راستے میں اور کلاس میں، ہم جماعت بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتی ہے اور پھر اسکول جانا چھوڑ دیتی ہے۔ ہومن اسے اپنا فیصلہ بدلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر کامیاب نہیں ہوتا۔

ہومن کے اصرار پر، ہانیہ اپنے بال لڑکوں کی طرح چھوٹے کروا لیتی ہے اور ہومن کے ساتھ اس کے اسکول جاتی ہے۔ ہومن اور "ماهان" (ہانیہ کا نیا نام) اسکول کے پرنسپل کو راضی کر لیتے ہیں کہ ماہان بھی وہیں تعلیم حاصل کرے۔ کچھ عرصے بعد جان بابا کو حقیقت کا علم ہو جاتا ہے، لیکن وہ بچوں سے کچھ نہیں کہتے۔

اسکول جاتے ہوئے ہانیہ کو کئی نشیب و فراز کا سامنا ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن باغ میں ایک کتے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ اپنے خوف پر قابو پا لیتی ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر نے جہاں فلم کی ناکامی پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے وہیں پروڈیوسر، ایڈیٹر اور کچھ اداکاروں نے فلم اور اس کی ناکامی کے بارے میں بات کی ہے۔ فلم کے پروڈیوسر نے دفاع مقدس اور بچوں سے متعلق فلموں پر توجہ نہ دینے کو فلم کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ قرار دیا ہے۔[6]

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ فلم کو ریلیز کے دوران تخریب کاری کی وجہ سے دشمنی کا سامنا کرنا پڑا اور حقیقت یہ ہے کہ آرٹ اینڈ ایکسپیریئنس سنیما نے اس کی ریلیز کو قبول نہیں کیا۔[7] ایک انٹرویو میں، ماہ چہرہ خلیلی نے فلم کی کہانی کو پرکشش اور شاندار قرار دیا، اور ان کا ماننا ہے کہ نامناسب ریلیز اور کچھ تضادات کی وجہ سے فلم فروخت ہونے میں ناکام رہی۔[8]  ان کے بقول دفاع مقدس کے کاموں کی حمایت کو ایک ایسا نعرہ ہے جو حقیقت میں عملی شکل اختیار نہیں کرتا۔[9]

حبیب بختیاری بھی ایک انٹرویو میں، فلم کی کہانی اور اس میں اداکاری کے اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے، کہانی کو خوبصورت، اسکرپٹ کو عمدہ اور اداکاری کو معیاری قرار دیتے ہیں۔[10]

 

 

[1] https://www.mizanonline.ir/fa/news .

[2] سالنامه آماری سینمای ایران سال ۲۰۱۷، ۲۰۱۸، ص 16.

[3] https://www.iscanews.ir/news/886180 ؛ روزنامه ایران، ش 6669، 27/9/۲۰۱۷، ص 24

[4] https://www.farsnews.ir/news/13930712000238.

[5] https://www.farsnews.ir/news/13940706000841

[6] https://www.mizanonline.ir/fa/news/345346 .

[7] http://shabestan.ir/detail/News/631766 .

[8] https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/05/04/1475218

[9] روزنامه جام جم، ش 5010، 13/10/۲۰۱۷، ص 12.

[10] http://hvasl.ir/news/26897.