گروہ، ادارے، آرگنائزیشنز

41 ثار آللہ ڈویژن

اکرم جعفر آبادی
22 دورہ

 41ویں ثاراللہ ڈویژن، پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی ایک یونٹ تھی، جو دفاعِ مقدس کے دوران حاج قاسم سلیمانی کی قیادت میں بیشتر جنگی آپریشنز میں سرگرم رہی اور مؤثر کردار ادا کیا۔

41 ویں ثاراللہ پیادہ ڈویژن کی ابتدائی تشکیل سن 1980ء میں ہوئی۔[1] اس کی بنیاد ایسے افراد اور گروپوں پر مشتمل تھی جو صوبہ کرمان سے تعلق رکھتے تھے اور جنگِ ایران و عراق سے قبل، کمیٹی کی شکل میں کردستان اور سیستان و بلوچستان میں ضد انقلاب عناصر کے خلاف سرگرم تھے۔[2]

اس ڈویژن کا مرکز صوبہ کرمان تھا، تاہم اس کی افرادی قوت صوبہ کرمان کے علاوہ سیستان و بلوچستان اور ہرمزگان سے بھی فراہم کی جاتی تھی۔[3] اس ڈویژن کی کمان ابتدا سے لے کر جنگ کے اختتام تک حاج قاسم سلیمانی کے پاس رہی۔[4]

جنگِ تحمیلی کے آغاز سے لے کر سن 1980ء کے اختتامی دنوں تک، پاسدارانِ انقلاب کے مقامی ارکان، مغربی علاقوں کے علاوہ، جنوبی محاذوں پر سوسنگرد، دہلاویہ اور مالکیہ کے مقامات پر بھیجے جاتے تھے اور امام مہدی‌عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف [5]اور ذوالفقاریہ جیسے آپریشنز میں شریک ہوتے تھے۔ تاہم مارچ1981ء میں، صوبہ کرمان کے مختلف حصوں سے 360 افراد کو ایک منظم فوجی شکل  میں ترتیب دے کر، غلام عباس گلزار کی کمان میں، کرخه کور کی آزادی کے لیے جولائی 1981ء کے آپریشن شہید چمران میں شریک کیا گیا[6]اور یوں کرمان کی پاسدارانِ انقلاب کی منظم شرکت کا آغاز محاذِ جنگ پر ہوا۔[7] اس کے بعد، کرمان کے دو مزید بٹالین—بٹالین شہید بہشتی، کمانڈر محمدمهدی کازرونی کی قیادت میں، اور بٹالین شہیدان باہُنر و رجائی، کمانڈر منصور ہمایونفر کی قیادت میں—آبادان پہنچیں، جس سے اکتوبر 1981ء کے آپریشن ثامن‌الائمه میں، آبادان کا محاصرہ توڑنے کے ہدف کی تیاری مکمل ہوئی۔[8]

نومبر 1981ء میں، کرمان کے مجاہدین، دو بٹالین حضرت ابوالفضل، بٹالین شہیدان رجائی و باہُنر اور ایک بٹالین ریزرو کے ساتھ، قاسم سلیمانی کی کمان میں، آپریشن طریق‌القدس میں شریک ہوئیں اور بریگیڈ کربلا کی کمان کے تحت پل سابِلہ پر قبضہ کرنے اور پھر بستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے چزابه کی سرحد تک پہنچنے کا فریضہ انجام دیا۔[9]

آپریشن طریق‌القدس کے بعد، پاسدارانِ انقلاب میں نئی جنگی بریگیڈز قائم کی گئیں، جن میں سے ایک بریگیڈ 41 ثاراللہ تھی، جس کی کمان قاسم سلیمانی کے پاس تھی۔[10] یہ بریگیڈ سن 1981ء میں، تین صوبوں—کرمان، سیستان و بلوچستان اور ہرمزگان—سے تعلق رکھنے والے جوانوں پر مشتمل، چار بٹالین کے ساتھ، دوکوهہ کیمپ میں تشکیل دی گئی۔[11]

یہ بریگیڈ، آپریشن فتح‌المبین میں، جو اپریل 1982ء میں دہلران، شوش اور دزفول کی آزادی کے لیے انجام پایا، پانچ بٹالین اور ایک جنگی گروپ کے ساتھ شریک ہوئی اور تنگہ ابو غریب پر قبضہ کر لیا۔[12]

