آثار
پیشتازان فتح
زینب احمدی
2 Views
فلم "پیشتازان فتح" ناصر مہدی پور نے 1984میں بنائی، اس کا موضوع یہ تھا کہ مجاہدین فتح المبین آپریشن کی تیاری کے لیے بارودی سرنگوں کو میدانِ جنگ میں ناکارہ بنا رہے تھے۔
اس فلم کے ہدایت کار ناصر مہدی پور، معاون ہدایت کار حسن غمخوار، مجید اور فریدون بازدار، تصویر بردار حسن رحمانی، معاونین تصویر برداری حسن آذری، علیرضا نامورجاہ، علی نیک مرام اور احمد نیکوگر، سینٹ سیکرٹری رضا ملاجعفر، تکنیکی معاملات کی نگرانی وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی، نگران صداکار منوچهر اسماعیلی، صدا محسن روشن اور احمد کلانتری، خصوصی اثرات نامدار روزبهانی، تدوین کار صمد تواضعی، پس منظر کی موسیقی اسداللہ کلانتری، اینی میشن کی تصویر برداری فرامرز بیگدلی، ٹائٹل زہرہ زارعی، پروڈکشن مینیجر نورالدین گودرزی اور اداکار پرویز پرستوئی، فرہنگ حیدری، موسی شجاعی، رحمان باقریان، محسن محمودی، مجید بازدار، وحید یوسفی، احمد ذاکری، فریدون بازدار، علی مطلبیان اور دیگر تھے۔
79 منٹ کی یہ فلم وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی کے محکمہ تولید فلم و عکس و اسلایڈ (فلم، فوٹو اور سلائیڈز) کی پیشکش ہے [1] جو بعد میں ایران ٹیلی ویژن کے حوالے کردی گئی۔ فلم "پیشتازان فتح" نے فلمی فیسٹیول میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی اور سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔[2]
ایک بارہ رکنی گروہ کو شناخت اور بارودی سرنگوں کے میدان کی صفائی کے لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ عملیات فتح المبین کی تیاری کرنے والے فوجیوں کے گزرنے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ وہ لڑائی بھڑائی کے دوران ایک گزرگاہ صاف کرتے ہیں، بارودی سرنگیں تلاش کرتےاور انہیں بے اثر کرتے ہیں اور دشمن کے کئی سپاہیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ سب سے سخت جنگ چوتھی گزرگاہ پر ہوتی ہے جہاں دونوں اطراف کے کئی افراد مارے جاتے ہیں۔ اس گروہ کا یہ آپریشن عملیات فتح المبین کی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فلم نعروں سے بھرپور نہیں ہے اور محاذ و جنگ کی داستانوں کو سینما کے ذریعے پیش کرنے میں کامیاب ہے، نیز ناظرین کو جنگ کے ماحول میں بہت اچھی طرح سے لے جاتی ہے اور انہیں متاثر کرتی ہے۔ فلم کے تمام کردار محاذ اور جنگ کے حقیقی سپاہی اور ہیرو ہیں، لیکن فلم میں سطحی ہیرو سازی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ واقعات ایک معقول اور قدرتی تسلسل سے آگے بڑھتے ہیں۔ کرداروں کی انفرادی شناخت نہیں ہے اور ان کی ذاتی زندگیوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے، اسی بنا پر وہ تمام رزمندگان کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ فلم کا مقصد انفرادی ہیرو متعارف کروانا نہیں ہے، بلکہ فلم ساز کے نقطہ نظر سے تمام رزمندگان مل کر اور اتحاد کے ساتھ میدان جنگ میں ایک مثبت اور کامیاب تحریک پیدا کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہدایت کار نے اپنی کہانی میں انفرادی ہیرو کو متعارف کروانا حذف کر دیا ہے اور تمام سپاہیوں، خواہ جنگی محاذوں کے پیچھے ہوں یا اگلے مورچوں پر، فلم ساز کی نظر میں ہیرو ہیں۔ [3]
