آپریشنز

آپریشن کربلا 2

معصومه سجادیان
13 دورہ

سپاہ پاسداران  نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے تعاون سے 1986ء میں حاج عمران کے علاقے اور اِس علاقے کی اہم چوٹیوں کو آزاد کرانے کے لئے آپریشن کربلا 2 انجام دیا۔

عراق نے 14 مئی 1986ء کو 2519 پہاڑی اور شہید صدر پہاڑی پر قبضہ کرلیا۔ ایرانی فورسز نے اِس پہاڑی کی چوٹیوں پر دفاعی لائن تشکیل دی لیکن علاقے پر عراق کے تسلط کی وجہ سے وہ شہید اور زخمی ہوتے رہے اور اِنہیں سپلائی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ آپریشن دشمن کی طاقت کو نیست و نابود کرنے اور حاج عمران کے علاقے کی حساس بلندیوں پر تسلط اور شمالی عراق میں مسلمانوں کی جدوجہد کو جاری رکھنے میں مدد کرنے کے مقصد سے کیا گیا۔ اس آپریشن کے لیے 21 باقاعدہ بٹالین اور 10ویں سید الشھداءؑ ڈویژن کے علاوہ دیگر  سات بٹالینز اور 155ویں  شہدا، 105ویں  قدس، 21 ویں امام رضاؑ، 9 ویں بدر اور 11ویں  قائم بریگیڈز کو منظم  کیا گیا۔ 9ویں بدر بریگیڈ کی حمزہ بٹالین عراقی رضاکار قیدیوں پر مشتمل تھی جن میں فوجی، نان کمیشنڈ  اورکمشنڈ  افسران شامل تھے۔ جنگ کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ عراقی رضاکار قیدی آپریشن میں حصہ لینے جا رہے تھے۔ عراقی جانب سے  حاج عمران کے علاقے کا دفاع 5ویں عراقی فوج کے 23 ویں انفنٹری ڈویژن کے ذمے تھا۔

حاج عمران کے علاقے میں آپریشن کو دو سیکٹروں میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ دائیں سیکٹر میں گردہ کوہ جو شہید صدر کے نام سے مشہور تھا، تختہ سنگی پہاڑی، شہداء پہاڑی اور سرخ پہاڑی جبکہ بائیں سیکٹر میں 2519 واراس پہاڑی اور اِس کی چوٹیاں، تخم مرغ  پہاڑی، شیار آینہ اور سکران کی دو چوٹیاں تھیں۔

عراقی فوج نے 27 اگست کی صبح ایرانی ٹھکانوں پر بمباری کی۔ جیسے جیسے آپریشن کے آغاز کا وقت  قریب آیا، عراقی نقل و حرکت میں تیزی آتی گئی۔ اِس طرح  کہ 30 اگست دن بارہ  بجے سے 31 اگست دن بارہ بجے تک 78 فضائی حملوں سے پیرانشہر اور حاج عمران کے علاقوں  پر بمباری کی۔ عراقی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے حاصل کی گئی دستاویزات اور عراقی قیدیوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عراق آپریشنل علاقے اور آپریشن کے وقت سے باخبر تھا۔ ایوز ڈراپنگ سینٹر سے ملنے والی معلومات کے مطابق 31 اگست کی رات ساڑھے دس بجے عراقی فوج نے ملک بھر میں الرٹ کا اعلان کر دیا۔ رات 10 بج کے 55 منٹ  پر جب عین اُسی وقت ایرانی فورسز چوٹیوں کی جانب بڑھ رہی تھیں، یہ علاقہ بھاری توپ خانے اور سرچ لائٹ فائر کی زد میں آ گیا۔

آپریشن کوڈ یا ابا عبداللہ الحسینؑ کا اعلان 1 ستمبر کی صبح ایک بجے ہوا لیکن عراقی فورسز نے تیرہ منٹ پہلے 105ویں قدس بریگیڈ کی ایک بٹالین کو واراس پہاڑی اور 2519 پہاڑی کے درمیانی کھائی میں  دیکھ لیا اور لڑائی  پہلے ہی شروع ہو گئی۔