آپریشن بیت‌المقدس میں، جو اپریل  اورمئی  1982ء میں خرمشہر اور ہویزه کی آزادی کے لیے کیا گیا، بریگیڈ ثاراللہ نے نو بٹالین کے ساتھ، اس علاقے کے پانچ ہزار مربع کلومیٹر میں سے دو ہزار مربع کلومیٹر آزاد کرائے اور دشمن کو سرحدی لائن تک پسپا کر دیا۔[13]

آپریشن رمضان میں، جو جون  1982ء میں بصرہ کے مشرق میں دشمن کی افرادی قوت اور سازوسامان کو تباہ کرنے کے لیے کیا گیا[14]، بریگیڈ ثاراللہ نے پانچ بٹالین کے ساتھ، مهران اور اس کے قریبی پہاڑی سلسلے کو آزاد کر لیا۔[15]

آپریشن رمضان کے بعد[16]، بریگیڈ 41 ثاراللہ نے اپنی دایرہ کار کو بڑھا کر تین بریگیڈ[17]—حزب‌اللہ، جند‌اللہ اور روح‌اللہ[18]—اور ایک بکتر بند بٹالین پر مشتمل کر لیا، اور محسن رضائی کے حکم پر، قاسم سلیمانی کی کمان میں، آرمی ثاراللہ کے درجے پر فائز ہو گئی۔[19]

یہ آرمی ، دورانِ دفاعِ مقدس میں 24 بڑی اور درجنوں چھوٹی کارروائیوں میں شریک رہا:
آپریشن والفجر 1 مارچ 1983ء[20]اور والفجر 3  جولائی  1983ء[21] جس کا مقصد مہران اور اس کے آس پاس کی بلند جگہوں کو آزاد کرانا تھا۔ [22] آپریشن والفجر 4 ستمبر 1983ء[23]، کربلای 10 مارچ اور  اپریل  1987ء[24] اور نصر 4 جون اور جولائی 1987ء[25]میں مریوان اور سردشت کے اطراف سے دشمن کو نکالنے اور پنجوین کی بلندیوں پر قبضہ کرنے کے لیے[26] آپریشن خیبر فروری 1984ء[27]اور آپریشن بدرفروری 1985ء[28] میں ہورالعظیم کے دلدلی علاقوں کو عبور کرتے ہوئے جزائر مجنون پر قبضہ، دجلہ کے اطراف دشمن کے اندرونی علاقوں پر حملہ اور ان کی تباہی کے لیے[29] آپریشن والفجر 8  فروری 1986ء[30] میں اروند دریا عبور کر کے دشمن کی صف بندی توڑنا اور فاو سے خلیج فارس تک سڑک پر قبضہ کرنا[31] آپریشن کربلای 5 دسمبر1986جنوری اور 1987ء[32] میں نہر جاسم پر قبضہ اور وہاں مورچہ بندی کر کے اسے مغربی ماہی گیری نہر سے ملانا[33]آپریشن والفجر 10 فروری 1988ء[34] میں سورن کی بلندیوں میں سے قلعہ خورنوازان پر قبضہ[35]، شیرمر کی پہاڑی پر عراقی گروپوں کو تباہ کرنا اور متعدد دشمن فوجیوں کو قید کرنا[36] اور آپریشن مرصاد جولائی 1988ء میں اسلام آباد کو منافقین کے قبضے سے آزاد کرانا اور اسلام آباد–کرند شاہراہ کو پاک کرنا۔[37]

آرمی 41 ثاراللہ میں بٹالین امام حسین، بٹالین 410 غوطہ خور، بٹالین 415 کربلا، بٹالین 416، بٹالین 415 کہنوج، بٹالین 409 زابل و سیستان، اور بٹالین 405 مالک اشتر شہر بابک شامل تھے،[38] جن کے بیشتر کمانڈر آپریشن کربلای 4 اور خاص طور پر کربلای 5 میں شہید ہوئے۔[39]

اس لشکر کے نمایاں شہداء میں قاسم میرحسینی (لشکر کے نائب کمانڈر)، منصور ہمایون‌فر (بریگیڈ ثاراللہ کے نائب کمانڈر) اور یونس زنگی‌آبادی (اس لشکر میں بریگیڈ امام حسین کے کمانڈر) شامل ہیں۔[40]

جنگِ تحمیلی کے اختتام کے بعد، جب محاذی یونٹ اپنے اپنے صوبوں کو واپس لوٹے تو آرمی 41 ثاراللہ بھی کرمان میں تعینات ہوا، لیکن کچھ عرصے بعد صوبہ کرمان، سیستان و بلوچستان اور جنوبی خراسان میں ملک کے جنوب مشرقی حصے میں بدامنی کے پھیلنے پر، قاسم سلیمانی کی کمان میں ان علاقوں کی کلیرنس کی ذمہ داری اسے سونپی گئی۔[41] یہ مہم آٹھ سال جاری رہی[42]۔

