آثار

"کوچہ و موزہ" (گلی اور میوزیم)

مریم سلطانی نسب
24 دورہ

فلم "کوچہ و موزہ"  سن 1994 میں کاظم بلوچی کے زیرِ ہدایات بنائی گئی، جو شہداء کے بچوں کی زندگی میں درپیش مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔

ہدایت کار کاظم بلوچی، مصنفین رضا مقصودی، کاظم بلوچ اور کریم هاتفی‌نیا ہیں۔ فلم کی تیاری "شاہد" نامی ٹیلی ویژن گروہ نے کی۔ کیمرا مین کے فرایض عباس باقریان نے انجام دئیے،  جبکہ موسیقی محمد رضا علیقلی نے ترتیب دی، تدوین کی ذمہ داری احمد ضابطی جہرمی اور سہراب میرسپاسی کی تھی۔ پروڈکشن کے نگران احمد کاشانچی تھے، منظرنامہ اور ملبوسات کی ڈیزائننگ  عنایت ارجمند اور محسن صانعی، اور  اسکرپٹ اسسٹنٹس نادر خوش‌سیما اور ہیلدا ہامان کی جانب سے  تھے۔ اداکاروں میں یگانه بلوچی، بہادر ابراہیمی، جلیل فرجاد، حسن کاخی، سودابه آقاجانیان، عطیہ غبیشاوی، حسن جنگی اور دیگر شامل تھے۔

نوے  منٹ کے دورانیے پر مشتمل یہ فلم "سبحان" نامی فلمی ادارے کی پیشکش ہے، جسے تیرھویں فجر فلم فیسٹیول میں بہترین اسکرپٹ کا اعزازی ڈپلومہ عطا کیا گیا۔ تاہم، یہ فلم فیسٹیول کے بعد عوامی سینماؤں میں نہیں دکھائی گئی بلکہ  کچھ عرصے بعد صرف محدود پیمانے پر ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔[1]

فلم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ایک کمسن بچی کو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اُس کا اپنا نام اور خاندانی نام  اُس کی بہن کےنام اور  خاندانی نام سے مختلف ہے، اور وہ یہ بھی جان لیتی ہے کہ اس کا اپنے والد محاذِ جنگ پر شہید ہو چکے  ہیں اور وہ بچپن سے کسی اور خاندان کے ساتھ رہ رہی ہے۔ دوسرا حصہ ایک ایسے بچے کے بارے میں ہے جس کے والد نابینا  ہیں۔ بچہ بھی اتفاقاً جان لیتا ہے کہ اس  کی سرپرستی کرنے والا فرد اس  کے  حقیقی والد نہیں ، بلکہ  اس کا باپ کوئی اور شخص ہے   جو جنگ میں شہید ہو گیا۔  اس انکشاف کے بعد  اس بچے  کا اپنے گھر والوں سے رویہ بدل جاتا ہے، مگر اپنی والدہ  اور ماموں کی مدد سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ  در حقیقت نابینا مرد ہی اس کا حقیقی باپ ہے۔ فلم "کوچہ و موزہ" کے دونوں حصوں کے مرکزی کردار دو بچے ہیں جن کی عمر تقریباً دس یا گیارہ سال ہے۔ پہلے حصے میں مرضیہ نامی بچی اپنی پہلی جماعت میں پڑھنے والی بہن کو اسکول لے جاتی ہے، جہاں اسے پتہ چلتا  ہے کہ ان دونوں کے خاندانی نام (فیملی سر نیم) مختلف ہیں۔ یہ انکشاف اسے ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ اپنی زندگی کی حقیقت جاننے کی جستجو میں لگ جاتی ہے۔ آخرکار دادا کی مد د سے اسے حقیقت حال معلوم ہو جاتی ہے اور وہی اسے شہداء کے مزار اور والد کی قبر پر لے جاتے ہیں۔[2]

