اشخاص

جواد فکوری

فاطمہ نوروزی
24 Views

میجر جنرل پائلٹ جواد فکوری (1938-1981) اسلامی جمہوریہ ایران کے فضائیہ کے کمانڈر تھے اور ایران کے خلاف مسلط کردہ  عراقی جنگ کے ابتدائی سالوں میں وزیر دفاع تھے۔  1981 میں طیارے کے حادثے میں  آپ شہید ہو گئے۔

جواد فکوری  دسمبر 1938 کو تبریز کے علاقے  "کوی شرکت"  کے محلے "چرنداپ" میں پیدا ہوئے۔ بچپن   میں ان کے والد خاندان سمیت تہران ہجرت کر گئے تھے۔  جواد نے اپنی ابتدائی اسکول کی تعلیم تہران کے پرانے "دردار" محلے کے اقبال اسکول میں مکمل کی اور اپنی ثانوی تعلیم "مروی" ہائی اسکول میں مکمل کی اور 1958 میں گریجویشن کیا۔ 1959 میں،  قومی  داخلے کا  امتحان دیا اور میڈیکل کے شعبے میں کامیابی حاصل کی، لیکن پائلٹ بننےمیں دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے میڈیکل کے شعبے میں تعلیم  کاآغاز نہیں کیا اور اسی سال اکتوبر میں فضایئہ کے ایئر فورس کالج میں داخلہ لے لیا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد، جواد نے اپنی پہلی آزاد پرواز جون 1960 میں ایک ٹی-33 طیارے میں تہران میں "دوشان ٹپہ" کے آسمان پر کی۔[1]

فکوری اپنی پائلٹ ٹریننگ مکمل کرنے کے لیے امریکہ چلے  گئے اور ڈیڑھ سال کے بعد 263 گھنٹے فلائٹ ٹائم کے ساتھ،   ایف-4 لڑاکا بمبار  طیارے کاپائلٹ  لائسنس حاصل کیا۔ ایران واپس آنے کے بعد، انہوں نے شکاری چھاؤنی-1 (مہر آباد، تہران) میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد میں  شیراز ایئر بیس میں ان کا ٹرانسفرکر دیا گیا۔[2] 27 فروری 1965 کو آپ کی شادی ہوئی اور خدا  نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی[3]۔

 انقلاب  اسلامی کی فتح سے پہلے ان کے اہم عہدوں میں شکاری بٹالین-102، اسٹینڈرڈ برانچ کی فرسٹ فائٹر بٹالین، بلائنڈ فلائٹ بٹالین اور فائٹر بریگیڈ-3 کی آپریشنل کمانڈنگ شامل ہے۔[4]  1978 میں وہ اپنا اسٹاف کورس  اور کمانڈ کورس مکمل کرنے کے لیے دوبارہ امریکہ گئے اورفروری  1979 میں ایران واپس آگئے۔

جواد فکوری کو فضائیہ کی دنیا میں بہترین پائلٹوں میں شمار کیا جاتا ہے، جنہوں نے  3,340 گھنٹے فلائٹ ٹائم  کے ساتھ طیارہ ایف-4  اڑایا، فلائٹ انسٹرکٹر کورسزکیے، اور  اس کے علاوہ مختلف لڑاکا بمبار طیاروں کو اڑانے کا اعزاز حاصل کیا[5]۔ انہیں 23 جولائی 1979 کو تبریز میں شکاری بیس -2  کا کمانڈر مقرر کیا گیا [6]۔

تبریزشہر میں 1979 کے اوایل میں علیحدگی پسند  "خلق مسلمان پارٹی"  نے بدامنی پھیلا رکھی تھی۔ اس دوران شکاری بیس-2 کے متعدد ملازمین نے - جو  اس پارٹی کے حامی تھے -  فکوری سے اسلحہ اور گولہ بارود کا مطالبہ کیا، لیکن فکوری نے انکار کر دیا  جس پر فکوری کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ان کو 48 گھنٹے بعد پائلٹ مصطفی اردستانی اور فضائیہ کے متعدد اہلکاروں نے بازیاب کرا لیا[7]۔ باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، وہ شکاری بیس-2 اور تبریز شہر میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، پھر انہیں تہران منتقل کر دیا گیا اور شکاری بیس-1 کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔ اس عہدے پر رہ کر بھی، وہ بیس کے عملے کی مدد سے حامیوں اور بائیں بازو اور منافق گروہوں کے ارکان کی سرگرمیوں کو بے اثر کرنے میں  کامیاب رہے[8]۔ 1980 کے اوایل میں فکوری کو فضائیہ کا "ڈپٹی چیف آف آپریشنز " مقرر کیا گیا اور 28 مئی 1980 کو انہیں امام خمینی کی طرف سے فضائیہ کی کمان سنبھالنے کا حکم موصول ہوا۔

8 جولائی 1980 کو ہونے والی "نقاب" نامی بغاوت کو شہید نوژہ نے ناکام بنایا تھا، یہاں بھی شہید فکوری نے اس  بغاوت کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا، اس سلسلے میں انہوں نے امام خمینی کو ایک خط لکھا جس میں  سزائے موت پانے والے باغیوں کے اہل خانہ کےمسائل کو حل کرنے اور ان کا حتی الامکان خیال  رکھے جانے کی درخواست کی، [9]جس کے جواب میں امام نے لکھا: "نوژہ کے باغیوں کے  اہل خانہ  ایرانی قوم کے زیر سایہ آرام و آسایش میں زندگی گزاریں" [10]۔

