مقامات
سوسنگرد
زهرا پنبهزاری
22 دورہ
سوسنگرد صوبہ خوزستان کے ان شہروں میں سے ایک ہے جس پر عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں ہی صدام کی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔
سوسنگرد یا سوسن کا شہر، دشت آزادگان شہر کا مرکز اور اس کا سب سے اہم شہر ہے۔ دریائے کرخہ اس کے شمال سے گزرتا ہے اور اس کی ایک شاخ شہر سے بھی گزرتی ہے اور سوسنگرد کے مغرب اور جنوب مغرب میں سابلہ اور مالکیہ دو نہریں اِس میں سے نکلتی ہیں۔ یہ شہر 1935ء تک خفاجیہ کہلاتا تھا۔ اِس لئے عرب لوگ آج بھی سوسنگرد کو اُسی نام سے ہی جانتے ہیں۔ سوسنگرد کے رہنے والے فارسی اور عربی زبان بولتے ہیں اور اِن کا مذہب شیعہ اثنا عشری ہے۔
سوسنگرد کے اہم دیہاتوں میں دہلاویہ، ہوفل، ساریہ، آلبو عفری شمالی اور جنوبی اور ابوحمیظہ شامل ہیں۔
تین عوامل کا وجود آبادی، زرعی زمین، دریائے کرخہ اور اِس کی شاخیں، عراقیوں کے صوبہ خوزستان کے مرکز پر حملہ کرنے کے لئے اِس علاقے میں پیش قدمی کی اہم وجوہات میں شمار ہوتے تھے۔چنانچہ 22 ستمبر 1980ء کو عراقی فوج نے دشت آزادگان پر حملہ کیا اور اپنی حرکت کا آغاز چزابہ اور طلائیہ سے کیا اور 28 ستمبر کو سوسنگرد پر مکمل توجہ مرکوز کر لی اور اِس پر قبضہ کر لیا۔ 29 ستمبر کو سوسنگرد سپاہ کے پہلے کمانڈر حبیب شریفی اور اُن کی اہلیہ خدیجہ میرشکار کو سوسنگرد-اھواز ہائی وے سے قید ہو گئے۔
30 ستمبر 1980ء کو امام خمینی ؒ کے پیغام ’’کیا اہواز کے جوان مر چکے ہیں؟!‘‘ کے ساتھ پاسداران انقلاب نے علی غیور اصلی، سپاہ پاسداران خوزستان کی ٹریننگ کے انچارج، کی سربراہی میں 28 افراد پر مشتمل ایک باصلاحیت گروپ تشکیل دیا اور رات کو ہی عراقیوں کی طرف حرکت شروع کر دی اور 1 اکتوبر سوسنگرد کو دشمن کے محاصرے سے آزاد کرا لیا۔ اس آپریشن کو بعد میں غیور اصلی کا نام دیا گیا جس میں علی غیور اصلی شہید ہو گئے۔
سوسنگرد کی آزادی کے باوجود یہ شہر پہلے کی طرح دشمن کے توپ خانے کی گولہ باری کی زد میں رہا۔ عراقی فورسز کے ایک یونٹ نے بستان پر قبضہ کرنے کے بعد (11 اکتوبر 1980ء)، 15 اکتوبر 1980ء کو کرخہ کور کے ذریعے حمیدیہ-سوسنگرد روڈ کو سوسنگرد سے پہلے تک بند کر دیا لیکن ایرانی توپ خانے کی شدید گولہ باری کی وجہ سے عراقی ہویزہ کی طرف پیچھے ہٹ گئے۔ چار دن بعد 19 اکتوبر کو عراقی فوج کے بکتر بند دستوں نے سوسنگرد-اہواز روڈ پر حملہ کیا لیکن وہ پسپائی پر مجبور ہو گئے اور چند گھنٹوں کے بعد اُنہوں نے دریائے کرخہ کے کنارے سوسنگرد کی طرف حرکت کی اور سوسنگرد سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر رک گئے۔
6 نومبر 1980ء کو عراقی افواج کی مشرق اور مغرب سے سوسنگرد کی طرف پیش قدمی شروع ہوئی یہاں تک کہ لوگوں نے شہر کو خالی کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ 6 نومبر کو عراق کی سابلہ کی طرف حملے اورعراق کی سابلہ کی جانب پیش قدمی روکنے میں ایرانی فورسز کی مزاحمت کے دوران، سوسنگرد عراقی توپخانے کی زد میں آ گیا۔
13 نومبر 1980ء سے عراقیوں کی سوسنگرد پر قبضے کے لئے سرگرمیاں تیز ہو گئیں لیکن ایرانی افواج کے مقابلے کی وجہ سے اُن کی پیش قدمی رک گئی اور اُنہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ 14 نومبر کو عراقی فوج نے مغرب کی جانب دہلاویہ کےقبضے سے سوسنگرد کی طرف پیش قدمی کی اور 15 نومبر کو سوسنگرد میں داخل ہو گئے۔
چند روز بعد، فوج اور سپاہ کے کمانڈروں، مصطفی چمران کی کمانڈ میں نامنظم جنگ کے ادارے، سپریم نیشنل ڈیفنس کونسل میں امام کے نمائندے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہ جو اُس وقت سپریم نیشنل ڈیفنس کونسل میں امام کے نمائندے بھی تھے اور خوزستان کے گورنر کے مابین میٹنگ میں سوسنگرد محاصرے کو توڑنے کے لئے منصوبہ تیار کیا گیا۔
