آثار

پرندہ آھنین

زینب احمدی
4 Views

سینمائی فلم " پرندہ آھنین" سن 1991ء میں علی شاہ خاتمی نے بنائی جس کا موضوع محاذ جنگ پر ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ کی طویل غیر موجودگی اور پھر اس کا اپنے خاندان کی آغوش میں واپس آنا ہے۔

فلم کی ٹیم میں شامل تھے: ہدایت کار علی شاہ خاتمی، معاون ہدایت کار سید ابراہیم اصغر زادہ، منظر نویس سیروس تسلیمی، عکس بند جمشید الوندی، سین سیکرٹری سید ابراہیم اصغر زادہ، صوتی محسن روشن، تدوین کار مہرزاد مینوئی، موسیقی شریف لطفی، فوجی مشیر میجر پائلٹ نیرمان شاداب، سرپرست صداکاران ایرج رضائی، گلوکار سیامک علیقلی، عکاس سعید گرجی اور شاہرخ سخائی، پروڈکشن مینیجر خسرو تسلیمی، پروڈیوسر سیروس تسلیمی، سیٹ و کاسٹیوم ڈیزائنر غفار رضائی اور اداکار گوماتا ریاحی، رویا نونہالی، جمشید گرگین، فتحعلی اویسی، ہما مشکین، ہدایت اللہ نوید، پریسا ایمانی، حمید رضا ہاشمیان، ناصر فروغ، محمد علیقلی، صدیقہ کیانفر، فتانه آصف نخعی، محمدرضا گودرزی اور دیگران۔

99 منٹ کی یہ فلم سورہ سنیماٹک آرگنائزیشن کی پروڈکشن ہے جو 10 جون 1992ء کو تہران، فلسطین، جام جم، سروش، جمہوری، بہمن اور دیگر سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور اس نے 2,502,310 ریال کا کاروبار کیا۔[1]

افواہ پھیلتی ہے کہ ناصر (گوماتا ریاحی)، ہیلی کاپٹر پائلٹ، ایک جنگی کارروائی میں شہید ہو گیا ہے۔ بهروز (جمشید گرگین) جو ناصر کا دوست ہے اور زخمی حالت میں  بھاگ گیا تھا، فرشته (رویا نونہالی) جو ناصر کی بیوی ہے، کی توجہ شادی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کی اس شادی کر لے، لیکن منصور (حمید رضا ہاشمیان) ناصر کا بارہ سالہ بیٹا اپنی ماں کے بهروز سے شادی کرنے کے خلاف ہے۔ منصور کا خیال ہے کہ اس کا باپ زندہ ہے اور ایک دن واپس آئے گا اور بهروز سے بدلہ لے گا۔ جب فرشته اور بهروز کی شادی کی تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں، ناصر جو زخمی ہو چکا ہے واپس آ جاتا ہے اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ وہ فضائیہ کے فوجی افسران کو قائل کرتا ہے کہ شہری مشق میں ایک ہیلی کاپٹر کی کمان سنبھالنے کا موقع دیا جائے، ناصر بهروز اور اپنے دوسرے دوست کی مدد سے خراب ہیلی کاپٹر کو محفوظ طریقے سے اڑانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔[2]

فلم کے ہدایت کار نے اس کی تخلیق کے بارے میں کہا: "سیروس تسلیمی نے " پرندہ آھنین" کا منظر نامہ پیش کیا۔ یہ ایک نیا موضوع تھا... میں نے اسے بغیر دیکھے اور پڑھے ہی پسند کر لیا اور معاہدہ کر لیا... یہ بہت بھاری کام تھا، بالکل اپنے نام کی طرح... پہلے مجھے شک تھا۔ میں نے استخارہ کیا تو اچھا آیا۔ تمام مشکلات کے باوجود "پرندہ  آھنین" پایہ تکمیل کو پہنچی — ایک مکمل طور پر جذباتی فضا رکھنے والی فلم جس کی تکمیل پر میں بہت خوش ہوں... آخر میں تمنا کرتا ہوں کہ کاش فلم کا نام "پرندہ آھنین" کی بجائے  "پیروزی ارادہ" ہوتا"۔[3]