دائیں سیکٹر میں 9ویں بدر بریگیڈ، تین آپریشنل بٹالینز کے ساتھ (شہید صدر، شہید دستغیب ، شہید بہشتی) ور حمزہ بٹالین جو ریزرو بٹالین تھی، شہید صدر پہاڑی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ 11ویں قائم بریگیڈ کی فورسزآپریشنل منصوبے کے مطابق تختہ سنگی پہاڑی پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن 9ویں بدر بریگیڈ نے اپنی پیش قدمی کے تسلسل میں اِس پہاڑی پر بھی قبضہ کر لیا۔

155ویں شہدا بریگیڈ نے ابتدائی طور پر 2519 کی پہاڑی پر قبضہ کیا۔ لیکن جب دشمن کا جوابی حملہ شروع ہوا تو اِسے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور 2519 پہاڑی میں صرف نچلی چوٹی پر قدم جمانے کے بعد واپس لوٹ گئی۔

105 ویں قدس بریگیڈ نے خود کو دشمن تک پہنچایا اور میثم بٹالین نے واراس کی بلندی کے قریب پہنچ کر اپنے اہداف کا کچھ حصہ حاصل کر لیا۔ لیکن 2519 پہاڑی کی نچلی چوٹیوں اور تخم مرغ پہاڑی کی چوٹیوں کی کلیئرنس نہ ہونے کے سبب اور دشمن کی ہوشیاری کی وجہ سے بھی یہ بٹالین محاصرے میں آ گئی۔ بریگیڈ کی باقی فورسز صبح تک واپس لوٹ گئیں۔

10ویں سید الشہداء ڈویژن تخم مرغ پہاڑی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن دشمن کی شدید گولہ باری کی وجہ سے جو  2519 پہاڑی اور سکران چوٹی سے کی جارہی تھی، عقب نشینی پر مجبور ہو گئے۔

حمزہ بٹالین کے کمانڈر کرنل ابو فارس نے آپریشن کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی عراقی کمانڈ پوسٹ کا محاصرہ کرنے کے بعد فوجیوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر ساڑھے 8 بجے کیمپ  پر قبضہ کرلیا۔ بدر کے 9ویں بریگیڈ نے 3:30، 8 اور 12:00  ہونے والے تین عراقی جوابی حملوں  کو  پسپا کیا۔ لیکن دیگر یونٹس صبح کے قریب واپس لوٹ گئے اور سابقہ ​​دفاعی لائنوں میں جا کر ٹھہر گئے۔دشمن کے جوابی حملوں کے علاوہ، صبح ایک بجنے سے تین منٹ قبل سے دوپہر ایک بجے تک، 165 فضائی حملوں میں ، ہر قسم کے عراقی لڑاکا اور بمبار طیاروں کے ذریعے ایرانی فورسز کی پوزیشنوں اور بیس پر بمباری کی  گئی۔

1ستمبر بروز پیر صبح ساڑھے نو بجے ایرانی فوج کے کئی طیاروں نے قصر عراق کی فوجی گیریژن پر بمباری کی جو مواصلات،افرادی قوت کے جمع ہونے  اور لاجسٹکس کا مرکز تھا۔ اس طرح بمباری کی گئی کہ عراقی فوج کا مواصلاتی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔

آپریشن کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے، رحیم صفوی(سپاہ کی زمینی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر)، حمزہ کیمپ کے کمانڈر اور آپریشنل یونٹس کے کمانڈروں کی موجودگی میں ایک میٹنگ ہوئی، جس کے مطابق شہید صدر پہاڑی کی حفاظت اور استحکام  جبکہ 2519 پہاڑی پر مکمل قبضہ ترجیحی اقدامات میں سے قرار دیا گیا۔ 155ویں خصوصی شہداء بریگیڈ کو 2519 ویں پہاڑی پر قبضہ مکمل کرنے کا کام سونپا گیا تھا اور امام رضا علیہ السلام کی 21ویں بریگیڈ کو بھی مدد کے لیے مدنظر رکھا گیا۔2 ستمبر کےابتدائی گھنٹوں میں ایرانی فورسز نے بعض ٹھکانوں  پر قبضہ کر لیا جو عراق نے پہاڑی کی حفاظت کےلئے قائم کئے تھے لیکن عراقی فوج کے دباؤ کی وجہ سے وہ پسپائی پر مجبور ہو گئے۔

ایوی ایشن کے پائلٹوں نے 16 ہیلی کاپٹروں اور دو سو گھنٹے پرواز کے ساتھ 164 زخمیوں، تین سو مجاہدین  کو نکالا اور 24 ٹن گولہ بارود اور سامان اٹھایا۔

اس آپریشن میں ایرانی فورسز، عراق کی 807ویں انفنٹری بریگیڈ، 98ویں انفنٹری بریگیڈ کو ساٹھ فیصد، 604ویں انفنٹری بریگیڈ کو پچاس فیصد، 438ویں انفنٹری بریگیڈ کو تیس فیصد، 91ویں انفنٹری بریگیڈ کو تیس فیصد، ابو عبیدہ کمانڈو بٹالین  اور عراق کے 23ویں ڈویژن کے ماتحت ایک کمانڈو بٹالین کو اسی فیصد تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

عراقی فورسز میں سے تین ہزار افراد ہلاک یا زخمی ہوئے اور 277 افراد کو پکڑ لیا گیا۔  چھ عراقی ٹینک اور عملہ بردار گاڑیاں  غنیمت کے طور پر ایرانی قبضے میں آ گئے۔اور ایک ہوائی جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ کر دیا  گیا۔

سپاہ پاسداران  نے جمہوری  اسلامی ایران کی فوج کے تعاون سےسال  1986ء  میں حاج عمران کے علاقے، اِس علاقے کی اہم چوٹیوں کو آزاد کرانے کے لئے آپریشن کربلا 2 انجام دیا۔

عراق نے 14 مئی 1986ء کو 2519 پہاڑی اور شہید صدر پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ ایرانی فورسز نے اِس پہاڑی کی چوٹیوں  پر دفاعی لائن تشکیل دی لیکن علاقے پر عراق کے تسلط کی وجہ سےوہ شہید اور زخمی ہوتے رہے اور اِنہیں سپلائی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ آپریشن دشمن  کی طاقت کو نیست و نابود کرنے اور حاج عمران کے علاقے کی حساس بلندیوں پر تسلط اور شمالی عراق میں مسلمانوں کی جدوجہد کو جاری رکھنے میں مدد کرنے کے مقصد سے کیا گیا۔ اس آپریشن کے لیے 21 باقاعدہ بٹالین اور 10ویں سید الشھداءؑ ڈویژن کے علاوہ دیگر  سات بٹالینز اور 155ویں  شہدا، 105ویں  قدس، 21 ویں امام رضاؑ، 9 ویں بدر اور 11ویں  قائم بریگیڈز کو منظم  کیا گیا۔ 9ویں بدر بریگیڈ کی حمزہ بٹالین عراقی رضاکار قیدیوں پر مشتمل تھی جن میں فوجی، نان کمیشنڈ  اورکمشنڈ  افسران شامل تھے۔ جنگ کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ عراقی رضاکار قیدی آپریشن میں حصہ لینے جا رہے تھے۔ عراقی جانب سے  حاج عمران کے علاقے کا دفاع 5ویں عراقی فوج کے 23 ویں انفنٹری ڈویژن کے ذمے تھا۔