سوسنگرد کی آزادی کے لئے اہواز کے 92 ویں آرمرڈ ڈویژن کی موجودگی کے بارے میں عدم مطابقت کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے اس موضوع کو اُس وقت کے صدر اور افواج کے چیف کمانڈر، ابو الحسن بنی صدر کے سامنے اٹھایا اور اُن سے مدد کا وعدہ لیا۔ دو دن بعد یعنی 16 نومبر کو سابقہ وعدے پورے نہ ہونے اور دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے 92ویں اہواز آرمرڈ ڈویژن کو سوسنگرد کا محاصرہ توڑنے کا کام سونپا گیا لیکن یہ مشن بھی اُسی رات بنی صدر کے براہ راست حکم سے منسوخ کر دیا گیا ۔ آیت اللہ خامنہ ای اس موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے اور امام خمینیؒ کی سوسنگرد کی آزادی پر تاکید کی وجہ سے ڈویژن کی کمانڈ کو آپریشن شروع کرنے کا حکم پہنچاتے ہیں ۔
اس طرح 17 نومبر 1980ء کو صبح ساڑھے چھ بجے سوسنگرد کو آزاد کرانے کا آپریشن شروع ہوا اور گیارہ بجے عراقی ٹینکوں کا پہلا گروپ جنوب کی طرف بھاگ گیا۔
8ویں خوزستان ریجن کور نے لوگوں اور مجاہدین کی شہادت، ہسپتال پر دشمن کے حملے اور مریضوں کے قتل عام کے بعد 16 اور 17 نومبر کو عوامی سوگ کا اعلان کیا۔ عراقیوں کی اِس پسپائی کے بعد بھی دشمن اپنی حرکت سے باز نہیں آیا اور 23 نومبر 1980ء کو اِس نے حمیدیہ-سوسنگرد روڈ پر قبضہ کرنے کے ارادے سے جنوب سے شمال کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جسے سپاہ کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دو دن بعد یعنی 25 نومبر کو عراق نے دوسری طرف سے حمیدیہ –سوسنگرد روڈ پر قبضہ کرنے کےلئے پیش قدمی کی لیکن اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عراقی 1980ء دسمبر کے تیسرے ہفتے کے آخر تک جنوب میں حمیدیہ -سوسنگرد روڈ پر سرگرم رہے لیکن وہ کبھی بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ 17 مارچ کو سوسنگرد کے مغرب میں عراقی افواج کو تباہ کرنے کے لئے فورسز کی ایک بٹالین امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف آپریشن کے ذریعے میدان میں وارد ہوئی اور اُن کا مقابلہ کیا۔
21 سے 26مئی 1981ء تک امام علیؑ آپریشن کہ جو فوج اور سپاہ کا پہلا مشترکہ آپریشن تھا، کرخہ کے شمال اور سوسنگرد کے مغرب میں کیا گیا۔ اِس کاروائی میں ایرانی افواج نے مغرب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے عراقیوں کو سوسنگرد سے تین کلومیٹر پیچھے دھکیل دیا۔ یہ آپریشن سوسنگرد شہر کو محفوظ بنانے کے ہدف سے ڈیزائن اور انجام دیا گیا۔
29 نومبر 1981ء کی صبح سوسنگرد کے مغرب میں طریق القدس کے نام سے ایک اور آپریشن ہوا۔ اِس آپریشن میں کہ جو آبنائے چزابہ تک دشمن کو سرحدی مقام تک بھگانے کا پہلا آپریشن ہے، ایرانی سرزمین کے ایک بڑے حصے کو آزاد کرا لیا گیا۔
اِن کے علاوہ سوسنگرد میں جو آپریشنز ہوئے اُن میں شہید عبادت آپریشن جو 1 مئی 1981ء، 16 جون 1981ء کو رستمی آپریشن، 2 ستمبر 1981ء کو نصر آپریشن اور 18 ستمبر 1981ء کو مدنی آپریشن شامل تھے۔
نومبر دسمبر 1986ء میں سوسنگرد کا بڑا حصہ فضائی بمباری میں تباہ ہو گیا۔ اِس بمباری میں تقریباً 80 فیصد شہری عمارتیں اور گھر، تعلیمی عمارتیں، معاشی اور تعمیراتی انفرانسٹرکچر تباہ ہوگیا اور سات سو شہری شہید اور زخمی ہوئے اور ایک بڑی تعداد دوسرے شہروں کی طرف ہجرت بھی کر گئی۔
اِس حملے کے بعد سوسنگرد کارکنوں اور لوگوں کی کوشش اور مدد سے دو سا ل کے عرصے میں دوبارہ تعمیر کر لیا گیا۔ جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے ادارے کی رپورٹ میں سوسنگرد میں ہونے والے نقصانات کو خاص طور پر بیان کیا گیا: 80 یونٹس کو بیس سے پچاس فیصد تک نقصان پہنچا تھا جبکہ 2245 عمارتوں کو پچاس سے سو فیصد تک نقصان پہنچا، جو عراقیوں کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں تھیں۔
جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور لوگوں کی آبادکاری کے لئے امام خمینی کے فرمان پر اس مقصد کے لئے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ ملک بھر کے صوبوں سے بہت سے لوگوں نے بھی جنگ زدہ علاقوں کے ایک حصے کی تعمیر نو کی ذمہ داری لی اور یہ کام ’’معین ہیڈکوارٹرز‘‘ نامی ادارے کے تحت انجام پایا۔ مازندران صوبے کے معین ہیڈ کوارٹر نے سوسنگرد شہر کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا اور اِسے مکمل کیا۔ اِس پروگرام میں تقریباً دو ہزار رہائشی یونٹس تعمیر کیے گئے جو مازندران کے لوگوں کے ذریعے اور حکومتی مدد کے بغیر انجام پائے۔