11 ستمبر 1980 کو، فکوری کو وزیرِ اعظم محمد علی رجائی کی حکومت میں وزیرِ دفاع کے طور پر مقرر کیا گیا، تاہم وہ اپنے  سابقہ عہدے پر بھی باقی رہے۔

22 ستمبر 1980 کو، مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں، جواد فکوری نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور تمام بیس کمانڈروں کو دشمن کے خلاف سخت کارروائی کے لیے پوری طرح تیار رہنے کو کہا۔ انہوں نے عراق کے خلاف  مناسب جوابی کارروائی کے لیے شکاری بیس-1  کو بھی ایک مشن سپرد کیا جس کے نتیجے میں اسی دن، ایرانی پائلٹ بصرہ کے مضافات میں  "کوت" اور "شعیبیہ" کے فضائی اڈوں پر بمباری کرنے میں کامیاب ہوئے۔

فکوری نے، ایئر بیس آپریشنز کے نائب سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے، کمانڈ-99  یا" البرز آپریشنل پلان" کو  اس انداز میں نافذ کیا کہ 23 ستمبر 1980 کی صبح ایرانی طیاروں نے عراقی "الولید ایئر بیس" کے علاوہ باقی تمام عراقی فضائی اڈوں  کو نشانہ بنایا۔ یہ آپریشن 140 لڑاکا طیاروں کی پرواز کی وجہ سے "آپریشن- 140" کے نام سے مشہور ہوا[11]۔

مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے دو ہفتے بعد، فکوری کوعراقی الولیدایئر بیس میں جدیدبم بردار طیاروں اور دیگر اسلحہ کے ذخیرہ کرنے کی رپورٹ موصول ہوئی۔ سینئر کمانڈروں اور ایئر فورس کے انٹیلی جنس  افسروں اور آپریشنز کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد، اس بیس پر حملے کے آپریشنل پلان کی منظوری دی گئی اور 4  اپریل 1981 کو یہ  آپریشن بھی کامیابی کےساتھ کیا گیا[12]۔

جواد فکوری نے اکتوبر 1981 میں آپریشن "ثامن الائمہ علیہ السلام" میں کام کرنے والی افواج کی کمان اور پلاننگ میں بھی ایک موثر کردار ادا کیا تھا۔ اس آپریشن میں فتح کے بعد 29 ستمبر کو انہوں نے  ماہشہر میں آقا ولی اللہ فلاحی اور وزیر دفاع سید موسی نامجوئی  کے ساتھ خراسان ڈویژن -77کے آپریشنل ہیڈ کوارٹر میں عراقی قیدیوں سے ملاقات کی تقریب میں شرکت کی۔

29 ستمبر 1981 کی شام کو، فکوری، فوج اور سپاہ پاسداران  کے متعدد کمانڈروں کے ساتھ، آپریشن کی کامیابی کی اطلاع دینے کے لیے سی-130طیارے میں تہران کے لیے روانہ ہوئے لیکن افسوس کہ طیارہ کہریزک کے جنوب مغربی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا ۔ اس حادثے میں بریگیڈیئر جنرل جواد فکوری اور دیگرکمانڈرز جیسے میجر جنرل ولی اللہ فلاحی، کرنل موسیٰ نامجویی، یوسف کلاہدوز، اور محمد جہاں آرا اور دیگر مسافر شہید ہوگئے[13]۔ امام خمینی نے حادثے کے اگلے دن ان کمانڈروں کی شہادت کے موقع پر ایک تعزیتی پیغام جاری کیا[14] اور عارضی صدارتی کونسل نے بھی ایک بیان میں تین روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا[15]۔

شہید بریگیڈیئر جنرل جواد فکوری اور  دیگر تمام شہداء کی تشییع جنازہ 1 اکتوبر 1981 کو تہران کے  آفیسرز کالج  سے ہوئی [16]اور انہیں بہشت زہرا قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا[17]۔

 

 

 

[1] قاضی میرسعید، سید حکمت، چشمی در آسمان، تهران: سازمان عقیدتی سیاسی ارتش جمهوری اسلامی ایران، 2004، ص17.

[2] شاهد یاران، ش124، جنوری 2015، ص6.

[3] مشتاق، زهرا، فکوری به روایت همسر شهید، تهران: روایت فتح، 2004، ص9 و 32 و 37 و 43.

[4] قاضی میرسعید، سید حکمت، چشمی در آسمان، ص18.

 

[5] شاهد یاران، ش124، ص7.

[6] مهرنیا، احمد، ستاره‌های نبرد هوایی، ج3، تهران: سوره مهر، 2017، ص452.

[7] شاهد یاران، ش124، ص8 و 9.

[8] سابق، ص8 و 9.

[9] شاهد یاران، ش124، ص9.

[10] سابق ، ص10.

[11] قاضی میرسعید، سید حکمت، چشمی در آسمان، ص140ـ137؛ شاهد یاران، ش124، ص10 و 11.

[12] شاهد یاران، ش124، ص11 و 12.

[13] سابق ، ص12.

[14] قاضی میرسعید، سید حکمت، چشمی در آسمان، ص171.

[15] روزنامه کیهان، ش11397، 1 اکتوبر 1981، ص2.

[16] روزنامه جمهوری اسلامی، ش675، 3 اکتوبر 1981، ص10.

[17] http://mazareshahid.ir/11363