حاج عمران کے علاقے میں آپریشن کو دو سیکٹروں میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ دائیں سیکٹر میں گردہ کوہ  جو شہید صدر کے نام سے مشہور تھا، تختہ سنگی  پہاڑی، شہداء پہاڑی اور سرخ پہاڑی جبکہ بائیں سیکٹر میں 2519 واراس پہاڑی اور اِس کی چوٹیاں،  تخم مرغ  پہاڑی، شیار آینہ  اور سکران کی دو چوٹیاں تھیں۔

عراقی فوج نے 27 اگست  کی  صبح ایرانی ٹھکانوں پر بمباری کی۔ جیسے جیسے آپریشن کے آغاز کا وقت  قریب آیا، عراقی  حرکت میں تیزی آتی گئی۔ اِس طرح  کہ 30 اگست  دن  بارہ  بجے سے 31 اگست  دن بارہ بجے تک 78 فضائی حملوں  سے پیرانشہر اور حاج عمران کے علاقوں  پر بمباری کی۔ عراقی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے حاصل کی گئی دستاویزات اور عراقی قیدیوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عراق آپریشنل علاقے اور آپریشن کے وقت سے باخبر تھا۔ ایوز ڈراپنگ سینٹر سے ملنے والی معلومات کے مطابق 31 اگست کی  رات ساڑھے دس بجے عراقی فوج نے ملک بھر میں الرٹ کا اعلان کر دیا۔ رات 10 بج کے 55 منٹ  پر جب عین اُسی وقت ایرانی فورسز چوٹیوں کی جانب بڑھ رہی تھیں، یہ علاقہ بھاری توپ خانے اور سرچ لائٹ فائر کی زد میں آ گیا۔

آپریشن  کوڈ  یا ابا عبداللہ الحسینؑ کا اعلان    1 ستمبر  کی صبح ایک بجے ہوا لیکن  عراقی فورسز نے تیرہ منٹ پہلے  105ویں قدس بریگیڈ کی ایک بٹالین کو واراس پہاڑی اور 2519 پہاڑی کے درمیانی گیپ میں  دیکھ لیا اور لڑائی  پہلے ہی شروع ہو گئی۔

دائیں سیکٹر میں 9ویں بدر بریگیڈ، تین آپریشنل بٹالینز کے ساتھ (شہید صدر، شہید دستغیب ، شہید بہشتی) ور حمزہ بٹالین جو ریزرو بٹالین تھی، شہید صدر پہاڑی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ 11ویں قائم بریگیڈ کی فورسزآپریشنل   منصوبے کے مطابق تختہ سنگی پہاڑی پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن 9ویں بدر بریگیڈ نے اپنی پیش قدمی کے تسلسل میں اِس پہاڑی پر بھی قبضہ کر لیا۔

155ویں شہدا بریگیڈ نے ابتدائی طور پر 2519 کی پہاڑی  پر قبضہ کیا۔ لیکن جب دشمن کا جوابی حملہ شروع ہوا تو اِسے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور 2519 پہاڑی  میں صرف  نچلی چوٹی پر قدم جمانے کے بعد واپس لوٹ گئی۔

105 ویں قدس بریگیڈ نے خود کو دشمن تک پہنچایا اور میثم بٹالین نے واراس کی بلندی کے قریب پہنچ کر اپنے اہداف کا کچھ حصہ حاصل کر لیا۔ لیکن 2519 پہاڑی کی نچلی چوٹیوں   اور تخم مرغ پہاڑی کی چوٹیوں کی کلیئرنس نہ ہونے کے سبب اور دشمن کی ہوشیاری کی وجہ سے بھی یہ بٹالین محاصرے میں آ گئی۔ بریگیڈ کی باقی فورسز صبح تک واپس لوٹ گئیں۔

10ویں سید الشہداء ڈویژن تخم مرغ پہاڑی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن دشمن کی شدید گولہ باری کی وجہ سے جو  2519 پہاڑی اور سکران  چوٹی سے کی جا رہی تھی، عقب نشینی پر مجبور ہو گئے۔

