آپریشنز
آپریشن فتح 8
معصومه سجادیان
12 دورہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے 1987ء میں عراق کے صوبے موصل میں عراقی فوج کو تباہ کرنے کے مقصد سے فتح 8 دراندازی آپریشن کیا۔
فتح 8 دراندازی آپریشن 19 جولائی 1987ء کی شام کو عراق کے صوبہ موصل کے شمالی علاقے میں عراقی فوج کی تنصیبات اور فوجی اڈوں کو تباہ کرنے اور کرد مخالفین(کردستان پیٹریاٹک یونین) کی حمایت اورصدام کی فوج کو تباہ کرنے کے مقصد سے انجام دیا گیا۔
فتح 7 کے تباہ کن آپریشن کے بعد جو 26 جون 1987ء کو حلبچہ میں رمضان کیمپ کی کمان میں کیا گیا تھا، آپریشن فتح 8، 28 جون1987ء کو مغربی آذربائیجان سردشت میں کیمیائی بم حملے اور عراق کے شمال میں کردی دیہاتوں کو تباہ کرنے کے جواب میں اور اِس ملک کے مسلمان عوام کی جدوجہد کی حمایت میں کیا گیا۔ آپریشن فتح 8 فاصلے کے لحاظ سے عراقی سرزمین پر ہونے والا سب سے گہرا کمانڈو آپریشن سمجھا جاتا ہے۔
اِس آپریشن میں رمضان کیمپ کے تحت(جو سپاہ پاسداران کی زمینی فورسز کا غیر منظم جنگوں کا مرکز تھا) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی اسپیشل ایوی ایشن بریگیڈ (66ویں مالک اشتر بریگیڈ) اور عراقی کردستان اسلامک آرمی پر مشتمل فورسز نے حصہ لیا۔ آپریشن فتح 8 کا آغاز 19 جولائی 1987ء کو یا رسول اللہ کوڈ کے ساتھ عراقی سرزمین میں 150 کلومیٹر کی گہرائی میں ہوا۔ اس کارروائی میں عراقی صوبے موصل کے شمال میں واقع شہر اطروش (اتروش) پر حملہ کیا گیا۔ عطروش شہر اس خطے میں بعثی حکومت کا سب سے اہم فوجی مرکز تھا اور تین مضبوط قلعوں کی مدد سے اِس کی حفاظت کی جاتی تھی۔ رمضان کیمپ کے تحت فورسز نے اس پہاڑی علاقے میں دراندازی کے لیے تین سو کلومیٹر کا راستہ طے کیا۔ وہ سخت جنگ کے بعد شہر میں داخل ہوئے۔ آپریشن کے پہلے مرحلے میں، وہ کانیکا کے اسٹریٹجک قلعے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے، جو اطروش شہر سے نو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ قلعہ عطروش شہر کے ارد گرد پندرہ فوجی اڈوں کو کنٹرول کرتا تھا۔ عطروش شہر اور اِس کی طرف جانے والی سڑکوں پر سات گھنٹے کے کنٹرول کے دوران فورسز نے اِس شہر کے سکیورٹی اور فوجی مراکز جن میں انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر، بعث پارٹی کا مواصلاتی مرکز اور جیش الشعبی کا ہیڈکوارٹرجو علاقے خصوصاً عقرہ اور شیخان شہروں کی عوام کو دبانے کے اہم ترین اڈے تھے، دستاویزات اور سرٹیفکیٹ نکالنے کے بعد اِن عمارتوں کو آگ لگا دی۔ اِسی طرح آتشبار توپخانے کے مرکز اور اطروش توپخانے پر حملہ کیا گیا اور تمام توپوں کو اُن کے سازوسامان سمیت تباہ کر دیا گیا۔ اس آپریشن کے تسلسل میں شہر کے اطراف کے تین قلعے اور علاقے کے فوجی اڈےشدید حملوں اور گولہ باری سے مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
ان حملوں کے بعد عراقی فوج نے اپنی اسپیشل فورسز کی دو بٹالین کو جوابی حملوں کے لیے بھیج دیا لیکن کوئی کارروائی کرنے سے پہلے ہی رمضان کیمپ کی فورسز نے ان کی جنگی تنظیم کو تہہ و بالا کر دیا اور وہ جانی نقصان کے ساتھ آپریشنل علاقے سے فرار ہو گئے۔ دشمن کے جوابی حملے کے دوران ایک عملے کی گاڑی اور ایک 106 توپ بھی تباہ ہوئی۔
اس آپریشن میں عطروش کے انٹیلی جنس افسر عبد العیار حسن رمضان سمیت شہر کی فوجی اور سیکورٹی فورسز کے دو سو افراد ہلاک اور 350 افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے میں زخمی ہونے والوں میں علاقے کے جیشیوں (عراقی حکومت کےساتھ اتحادی کرد) کا سربراہ علی اطروش بھی شامل ہے۔تیس افراد بھی قیدی کر لیے گئے۔
اس آپریشن میں چالیس سے زائد سکیورٹی اور رہائشی اڈے تباہ کر دئیے گئے۔ پینتیس ہلکی اور بھاری گاڑیاں، گولہ بارود کا ایک ڈپو، تین گولہ بارود لے جانے والی گاڑیاں، تین 155 اور 122 ایم ایم کی توپیں، سات مارٹر، دو دوشکا مشین گن اور دو چار بیرل اینٹی ایئر کرافٹ گنیں بھی تباہ ہوئیں اور بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود، ہلکے اور نیم بھاری ہتھیاروں سمیت ہر قسم کا اسلحہ مال غنیمت میں ہاتھ آیا۔
فتح 8 آپریشن کے ایک کمانڈر نے کہا کہ شمالی عراق کے عوام کی تحریک کے تسلسل سے عراقی حکومت کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات کے علاوہ عراق کے شمالی علاقوں میں ایک وسیع حصے کی آزادی اور عراق کی عوامی جدوجہد کا دائرہ کار اس ملک کے جنوب تک پھیلنے کا سبب بنا ہے اور ہم نے اس ملک کے جنوب میں انقلابی تحریکوں اور گوریلا کاروائیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ آپریشن کے انجام دینے کے بعد جمہوری اسلامی نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک کمانڈر نے گفتگوکی اور عراقی حکومت کی جانب سے آپریشن فتح 8 کے انکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بغداد میں مقیم غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ وہ اطروش شہر کے تباہ شدہ فوجی اڈوں کا دورہ کریں۔فتح کی کاروائیوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 4 اگست 1987ء کو عراق کے سرحدی علاقے خرمال میں آپریشن فتح 9 انجام دیا گیا۔