ماہرین کے مطابق  فلم "کوچہ و موزہ" کی داستان، شہداء اور جنگی زخمیوں کے  گرد گھومتی  ہے، اور داستان  کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے اسے دو علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کی عام فہم کہانی اور پیش کرنے کے  غیر پیچیدہ اندازِ نے فلم کے تمام اجزاء کو کہانی کے مطابق رکھا ہے۔ اگرچہ فلم میں  سینمائی  انداز زیادہ غالب نہیں ہے، تاہم کہانی کو بیان کرنے میں وہ کامیاب نظر آتی ہے۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم کے دونوں الگ الگ حصوں کو جوڑنے کا کامیاب پہلو یہ ہے کہ دونوں حصوں کے کردار ایک دوسرے سے براہِ راست نہ سہی، لیکن پوشیدہ طور پر جُڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے حصے میں حمید، جو مرضیہ کے ہم عمر ہے، ایک خط اور تصویر کے ذریعے جان لیتا ہے کہ نادر اس کا اصل باپ نہیں۔ کہانی جب آگے بڑھتی ہے تو ، وہ اپنے والد کے ایک جاننے والے سے سنتا ہے کہ اس کا والد، شہید محمد رحمانی (جو پہلے حصے میں مرضیہ کا شہید والد ہے) کا قریبی دوست تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حمید کو ملنے والے خط میں اس کے والد نے دوست کی بیٹی یعنی رحمانی کی بیٹی کی پیدائش کا ذکر کیا ہوتا ہے۔ اس طرح، اگرچہ دونوں کہانیوں کے کردار ایک دوسرے کو نہیں جانتے، لیکن دیکھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ شہید رحمانی اور شہید سلمان دوست تھے اور ان کے بچے تقریباً ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ لطیف نکتہ دونوں کہانیوں کو باطنی طور پر جوڑتا ہے، تاہم دوسرے حصے کی کہانی مبالغہ آمیز محسوس ہوتی ہے اور پہلے حصے والی سادگی اس میں دیکھنے کو نہیں ملتی، جس وجہ سے  فلم میں  اداکاروں کا بناوٹی انداز نمایاں ہے ۔ یہ بات کہ سلمان نے اپنے دوست رحمانی کی شہادت کے بعد اپنا اصلی نام ترک کر دیا، فلم میں بے تکی سی بات لگتی ہے، اور یوں ناظرین اور کرداروں کے درمیان تعلق پوری طرح قائم نہیں ہو پاتا۔ اس کے باوجود "کوچہ و موزہ" کو شہداء کے بچوں اور ان کے خاندانوں کی سادہ اور مؤثر کہانی کہا جا سکتا ہے۔[3]

دیگر ناقدین کے نزدیک، فلم میں جگہ جگہ نعرہ بازی اور براہِ راست اظہارِ خیال، نظر آتا ہے، اور کردار نگاری میں وہ گہرائی نہیں جو دیکھنے والے  کو متاثر کرے یا اس کے ذہن میں ربط کو جوڑے۔ فلم میں شہداء کے بچوں کے لیے ایک لطیف سی ہمدردی اور رقت کا احساس دکھایا گیا ہے، جو اس نسل کے بارے میں کچھ حد تک ناانصافی اور یک طرفہ نقطۂ نظر ہے۔ ایک شہید کے فرزند کی شخصیت کو محض باپ کی کمی کا اظہار کرنے والا کردار بنا دینا کافی نہیں؛ بلکہ ان کی فعالیت، تخلیقی صلاحیت یا ممکنہ نفسیاتی مسائل کو بھی دکھانا ضروری ہے۔[4]

 

 

 

[1] فصلنامه فارابی، تابستان 2005، ش 56 ، ص 39.

[2] ماهنامه فیلم، ویژه سیزدهمین جشنواره فیلم فجر، ش 170، ص 50.

[3] ماهنامه سروش، آبان 1996، ش 810، ص 41 و42.

[4] ماهنامه نقد سینما، زمستان 1997 ، ش 12، ص 39.