مقامات
شوشتر
پریا سبزمحمدی
21 دورہ
شوشتر صوبہ خوزستان کے شہروں میں سے ہے جو ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز سے ہی عراقی فضائی حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔
شوشتر، جنوبی ایران کے صوبہ خوزستان کے شہروں میں سے ایک، زمانہ اسلام سے قبل سے موجودہ رہا ہے۔ اس شہر کے تین حصے، مرکزی، گتوند اور عقیلی ہیں۔ شمال سے دزفول، جنوب سے اہواز، مغرب سے شوش، مشرق سے مسجد سلیمان اور جنوب مشرق سے رام ہرمز کا ہمسائیہ ہے۔ شوشتر کا مطلب ’بہت خوب‘ ہے اور پانی کی کثرت اور زمین کی زرخیزی کی وجہ سے اِس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔
اِس علاقے کی آب و ہوا گرم اور کبھی گرم اور مرطوب ہوتی ہے۔ شہر کے باسی ہفتلنگ بختیاری قبائل کی متعدد شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں اور علاقائی فارسی زبان میٹھی بولی اور لہجے کے ساتھ بولتے ہیں۔
دریائے کارون کا پانی گتوند میں داخل ہوتا ہے اور شوشتر شہر کے شمالی حصے میں ’شطیط‘ اور ’گرگر‘ نامی دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جنوب میں 44 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد یہ دونوں شاخیں بند قیر نام کے مقام پر مل جاتی ہیں۔ اس شہر کی قدیم آثار میں شادروان ڈیم اور پل، سلاسل قلعہ، آبشاریں (ان آبشاروں کے راستے میں کچھ واٹر ملز ہیں جو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں)، کلاہ فرنگی ٹاور، غاریں اور عسکر مکرم شہر شامل ہیں۔
ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے چھٹے دن 27 ستمبر 1980ء کو شوشتر میں عراقی فضائیہ کا حملہ ہوا کہ جس میں تین شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ کچھ دنوں بعد 8 اکتوبر 1980ء کی صبح دوبارہ عراقی فضائیہ نے حملہ کیا۔
دو دن بعد، 10 اکتوبر 1980ء کو صبح 10 بجے دو عراقی طیاروں نے شوشتر پر بمباری کی جس سے ژاندارمری[1] کی عمارت اور اِس کے آس پاس کے رہائشی مکانات کے شیشے ٹوٹ گئے اور شہر کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا۔ شوشتر پل اور دزفول کے اردگرد بھی دو راکٹ فائر کیے گئے جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اگلے دن پیرس نیوز ایجنسی نے شوشتر پر حملہ آور عراقی میگ طیاروں کے حملے کے بارے میں لکھا: کل صبح شہر کے قریب متعدد بم گرے۔ اس حملے کے نتیجے میں شہر کے ایک حصے میں بجلی منقطع ہو گئی اور شہر کی بعض عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
25 اکتوبر 1980ء کو شوشتر میں دو عراقی میگ طیاروں نے مشین گن سے حملہ کیا لیکن طیارہ شکن فائر کی وجہ سے وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اس حملے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
1980ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں دزفول، اہواز، شوش، آبادان، خرمشہر، سوسنگرد، دشت آزادگان، حمیدیہ وغیرہ شہروں سے جنگ کے متاثرین نے نسبتاً محفوظ ہونے اور اُن کے رہنے کی جگہ سے نزدیکی کی وجہ سے شوشتر اور اِس طرح کے شہروں جیسے ماہشہر اور بہبہان کی طرف ہجرت کی۔
5 مئی 1981ء کو دو عراقی طیاروں نے شوشتر کے گاؤں بنی زیدان کے گندم کے کھیتوں پر بمباری کی۔ اِس میں بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کچھ عرصے بعد ایران کی اقلیتی عوام کی وفادار گوریلا تنظیم کے ارکان میں سے ایک، جو تنظیم کی افرادی قوت کو تنظیم سازی کا ذمہ دار تھا، 21 اگست 1981ء کو اُسے شوشتر میں پہچان لیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔
11 نومبر 1981ء کو صبح 7 بجے تیر چوک شوشتر میں دھماکہ ہوا جس میں دو بچے زخمی ہوئے۔
23 ستمبر 1982ء کو مجاہدین خلق تنظیم کی شکست کے بعد بسیج اور سپاہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے اور شوشتر میں سپاہ کے ڈپو سے گولہ بارود چرانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں تنظیم کے اس علاقے کی سکیورٹی اور تنظیمی شعبوں کے اہلکار بھی شامل تھے۔
بائیس دن بعد، 15 اکتوبر 1982ء کو تین منافقین گرفتار کیے گئے جو سپاہ کے گولہ بارود کے گودام سے TNT چرانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ بم دھماکے، تخریب کاری اور لوگوں کے درمیان خوف و ہراس پھیلا سکیں۔
