اشخاص

حسین درویشی بیاتیانی

مریم لطیفی
16 Views

حسن درویشی بیاتیانی، جنہیں "حسن درویش" کے نام سے جانا جاتا ہے، سپاہ پاسداران انقلاب  کے 17ویں بریگیڈ قم اور 15ویں بریگیڈ امام حسن مجتبیٰ (ع) کے  کمانڈرتھے جو 12 مارچ 1985 کو بدر آپریشن میں شہید ہوئے۔

حسن درویش 21 اپریل 1962 کو دانیال نبی (ع) ضلع شوش کے گاؤں جعفرآباد (خارکوب) میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نامدار اور والدہ سکینہ جوہری تھیں۔ ان کے بچپن میں  پہلوی حکومت نے زمینی اصلاحات نافذ کیں، اور ان کے خاندان کی زرعی زمینیں حکومت نے ضبط کر لیں، اور ان کا گھر گرا دیا گیا، جس کی وجہ سے گھر کے سب افراد گاؤں چھوڑ کر دزفول کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے دزفول میں ایلیمنٹری اسکول کی پانچویں جماعت مکمل کی، لیکن اپنے خاندان کی  مالی مشکلات کی وجہ سے، حسن نے اسکول چھوڑ دیا اور اپنے بھائی کی دکان پر کام کرنے کے لیے سوسن  چلے گئے[1]۔

شہنشاہی نظام کے خلاف عوامی مزاحمت میں وسعت کے ساتھ1978 میں حسن بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے، آپ ریلیوں میں شرکت کرتے، دیواروں پر نعرے لکھے، اور پہلوی حکومت کے آخری دنوں میں اس کے ظالمانہ اقدامات کے بارے اعلامیے تقسیم کرتے۔

اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، وہ اسلامی انقلابی کمیٹی شوش میں بطور "اعزازی گارڈ" شامل ہوئے اور 1 ستمبر 1980 کو بسیج کے رکن بنے۔ 1970 میں، اسی سال سارہ اسماعیلی نامی لڑکی  سے شادی کی، اور  دو بچوں عبداللہ اور زینب  کے باپ بنے[2]۔

جب عراقی فوج نے  ایران پر جارحانہ حملہ کیا اور شوش  اور دریائے کرخہ کی طرف پیش قدمی  کی تو حسن درویش نے 30 ستمبر 1980کو  سپاہ پاسداران شوش کے 14 ارکان، عوامی رضاکار فورسز، اور غلام عباس قلاوند کی کمان میں متعدد فوجی دستوں کے ساتھ  دشمن کی فوجوں پر حملہ کیا جو دریائے کرخہ کے مشرقی حصے تک پیش قدمی کر چکے تھے،  شہید حسن نے اپنے تمام ساتھیوں سمیت دریائے کرخہ کے مشرقی کنارے  میں پوزیشن سنبھال لی[3]۔

ان دنوں (2 نومبر 1980)، نجف آباد آئی آر جی سی فورسز سے حیدر علی طالبی، جسے "استاد مرزا" کے نام سے جانا جاتا تھا، اس علاقے میں آئے اور فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے بعد، علاقے کی چھان بین اور معلومات اکٹھی کرنے لگے۔ اگرچہ حیدر علی کو کسی بھی اتھارٹی کی طرف سے شوش محاذ کی کمان کرنے کا حکم نہیں تھا، لیکن علاقے میں موجود افواج نے 16 دسمبر 1970 کو ان کی شہادت  (17 دسمبر 1980) تک ایک کمانڈر کے طور پر ان کی اطاعت کی۔ حسن درویش  نے بھی ان کے ماتحت رہ کر دشمن سے مقابلہ کیا[4]۔

حیدر علی طالبی کی شہادت کے بعد شوش فرنٹ کے نئے کمانڈر مرتضیٰ صفاری نے حسن درویش کو اپنا جانشین اور لائن کمانڈر مقرر کیا۔ شوش فرنٹ پر ان  کے اقدامات میں سپاہ پاسداران شوش  کے سازوسامان یونٹ کی تشکیل اور دریائے کرخہ کے مشرق میں 120 ملی میٹر مارٹر کی تعیناتی، گولہ بارود کے ضیاع کو روکنے کے لیے فائر کو ہدایت کرنا، آپریشنل علاقوں کی نشاندہی کرنا اور 21 ستمبر کو امام مہدی (ع) آپریشن میں حصہ لینا شامل تھا[5]۔