حمزہ بٹالین کے کمانڈر کرنل ابو فارس نے آپریشن کے ابتدائی گھنٹوں  میں ہی  عراقی کمانڈ پوسٹ کا محاصرہ کرنے کے بعد فوجیوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر ساڑھے 8 بجے کیمپ  پر قبضہ کر لیا۔ بدر کے 9ویں بریگیڈ نے 3:30، 8 اور 12:00  ہونے والے تین عراقی جوابی حملوں  کو  پسپا کیا۔  لیکن دیگر یونٹس صبح کے قریب واپس لوٹ گئے اور سابقہ ​​دفاعی لائنوں میں جا کر ٹھہر گئے۔دشمن کے جوابی حملوں کے علاوہ، صبح ایک بجنے سے تین منٹ قبل سے دوپہر ایک بجے تک، 165 فضائی حملوں میں ، ہر قسم کے عراقی لڑاکا اور بمبار طیاروں کے ذریعے ایرانی فورسز کی پوزیشنوں اور بیس پر بمباری کی  گئی۔

1 ستمبر  بروز پیر صبح ساڑھے نو بجے ایرانی فوج کے کئی طیاروں نے قصر عراق کی فوجی گیریژن پر   بمباری کی جو مواصلات،افرادی قوت کے جمع ہونے  اور لاجسٹکس  کا مرکز تھا۔ اس طرح بمباری کی گئی کہ عراقی فوج کا مواصلاتی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔

آپریشن کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے، رحیم صفوی (سپاہ  کی زمینی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر) ،  حمزہ کیمپ کے کمانڈر اور آپریشنل یونٹس کے کمانڈروں کی موجودگی میں ایک میٹنگ ہوئی، جس کے مطابق شہید صدر پہاڑی کی حفاظت اور استحکام  جبکہ 2519 پہاڑی پر مکمل قبضہ ترجیحی اقدامات میں سے قرار دیا گیا۔  155ویں خصوصی شہداء بریگیڈ کو 2519 ویں پہاڑی  پر  قبضہ مکمل کرنے کا کام سونپا گیا تھا اور امام رضا علیہ السلام کی 21ویں بریگیڈ کو بھی مدد کے لیے مدنظر رکھا گیا۔2 ستمبر کےابتدائی گھنٹوں  میں ایرانی فورسز نے بعض ٹھکانوں  پر قبضہ کر لیا جو عراق نے پہاڑی کی حفاظت کےلئے قائم کئے تھے لیکن عراقی فوج کے دباؤ کی وجہ سے وہ پسپائی پر مجبور ہو گئے۔

ایوی ایویشن کے پائلٹوں نے 16 ہیلی کاپٹروں اور دو سو گھنٹے پرواز کے ساتھ 164 زخمیوں، تین سو مجاہدین  کو نکالا اور 24 ٹن گولہ بارود اور سامان اٹھایا۔

اس آپریشن میں ایرانی فورسز ، عراق کی 807ویں انفنٹری بریگیڈ، 98ویں انفنٹری بریگیڈ کو ساٹھ فیصد، 604ویں انفنٹری بریگیڈ کو پچاس فیصد، 438ویں انفنٹری بریگیڈ کو تیس فیصد، 91ویں انفنٹری بریگیڈ کو تیس فیصد، ابو عبیدہ کمانڈو بٹالین  اور عراق کے 23ویں ڈویژن کے ماتحت ایک کمانڈو بٹالین کو اسی فیصد تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

عراقی فورسز میں سے تین ہزار افراد ہلاک یا زخمی ہوئے اور 277 افراد کو پکڑ لیا گیا۔  چھ عراقی ٹینک اور عملہ بردار گاڑیاں  غنیمت کے طور پر ایرانی قبضے میں آ گئے۔اور ایک ہوائی جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ کر دیا  گیا۔

اس آپریشن میں اسپیشل شہداء  بریگیڈ کے کمانڈر محمود کاوہ اور قدس ڈویژن کے سربراہ محمود قلی پور شہید ہوئے۔