20 جنوری 1983ء کو اس شہر پر پانچ بار فضائی حملہ کیا گیا جسے جمہوری اسلامی ایران کے ایئر ڈیفنس نے ناکام بنا دیا۔
1982-1983میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ساتویں بریگیڈ کو ڈویژن میں تبدیل کرنے کے بعد شوشتر اور صوبے کے دیگر شہروں سے مجاہدین بھی اِس ڈویژن میں شامل ہو گئے اوربعد میں ہونے والے آپریشنز میں موجود رہے۔
4 اکتوبر1986ء کو دوپہر 2 بج کر 50 منٹ پر چھ عراقی طیاروں نے شوشتر کے مضافات میں کارون ایگریکلچر اینڈ انڈسٹری کمپنی اور کمپنی کے لیبر ٹاؤن (بوستان ٹاؤن) پر بمباری کی، جس میں کمپنی کی تنصیبات اور گوداموں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ، کمپنی کے 21 افراد اور اُن کے اہلخانہ شہید ہوئے اور 150 افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے میں عراقی طیاروں نے کمپنی کے گوداموں اور احاطے پر مشین گنوں سے فائرنگ کی اور علاقے سے فرار کرتے ہوئے گنے کے کھیتوں میں متعدد راکٹ پھینکے جس کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی۔ ان حملوں میں سوخو طیاروں میں سے ایک اس علاقے میں تعینات فضائی دفاع کا نشانہ بنا اور گر گیا۔ شوشتر ایگریکلچر اینڈ انڈسٹری کمپنی پر بمباری اس کمپلیکس میں فصل کی کٹائی شروع کرنے کی مقررہ تاریخ سے صرف ایک دن پہلے ہوئی، جو دشمن نے مقامی جاسوسوں کی اطلاع سے کی تھی۔
29 اور 30 اکتوبر 1986ء کو صدام کی فوج نے شوشتر کے قریب جنگی مہاجرین کے ٹاؤن پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کی جن میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے اور نقصانات بھی ہوئے۔ کئی عراقی طیاروں نے گتوند ڈیم کے علاقے میں مہاجرین کیمپ پر بھی بمباری کی جس سے مالی نقصانات کے علاوہ چھ افراد شہید اور اٹھارہ افراد زخمی ہوئے۔ حملہ آور طیاروں نے گتوند کے قریب 18ویں الغدیر بریگیڈ کے مقام اور شوشتر کے اطراف میں انبیا فوجی گیریژن پر بھی بمباری کی۔
21 اگست 1987ء کو صبح 11 بج کر 25 منٹ پر کارون ایگریکلچر اینڈ انڈسٹری کمپنی پر تین عراقی طیاروں سے دوبارہ حملہ کیا گیا اور آٹھ راکٹ فائر کیے گئے، لیکن چونکہ یہ حملہ چھٹی کے دن ہوا تھا، اس لیے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔
25 دسمبر 1987ء عراقی طیاروں نے ملک کے جنوب میں سپاہ کے متعدد عقبی یونٹوں پر بمباری کی، ان میں سے ایک شوشتر کا مضافاتی علاقہ تھا۔
14 اور 15 مارچ 1988 کو عراق کے کچھ طیاروں نے شوشتر کے متعدد رہائشی علاقوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 29 افراد شہید اور 35 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ اس شہر کے ماتحت گاؤں ابو عظام پر بمباری میں ایک شخص شہید اور ایک زخمی ہوا۔
فروری، مارچ 1987ء میں عراق نے شوشتر پر اس طرح وحشیانہ طریقے سے بمباری کی جس سے یہ شہر تقریباً ویران ہو گیا اور لوگ اردگرد کے دیہاتوں کی طرف ہجرت کر گئے۔
22 مارچ 1988ء کو صبح 10 بجے عراقی طیاروں نے شوشتر کے کئی رہائشی علاقوں پر حملہ کیا۔ اس حملے میں چار افراد شہید اور پندرہ زخمی ہوئے تھے۔
تین دن بعد 25 مارچ 1988ء کو دوبارہ شوشتر پر بمباری ہوئی جس میں کئی مکانات کی تباہی کے علاوہ پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔
6 اپریل 1988 کو عراقی فضائی حملوں میں ایک خاتون اور دو بچوں سمیت چار افراد شہید اور بیس افراد زخمی ہوئے اور مسجد، چند رہائشی مکانوں اور دکانوں کو نقصان پہنچا۔
1982ء میں شوشتر میں مرمت اور بحالی کے دفتر نے 41 رہائشی یونٹوں کی بحالی اور تعمیر نو مکمل کی اور مارچ 1984ء تک جبکہ سابقہ تباہ شدہ کی تعمیر نو مکمل ہو چکی تھی، شوشتر پر دوبارہ حملہ کیا گیا۔
[1] ژاندارمری فرانسیسی زبان کی اصطلاح ہے۔ ژاندارمین اُن افراد کو کہتے ہیں جو پولیس کے مشابہ ہیں یعنی جن کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور جن کا کام سکیورٹی اور امن برقرار رکھنا ہے۔ پولیس اور ژاندارمین میں یہ فرق ہے کہ پولیس بڑے شہروں اور زیادہ آبادی والے علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ ژاندارمین بیس ہزار یا اُس سے کم آبادی والے علاقے میں ہوتے ہیں۔ ژاندار مین کے ہیڈکوارٹر کو ژاندارمری کہتے ہیں۔ یعنی وہ بلڈنگ جس میں ژاندارمین اکٹھے ہوتے ہیں اور رپورٹ کرتے ہیں۔ (مترجم)