آثار
بازی بزرگان فیچر فلم
زینب احمدی
13 دورہ
فلم :بازی بزرگان" کامبوزیا پرتوی کی ہدایات میں 1990ء میں بنائی گئی۔ یہ فلم جنگ ایک زدہ لڑکی، ایک لڑکے اور ایک ایسے شیرخوار بچے کی بے سروسامانی اور لاچارگی کی عکاسی کرتی ہے جو جنگ میں اپنے والدین کو کھو چکا ہوتا ہے ۔
اس فلم کےڈائریکٹر کمبوزیہ پرتوی، پروگرامر حسن پورشیرازی، مشیر آزیتا صالحی، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز حسن پورشیرازی اور اردشیر رحمان زادہ، فوٹو گرافی کے ڈائریکٹر حسین ملکی، اسسٹنٹ سینماٹوگرافر علی اللہیاری، کیمرہ کریو علی بابائی، علی اصغر فرہادی اور اسماعیل نورائی، ساؤنڈ ایڈیٹرز: نظام الدین کیایی، ہوشنگ نیکپور، اسپیشل ایفیکٹس علی اصغر پورہاجریان، تدوین واروج کریم مسیحی، موسیقی مہرداد جنابی، فوٹوگرافر حسین مالکی، پروجیکٹ مینیجر: محمد مہدی دادگو، پوسٹر ڈیزائنر مجید اخوان، پروڈیوسر محمد مہدی دادگو اور عباس رنجبر ہیں، جبکہ اداکار رزگار محمد امین، روجان عمری، شادی قاضی پور، پوری فاطمہ، یونس آتشک، علی مولائی، ابراہیم عمری، محمد ابراہیم یوسفی، اور دیگران شامل ہیں۔
80 منٹ کے دورانیے کی یہ فلم ایک سینما ٹیم کی پیشکش ہے، جو15 اپریل 1993 کو تہران کے متعدد سینما گھروں جیسے فرہنگ، استقلال، شہر تماشا، رودکی، عصر جدید، آرش، المپیا، شیرین، جمہوری، ملت، تیسفون اور دیگر کئی جگہوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور 7,414,850 ریال کا بزنس کیا[1]۔ پانچویں دفاع مقدس فلمی میلے میں نوجوان اداکارہ رژان عمری کو بہترین اداکاری کا ایوارڈ بھی دیا گیا[2]۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایران-عراق جنگ کے دوران مغربی سرحدی شہر پر حملے میں کئی بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں اور باقی لوگ بمباری سے بچنے کے لیے شہر چھوڑ دیتے ہیں۔ "مریم" نامی ایک لڑکی (رژان عمری) جو ایک چوٹ سے بے ہوش ہو جاتی ہے، ہوش میں آ کر دیکھتی ہے کہ شہر پر عراقی فوج کا قبضہ ہے۔ وہ ٹوٹی پھوٹی آبادی میں ماری ماری پھرتی ہے، جنگی تباہی سے کھنڈر بننے والے گھروں میں سے ایک گھرسےاسے ایک شیرخوار بچہ ملتاہے اور پھر ایک نوجوان "یونس" (رزگار محمدامین) سے بھی اس لڑکی کی ملاقات ہوتی ہے، جو مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب یہ دونوں اس شیرخوار کو بچانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے لیے والدین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن بچے کے رونے سے ان کا ٹھکانہ افشا ہو جاتا ہے اور عراقی فوج حملہ کر دیتی ہے۔ مریم اور بچہ گرفتار ہو جاتے ہیں، مگر ایک مہربان عراقی سپاہی کی مدد سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ یونس کو بھی شہر کے بوڑھوں کے ساتھ قید کر لیا جاتا ہے[3]۔
تنقید گزار حضرات کے مطابق یہ فلم جنگ زدہ بچپن کی یادوں پر مبنی ہے۔ فلم کا عنوان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ بچے یا نوجوان جنگی حالات میں بڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مریم بچے کو دودھ دیتی ہے، یونس عراقی فوجیوں سے لڑتا ہے، دونوں خریداری کرتے ہیں، آپس میں لڑتے ہیں، صلح کرتے ہیں، پھر ایک دوسرے کوتحفے دے کر منا لیتے ہیں؛ یعنی بعینہ بڑوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ہدایت کار ان نوجوان بچوں کے ذریعے بڑوں کے تعلقات کو ایک نیا انداز دیا ہے، لیکن اس انداز کو پیش کرنے میں ہدایت کار جنگی ماحول اور خوفناک فضا کو قایم کرنے سے غافل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں جنگی مناظر اور جذباتی اثرات کی پیشکش میں کمی رہ گئی ہے۔ بچوں کو مرکزی کردار میں لانا فلم کا اصلی مقصد نہیں ہے ، بلکہ یہ جنگی سینما میں ایک نیا تجربہ ہے جس کے نے نتیجے میں ہدایت کار جنگی ماحول میں ایک نئی فضا قائم کرنا چاہتا ہے ۔
تنقید گزار حضرات کے مطابق فلم کے ابتدائی مناظر میں دیہی علاقے پر حملہ دکھایا گیا ہے، مگر یہ مناظر غیر فطری اور مصنوعی لگتے ہیں۔ جنگی مناظر، دھماکے اور اداکاروں کے ردعمل کو مؤثر انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ مریم کے چہرے پر خوف یا اضطراب نظر نہیں آتا، جو ہدایت کار کی اداکاری کے حصول میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، یہ انداز ہدایت کار کا شعوری انتخاب بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا زاویہ نظر نیا ہے، مگر فلم کے جنگی پہلو کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