17ویں قم بریگیڈ کی تشکیل اور تنظیم کے ساتھ، حسن درویش نے ابتدا میں 17ویں قم بریگیڈ کی جانشینی حاصل کی اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد اس کے کمانڈر بن گئے۔ فتح المبین آپریشن میں شرکت، برقازہ، تینہ اور تنگہ رقابیہ میں دفاعی لائن کی تشکیل، بیت المقدس  آپریشن کے ساتھ ساتھ پہاڑی 182 پر قبضہ اور اسے محفوظ بنانا، بیت المقدس  آپریشن کی دفاعی لائن کے تیسرے اور چوتھے مرحلے میں شرکت، زید چوکی میں دفاعی لاین کی تشکیل اور رمضان آپریشن میں شرکت شہید حسن کے زیر کمان 17ویں بریگیڈ قم کے کارناموں میں سے ہیں [6]۔

جولائی 1982  کے آخر میں 17 ویں بریگیڈ قم کا نام بدل 17ویں برگیڈ علی ابن ابی طالب (ع) رکھ دیا گیا اور اسی سال 24 جولائی کو مہدی زین الدین کو ان کا کمانڈر مقرر کیا گیا[7]۔  اس کے بعد حسن درویش نے 17ویں علی ابن ابی طالب (ع) بریگیڈ سے علیحدگی اختیار کر لی اور نئے قائم ہونے والی 20ویں بعثت بریگیڈ کی کمانڈ کے لیے مقرر کیےگئے[8]۔

کچھ عرصے کے بعد، 20ویں بعثت ، 43ویں بیت المقدس، 46ویں فجر، 37ویں نور، اور خرمشہر کی 22ویں بدر بریگیڈ جو کہ خوزستان آئی آر جی سی کی کمان میں تھیں، کو ختم کر دیا گیا۔ ان بریگیڈوں کے منقطع ہونے کے بعد حسن درویش کو ان کی سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے ایک نئی یونٹ قائم کرنے کا کام سونپا گیا اور انہوں نے خرمشہر کے عمومی  علاقے میں 6 بٹالین کے ساتھ 15ویں امام حسن مجتبیٰ (ع) بریگیڈ کی تشکیل دی۔ سائٹ 4 اور 5 کا علاقہ اور فتح المبین آپریشنل ایریا میں صلیبی جنگ کی بلندیوں کو بریگیڈ کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا گیا اور اس کا ہیڈ کوارٹر سائٹ 4 میں قائم کیا گیا۔ اس کے بعد بریگیڈ کے یونٹس اور فورسز کو اس ہیڈ کوارٹر میں منتقل کر دیا گیا[9]۔

ابتدائی "محرم" اور "والفجر" آپریشنز  میں شرکت، نیسان ڈھلوان پر دفاعی لکیر کی تشکیل، جڑواں پہاڑیاں، کرامہ  اور وہب چوکی، اندیمشک بیچ پر بریگیڈ کی افواج کی بری-بحری تربیت، بریگیڈ کی آبادان  اور جزیرہ مینو میں منتقلی اور دریائے اروند اور فاو کا اطلاعاتی مشن، یہ سب ان کی کمان کے دوران 15ویں امام حسن (ع) بریگیڈ کے اہم مشن تھے[10]۔

1983 کے موسم گرما میں، بہروز غلامی نے حسن درویش کی جگہ لی، اورحسن درویش  خوداکتوبر 1983 میں لبنان کے مشن کے لیے روانہ ہوگئے، جو تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا[11]۔

خیبر آپریشن کے آغاز میں وہ ایران واپس آئے اور ایلام چلے گئے، جہاں آپریشن والفجر 6 میں 25ویں کربلا ڈویژن (سپاہ) کے ساتھ حصہ لیا، جو22 فروری 1984 کو خیبر آپریشن کے ساتھ ساتھ چزابہ اور چیلات کے سرحدی علاقے میں  دہلران کے جنوب میں کیا گیا تھا اور ڈویژن کے محوروں میں سے ایک کی کمان سنبھال لی[12]۔