سنہ 2007ء میں، صوبائی سپاہوں کی تشکیل کے بعد، آرمی 41 ثاراللہ کا نام تبدیل کر کے "سپاہ ثاراللہ صوبہ کرمان" رکھ دیا گیا۔[43]

کتاب "اطلس لشکر 41 ثاراللہ در ہشت سال دفاع مقدس"، جو اس لشکر کے عملیاتی کارناموں پر مشتمل ہے، عباس میرزائی نے تحریر کی اور سنہ 2016ء میں مرکزِ اسناد و تحقیقاتِ دفاعِ مقدس نے شائع کی[44]۔

آرمی 41 ثاراللہ کے شہداء کے نام، جن میں اکثریت کرمان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے، باغِ میوزیم دفاعِ مقدس کرمان میں سنگ پر کندہ کیے گئے ہیں[45]۔

فی الحال، کرنل پاسدار جواد محمدی سلیمانی ، آرمی 41 ثاراللہ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں[46]۔

 

 

 

 

 

[1] ماهنامه شاهد یاران، ش۱۷۱، جنوری 2014، ص۲۴.

[2] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 2016، ص۱۲.

[3] سابق، ص۱۶.

[4] ماهنامه شاهد یاران، سابق ، ص۲۴.

[5] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص19ـ۱7.

[6] سابق، ص21 و ۲۴.

[7] سابق ، ص۳۰.

[8] سابق ، ص24 و ۳۴.

[9] سابق ، ص۳۸ و 39.

[10] جان‌نثار، محمد، پرواز بغداد ـ بهشت، شهرکرد: سدرة‌المنتهی، 2019، ص۱۰۱.

[11] ماهنامه شاهد یاران، سابق ، ص۱۵.

[12] سابق، ص44 و ۴۶.

[13] جان‌نثار، محمد، پرواز بغداد ـ بهشت، ص۳۶۴.

[14] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۵۸.

[15] جان‌نثار، محمد، پرواز بغداد ـ بهشت، ص۳۶۴.

[16] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۶۵.

[17] ماهنامه شاهد یاران، همان، ص۲5.

[18] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۶۶.

[19] ماهنامه شاهد یاران، همان، ص۲5.

[20] سابق،ص67

[21] سابق،ص72

[22] جان‌نثار، محمد، پرواز بغداد ـ بهشت، ص۳۶۴.

[23] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۷۶.

[24] سابق ، ص132

[25] سابق ، ص136

[26] جان‌نثار، محمد، پرواز بغداد ـ بهشت، ص۳۶۴.

[27] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۸۴.

[28] سابق ، ص۹۴.

[29] جان نثار، محمد، پرواز بغداد - بهشت، ص۳۶۴.

[30] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۱۰۲.

[31] ماهنامه شاهد یاران، همان، ص25

[32] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۱۱۶.

[33] سابق ، ص۱۲۰.

[34] سابق ، ص۱۴۰.

[35] ایزدی، یدالله، روزشمار جنگ ایران و عراق، کتاب پنجاه‌وچهارم: عملیات والفجر ۱۰، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس،2013، ص۵۶.

[36] سابق ، ص۱۰۵.

[37] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۱۵۴.

[38] خبرگزاری عصر هامون، کد ۱۳۷۷۵۹، اینفوگرافیک لشکر ۴۱ ثارالله.

[39] ماهنامه شاهد یاران، سابق ، ص۵۶.

[40] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۱۶۶.

[41] ماهنامه شاهد یاران، سابق ، ص۵۶.

[42] بنی لوحی، سید علی، این مرد پایان ندارد، زندگی جهادی شهید سلیمانی، اصفهان: راه بهشت، 2018، چ پنجم، ص۱۳۴.

[43] ماهنامه شاهد یاران،سابق، ص۲۵.

[44] خبرگزاری دفاع مقدس، کد ۳۹۰۰۶۵.

[45] میرزایی، عباس، اطلس لشکر ۴۱ ثارالله در هشت سال دفاع مقدس، ص۱۶۸؛ خبرگزاری عصر هامون، کد ۱۳۷۷۵۹، اینفوگرافیک لشکر ۴۱ ثارالله.

[46] سایت استانداری کرمان https://gov.kr.ir/RContent/