اس فلم کے بارے میں موافق اور مخالف دونوں قسم کی آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اس فلم کو کمزور سمجھتے ہیں جبکہ کچھ نے اس کی تعریف کی ہے۔ کچھ نے اس کی کامیابی کو ڈایریکٹر کےسابقہ تجربے یعنی فلم "تعقیب سایہ ھا" کا مرہون منت قرار دیا ہے؛ نیز ان کا خیال ہے کہ سیروس تسلیمی کا یہ فلم بنانے کا مقصد  ایک کامیاب میلو ڈرامہ تیار کرنا تھا جو اچھی کمائی  دے سکے لیکن اس حوالے سے فلم زیادہ کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ فلم جنگ مخالف (اینٹی وار) ہے اور ناظرین کے ذہن میں اس کے بارے میں منفی تعبیرات ابھرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ناصر آٹھ سال کی قید کے بعد ایران واپس آتا ہے تو نہ صرف اس کا کوئی استقبال نہیں کرتا بلکہ لوگ اس کی توہین و تحقیر کرتے ہیں، جبکہ فوجی اڈے پر اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہدایت کار یہ کہنا چاہتا ہے کہ مجاہدین صرف حکومت کے لیے قابل قدر ہیں نہ کہ عوام اور گھر کے لیے۔ فلم کے کرداروں کا جنگ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے  ڈایریکٹر نے اس فلم کو ایک میلو ڈرامے کی حد تک سطحی کر دیا ہے  ۔

  · فلم کی موسیقی فلم "عطر گل یاس" جیسی ہے اور دفاع مقدس کی عکاسی نہیں کرتی، حالانکہ فلم کی موسیقی کو اس کے موضوع کے مطابق ہونا چاہیے۔[4]

  · کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہفلم کا موضوع تو اچھا ہے لیکنڈایریکٹر اس کو نئی اور درست جہت دینے سے قاصر  رہا ہے ۔ سکرپٹ رایٹر (منظر نامہ نویس)اوردایریکٹر کی فنی کمزوریوں کی وجہ سے اس فلم کو اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  فلم کا ہیرو (ناصر) ایک ضدی اورتند مزاج شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ناظر کے لیے قابل احترام نہیں لگتا۔ فلم میں حماسہ تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ناکام  رہ گئی ہے۔[5]

  · تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ " پرندہ آہنین" مصنف کی عجلت کا نتیجہ ہے نہ کہ ہدایت کار کا، کیونکہ شاہ خاتمی کی پچھلی فلم اس سے کہیں زیادہ پختہ اور پیشہ ورانہ تھی؛ فلم میں سینمائی حسن، کیمرہ اینگلز اور درست کامپوزیشن کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر، جب رویا نونہالی گاڑی چلا رہی ہوتی ہے اور ہیلی کاپٹر اس کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے، تو کیمرے کے ناقص زاویہ کی وجہ سے اس کا خوف ناظر تک درستی سے نہیں پہنچ پاتا۔· کرداروں کے درمیان تعلقات درست طریقے سے پیش نہیں ہوئے۔ ناصر کے بیٹے اور اس کے محلہ داروں کے درمیان تعلقات ناظر کو ہندی فلموں یا انقلاب سے پہلے کی ایرانی فلموں کی یاد دلاتے ہیں۔

  · فلم میں فرسودہ اور دہرائے جانے والے نمونوں کا استعمال کیا گیا ہے جو فلم کے موضوع سے متعلق نہیں ہیں، جبکہ اسے جنگ کے حوالے سے اپنے ہی ملک کے نمونہ ہائے عمل سے استفادہ کرنا چاہیے تھا تاکہ جنگ کا ماحول بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکے۔

  · بظاہر یہ فلم ایک میلوڈرامہ تھی جو ناظرین کے جذبات کو ابھار کر، ایک پرکشش کہانی کے ساتھ، ان کے لیے پر لطف لمحات لے کر آتی، لیکن یہ سطحی اور مصنوعی ثابت ہوئی اور کامیاب نہیں رہی۔[6]

 

 

[1] سالنامہ آماری فروش فیلم و سینمای ایران سال 1991ء، خزاں 2016ء، صفحہ

[2] عباس بہارلو،فیلم شناخت ایران-فیلم شناسی سینمای ایران (1979-1993)، تہران، قطرہ، 2004ء، صفحہ 253

[3] فلم ماہنامہ، شمارہ 119، دسواں سال، 2 فروری 1992ء، صفحہ 41

[4] کیہان روزنامہ، شمارہ 14514، 4 جولائی 1992ء، صفحہ 7

[5] سروش ماہنامہ، چودہواں سال، شمارہ 610، صفحہ 40

[6] مسعود فراستی، فرہنگ فیلم ہای جنگو دفاع ایران (1980-2012)، تہران، ساقی، 2013ء، صفحہ 83 اور 84