مفاہیم اور اصطلاحات
القدس کا راستہ کربلا سے گزرتا ہے
محمد علی عباسی اقدام
40 Views
"القدس کا راستہ کربلا سے گزرتا ہے" مسلط کردہ جنگ کے دوران ایک اہم نعرہ تھا۔ یہ نعرہ امام خمینی رح نے جون 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بریگیڈ کی جانب سے شام کی طرف افواج کی روانگی کے موقع پر دیا تھا۔ اس نعرے کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی رح نے خرمشہر کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے اصلی اقدامات کا خاکہ پیش کیا تھا۔
6 جون 1982 کو صبح سویرے، اسرائیل کے وزیر جنگ - جنرل شیرون- نے لبنانی سرزمین پر اپنی غاصب فوج کو مکمل بحری، فضائی، بکتر بند اور مشینی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح "بلٹزکریک" یا اسرائیل کی انتہائی تیز جنگ شروع ہوئی(1)۔
صیہونی فوج نے ایک زبردست حملہ کرتے ہوئے اور تین دنوں میں کافی زیادی پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان کے دارالحکومت بیروت تک رسائی حاصل کی۔ شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے شہریوں پر پانی اور بجلی کی بندش کی، اور ساتھ ہی لبنانی شہریوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام کیا، اور مغربی اور جنوبی شام کے کچھ حصوں پر بھی حملہ کیا(2)۔
امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں جنوبی لبنان اور شام پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے پیغام کے آغازمیں قرآن کی آیت (انا للہ و انا الیہ راجعون) کی تلاوت کی اور اس سانحے پر اسلامی ممالک کی خاموشی اور بے حسی پر عدم اطمینان اور گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
امام خمینی کے پیغام کا متن 7 جون 1982 کو جاری کیا گیا تھا: "میں اسرائیل کے جرائم اور جنوبی لبنان کے بہت سے مظلوم مسلمانوں کی شہادت اور مصائب پر کلمہ استرجاع نہیں پڑھ رہا؛ حالانکہ یہ بھی افسوس اور دکھ کا مقام ہے..؛ بلکہ یہاں میں نے اسرائیل اور صدام کے حق میں بہت سی حکومتوں کی حمایت پر استرجاع پڑھا ہے جو دونوں ہی امریکہ کی ناجائز اولاد ہیں۔"(3)۔
اس معاملے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کی زیر صدارت سپریم ڈیفنس کونسل کے اجلاس میں یہ منظوری دی گئی کہ "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریگیڈ27" کا کچھ حصہ اور بری فورسز کے "ذوالفقار رینجرز بریگیڈ58" مل کر لبنان کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دونوں گروہ حاج احمد متوسلیان کی کمان میں "لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کے نام سے ایک جنگی یونٹ کے طور پر شام کے لیے روانہ ہوں گے۔
11 جون 1982 ہفتہ کی شام کو "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم" کی افواج کا پہلا دستہ دمشق کے ہوائی اڈے پر پہنچا(5)۔
دمشق میں ایرانی افواج کی آمد کی خبر پھیلتے ہی اسرائیلی حکومت نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے۔ فوجیوں کو لے جانے والے پہلے طیارے کی آمد کے فوراً بعد، اسرائیل نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا، جو عقب نشینی کے لیے پہلا تکنیکی ا قدام تھا(6)۔
فوجی حکام کی طرف سے سپریم کمانڈر کو معلومات اور مشاہدات کی منتقلی کے بعد، امام خمینی نے ملک کے سیاسی اور فوجی حکام کو بتایا کہ شام اور لبنان پر حملہ کرنے کا اسرائیل کا اقدام اس لئے تھا تا کہ ایران کی توجہ صدام کے ساتھ جاری جنگ سے ہٹائی جا سکے(7)۔
21 جون 1982 کو، امام خمینی رح نے حسینیہ جماران میں اپنی مشہور تقریر میں، خوبصورت نعرے "القدس کا راستہ کربلا سے گزرتا ہے " کے ذریعے جنگ جاری رکھنے کے لیے ملک کی دفاعی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا(8)۔ امام خمینی رح نے فرمایا: "ان افواج کو جلد واپس آنا چاہیے؛ کیونکہ اسرائیل ہماری توجہ ہماری اپنی جنگ سے ہٹانا چاہتا ہے۔وہ یہ جانتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں ہم حساس ہیں، اسی لئے ہم پر حملہ کیا تاکہ ہمیں اپنے جنگی محاذ سے غافل کر دیں اور اس سازش میں ہم کسی حد تک آ بھی گئے(9)۔۔۔ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ہم لبنان میں مصروف ہو جائیں اور یہ ہم پر وار کریں۔ جبکہ ہماری منصوبہ بندی یہ ہے کہ پہلے عراق سے ان مفسدین اور غاصبین کا صفایا ہو اور پھر انشاءاللہ اپنی تمام تر توجہ القدس پر متمرکز کریں(10)۔۔۔۔ ہم قدس کو نجات دلانا چاہتے ہیں لیکن اس منحوس حکومت (صدام کی بعثی حکومت) کے شر سے جب تک عراق نجات نہ پائے گا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم لبنان کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں؛ لیکن ہمارے لیے لبنان کو بچانے کا مقدمہ یہ ہے کہ عراق کو نجات دلائیں۔ اور اگر ہم نے پہلے لبنان کو بچانے کا قدم اٹھایا تو عراق میں یہ منحوس حکومت اپنے پنجے مزید گاڑ لے گی(11)۔
ہاشمی رفسنجانی نے 1982 کی اپنی ڈائری کے اندراجات میں 29 جولائی 1982 کی صبح، شام اور لبنان کے محاذوں پر ایران کی فوجی موجودگی کا تعین کرنے کے لیے سپریم ڈیفنس کونسل کے اجلاس کا نتیجہ درج کیا، اور اس میں لکھا کہ: "صبح دس بجے سپریم ڈیفنس کونسل نے صدر کے دفتر میں ایک اجلاس منعقد کیا۔۔۔، ہم نے شام میں فوجیوں کو نہ بھیجنے کے بارے میں بھی فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہی فیصلہ مناسب تھا...
شامی سفیر آیا اور خوش ہوا کہ ہم نے عراق کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی ہے اور ایران سے فوج بھیج کر ان پر جنگ جاری رکھنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا، اور اس نے کہا: "اسرائیل نے نئے نامعلوم ہتھیار استعمال کیے ہیں اور ہم اس وقت ان سے لڑنا نہیں چاہتے(12)۔"
*حوالہ جات:*
[1]. بہزاد، حسین و بابایی، گلعلی، ہمپای صاعقہ، تہران: سورہ مہر، 1379، ص754.
[2]. بابایی، گلعلی، در ہالہای از غبار، تہران: صاعقہ، 1391، ص153 و 154.
[3]. بہزاد، حسین و بابایی، گلعلی، ہمپای صاعقہ، ص756.
[4]. سابق، ص 762.
[5]. سابق ، ص 776.
[6]. بابایی، گلعلی، در ہالہای از غبار، ص163.
[7]. سابق ، ص181.
[8]. سابق ، ص200.
[9]. شیرعلینیا، جعفر، دایرةالمعارف مصور تاریخ زندگی امام خمینی، تہران: انتشارات سایان، ص336.
[10]. صحیفہ امام، ج16، تہران: مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1378، ص393.
[11]. مرندی، مہدی، سلیمانی، داود، دفاع مقدس در اندیشہ امام خمینی، تہران: مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، چ چہارم، 1392، ص127.
[12]. بابایی، گلعلی، در ہالہای از غبار، ص190 و 191.