کہا جاتا ہے کہ اگر ہم جنگی سینما کو دو قسم کی فلموں سے پہچانیں، تو ایک قسم ان فلموں کی ہے جو واقعہ پردازی اور فزیکل جھڑپوں پر زور دیتی ہیں اور دوسری قسم ان فلموں کی ہے جو فوجیوں اور ان کی روحانی کیفیات کو متعارف کروانے کے گرد گھومتی ہیں۔ "پیشتازان فتح" دوسری قسم میں آتی ہے اور اس میں مسلمان ایرانی فوجیوں کی باطنی خصوصیات اور اخلاقی اوصاف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فلم، ایران کی افواج کی آپریشن میں کامیابی کا سبب فوجی ساز و سامان اور فوجیوں کی جسمانی طاقت کی عکاسی نہیں کرتی، بلکہ فوجیوں کے ایمان، شہادت پر یقین اور موت سے نہ ڈرنے کو، نیز توکل کی قوت اور اللہ تعالی سے وابستگی کو ایران کی افواج کی کامیابی کا سرچشمہ قرار دیتی ہے۔ کیونکہ صرف شہادت کی نظریے پر یقین، جس کا سرچشمہ امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا ہے، اور ایثار و قربانی کے بلند اوصاف، جو معصوم ائمہ کی سیرت سے انہیں ملے ہیں، ہی موت سے نہ ڈرنے اور اسلحے سے مکمل لیس دشمن کے آگے آخری سانس تک ڈٹے رہنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وہ واضح فرق ہے جو ایران کے محاذوں پر جنگ کے ماحول اور دنیا کی دیگر جنگوں کے درمیان پایا جاتا ہے، جن کی نظریاتی بنیادیں مادی زندگی کی حدود سے آگے نہیں بڑھتیں۔ "پیشتازان فتح" اپنی روایت کے ذریعے فوجیوں کی کیفیات کو قریب سے دکھا کر ایسی حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جنگ کے فوجی پہلو، فلم سازکے پیش نظر نہیں تھے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ہدایت کار سینما میں جنگ کی تصویر کشی کے اپنے فرض کو محض لڑائی جھگڑے کے مناظر اور سین پیش کرنے کے بجائے، محاذ کے فوجیوں کو ناظرین سے متعارف کروانا سمجھتا ہے۔ البتہ واقعاتی جنگی فلموں میں کوئی حرج نہیں ہے اور جنگ کے فزیکل پہلو کو پیش کرنا بھی جنگی سینما کا تقاضا ہے۔ بالآخر یہ فلم واقعاتی مناظر کے حوالے سے ایک گہری اور پر معنی فلم ہے۔ [4]
سینما کے تجزیہ کاروں کے خیال میں "پیشتازان فتح" نوزائیدہ جنگی سینما کی ہراول دستہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس فلم میں تحرک اور جوش و جذبہ کے لیے اچھی صلاحیت موجود ہے، لیکن یہ اس کے دام میں نہیں آئی ہے بلکہ اس عنصر کو سینما کی خدمت میں لگایا ہے۔ فلم کے اداکاروں کی پرفارمنس بہ آسانی فلم کے متن (موضوع) پر متمرکز ہے اور تصویر برداری بھی مناظر کو ناظر کی آنکھوں کے سامنے نرمی اور لطافت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ [5]
[1] بهارلو عباس، فیلمشناخت ایران- فیلمشناسی سینمای ایران 1979-1993، تهران، قطره2004، ص ۶۴
[2] روزنامه جام جم، منگل 7 مئی 2013، ص ۹
[3] روزنامه کیهان، ش ۱۲۲۶۸، 30 ستمبر 1984، ص ۷
[4] مستغاثی، سعید، «هنر و معماری»، نشریه فارابی، ش ۴۲ و ۴۳، ص ۵۵، WWW.noormags.ir
[5] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران1980ـ1990، تهران، روزنه، 2004، ص ۲۷۶ و ۲۷۷