کئی ناقدین کے مطابق کامبوزیا پرتوی حقیقت پسندانہ سینما کے علمبردار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت بذاتِ خود خوبصورت ہے اور فن اسی حقیقت کا عکس ہونا چاہیے۔ اسی لیے وہ پیشہ ور اداکاروں کی بجائے عام افراد کو کرداروں میں پیش کرتے ہیں تاکہ اداکاری فطری اور قابلِ یقین ہو۔ اگرچہ ہدایتکار نے اس جنگی فلم میں ایک خاص تدبیر اختیار کی ہے، لیکن وہ جنگی فضا قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کرداروں سے مؤثر اداکاری نہ کروانے کے باعث، وہ افراد بھی جنگی حالات میں اپنے کردار کو درست طور پر نبھا نہیں سکے اور اس خاص کیفیت کو ناظرین تک منتقل کرنے میں ناکام رہے[4]۔
تنقید گزار حضرات کہتے ہیں کہ فلم"بازی بزرگان" میں حالات اور موضوعات تو اچھے ہیں، لیکن فلمبندی، ہدایتکاری اور سینمائی پیشکش میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں[5]۔
فلم میں نہ تو کوئی سسپینس ہے اور نہ ہی کوئی واضح کہانی، اسی وجہ سے اس میں سینمائی کشش نہیں ہے۔ ہدایتکار نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کچھ دلکش اور خوشگوار مناظر شامل کیے ہیں جو ناظرین کی توجہ حاصل کر سکیں۔ مثال کے طور پر وہ منظر جہاں ایک لڑکی اور لڑکا دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہیں اور ایک نومولود بچے کو اپنے بچے کی طرح ساتھ لٹا رکھا ہے، ناظرین کے ذہن میں والدین کا کردار اور ایک خاندان کا تصور پیدا کرتا ہے، جو دیکھنے والوں کو خوشی دیتا ہے۔ ایسے مناظر فلم میں کم نہیں ہیں، اور اگرچہ ان میں کوئی حادثہ یا سسپینس نہیں، پھر بھی یہ ناظرین کو متاثر کرتے اور فلم میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں ۔
فلم میں کچھ علامتیں قابلِ توجہ ہیں۔ مثلاً، لڑکی اس بچے کا نام "ابراہیم" رکھتی ہے۔ فلمساز اس تدبیر کے ذریعے حضرت ابراہیم (ع) کی زندگی کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور حضرت ابراہیم، ان کی زوجہ اور بیٹے اسماعیل کی زندگی کو اس چھوٹے جوڑے سے مشابہت دینا چاہتے ہیں؛ جیسے ہاجر اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے ایک بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ دیا گیا تھا اور ہاجر اپنے بچے کے لیے پانی تلاش کرتی ہیں۔ جنگ زدہ اس چھوٹے جوڑے کی بے وطنی اور نومولود بچے کے ساتھ صحرا میں موجودگی ایک روحانی کیفیت پیدا کرتی ہے اور ہاجر کی پانی کی تلاش کی یاد دلاتی ہے۔ تاہم، آخرکار فلم کسی گہرے پیغا کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ صرف اس چھوٹے جوڑے کی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے[6]۔
کچھ تنقید گزاروں کا کہنا ہے کہ فلم ان بچوں کو دکھانا چاہتی ہے جو جنگ جیسے سخت حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے اور بڑوں کی طرح کچھ کام انجام دے کر کے دنیا کو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بڑے ہو رہے ہیں۔ لیکن حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کے پیش نظر فلم کا جنگی ماحول لڑکی کی اداکاری سے میل نہیں کھاتا اور فلم میں خواب اور حقیقت کا ایک عجیب امتزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ عمومی ماحول جنگی اور وحشتناک ہے یعنی جنگ ، بے چارگی اور بے وطنی، لیکن لڑکی بہت پرسکون دکھائی دیتی ہے اور عراقی فوجیوں سے کوئی خوف یا پریشانی محسوس نہیں کرتی۔ یہی دوگانگی لڑکی کی اندرونی دنیا اور بیرونی جنگی دنیا کے درمیان تعلق کو منقطع کر دیتی ہے۔ یہ حقیقت کہ بیرونی حالات کا لڑکی کے رویے پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ خوفناک اور پرتشدد ماحول میں بھی پرسکون ہے اور اس کا کوئی ردعمل نہیں ہے، غیر فطری محسوس ہوتی ہے۔
[1] سالنامه آماری سینمای ایران سال 1994، تهران، 2017، ص ۱۲
[2] http://www.sourehcinema.com/.
[3] بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران- فیلمشناسی سینمای ایران 1930- 1996، ج 1، تهران، قطره، ۱۳۸4، ص ۲۷۸ و ۲۷۹
[4] ماهنامه سینمایی فیلم، ش ۱۴۲، سال 11، مئی 1993، ص ۷۶-۷۸.
[5] روزنامه جمهوری اسلامی، ش ۴۰۴۸، 26 مئی 1993، ص ۱۲؛ روزنامه جمهوری اسلامی، ش ۴۰۲۶، 28 اپریل 1993، ص ۱۶.
[6] روزنامه جمهوری اسلامی، ش ۴۰۲۶، 28 اپریل 1993،، ص ۱۶.