والفجر 6 آپریشن کے بعد حسن درویش خیبر آپریشنل علاقے میں پہونچے اور 15ویں امام حسن (ع) بریگیڈ کی سید الشہداء بٹالین کے دستوں کے ساتھ آپریشن کے تسلسل میں حصہ لیا جہاں وہ زخمی ہو گئے[13]۔  ان کو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن اپنی مرضی سے ڈسچارج ہو کر شوش چلے گئے اور وہاں علاج جاری رکھا [14]۔

صحت یاب ہونے کے بعد وہ قم میں 17ویں علی ابن ابی طالب (ع) ڈویژن میں گئے اور دوسرے ڈویژن کے محور کے کمانڈر بن گئے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہیں جنوبی علاقے میں بھیج دیا گیا[15]۔ اور جنوب میں واپس آنے کے بعد وہ نجف کیمپ کے ہیڈکوارٹر گئے اور آپریشن یونٹ میں خدمات انجام دینے لگے[16]۔

حسن درویش بدر آپریشن میں 15ویں امام حسن مجتبیٰ (ع) بریگیڈ کے آزاد دستے کاحصہ تھے  اور 12 مارچ 1985کو تبوک آبی گزرگاہ  میں دشمن کی ، پانی کی سطح پر واقع چوکی کو تباہ کرنے کے مشن کے دوران شہید ہوئے[17] اور ان کی تدفین  گلزار شہداء شوش میں  کی گئی۔

کتاب " یادمان پاسدار شہید سردار حسن درویش" ان کے اہل خانہ اور جنگی ساتھیوں کے واقعات کی ایک یادگار کتاب ہے جو عیسیٰ خلیلی نے لکھی ہے اور انتشارات نیلوفران نے اسے شایع کیا۔

کتاب "تو باز می آیی" شہید حسن درویش کی زندگی کا ایک بیانیہ ہے جسے حجت اللہ ایزادی نے سیمینار "سرداران و 16 ھزار شہید کربلائے خوزستان"سے ذکر کیا ہے۔ اور کتاب "آبراہ تبوک": شہید گارڈز میں میجر جنرل حسن درویش کی سوانح  حیات اور آپریشنل ریکارڈ پر ایک تبصرہ، امام حسن مجتبیٰ (ع) کے 15ویں ڈویژن کے بانی اور کمانڈر" جسے مریم لطفی نے امام حسین (ع) کے گارڈزمین آفیسر اینڈ ٹریننگ یونیورسٹی سے تحریر کیا ہے۔ اور کتاب "بن بست شکن:حسن بہ روایت آقا محسن و یاران"، جسے  محسن رضائی اور شہید کے رفقا کے واقعات کی صورت میں مریم لطیفی نے لکھا ہے۔

 

 

[1] لطیفی، مریم، آبراه تبوک- شرحی بر زندگی‌نامه و کارنامه عملیاتی سردار سرلشکر پاسدار شهید حسن درویش بنیانگذار و فرمانده لشکر 15 امام حسن مجتبی (ع)، تهران، دانشگاه افسری و تربیت پاسداری امام حسین (ع)، 2018، ص 22.

[2] سابق، ص 23، 24، 401 .

[3] سابق، ص 93، 95، 106؛ میثاقیان، حسن، حماسه 14 اپریل 1981، تهران، مجتمع تخصصی چاپ و تبلیغات میثاقیان، 2013، ص 13، 14.

[4] لطیفی، مریم، سابق، ص 95، 96، 108.

[5] سابق، ص 114-108.

[6] سابق، ص 121، 123، 124، 176، 185، 207.

[7] سابق، ص 230، 235.

[8] لطف‌الله‌زادگان، علیرضا، روزشمار جنگ ایران و عراق- عبور از مرز، تهران، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2002، ص 453.

[9] لطیفی، مریم، سابق، ص 246-240.

[10] سابق، ص 248 تا 253 و 335، 342 ،343، 346.

[11] سابق، ص 356-353 .

[12] سابق، ص 358.

[13] سابق، ص 367.

[14] سابق، ص 370-369.

[15] سابق، 370، 371.

[16] سابق، ص 372.

[17] سابق، ص 394-382.