آثار
تا مرز دیدار
زینب احمدی
2 Views
فلم " تا مرز دیدار" حسین قاسمی جامی نے 1989 میں بنائی تھی۔ یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے لاپتہ بھائی کی تلاش میں محاذ جنگ کے پر جاتا ہے۔
اس فلم کے ہدایت کار حسین قاسمی جامی، معاون ہدایت کار علی اکبر ثقفی، فلم کے مصنفین علی اکبر ثقفی اور حسین قاسمی جامی، مدیر فوٹوگرافی اور ایڈیٹر کمال تبریزی، فوٹوگرافی کی ٹیم میں مصطفی بافرونی، سعید صادقی اور مہدی کریمی، سین سیکرٹری محسن عظیمی نیا، ڈبنگ کے سربراہ جلال مقامی تھے اور خصوصی اثرات محمدرضا شرف الدین کے تھے، موسیقی محمد میرزمانی بافقی نے بنائی، سیٹ ڈیزائنر محمد ہادی قمیشی، پوسٹر ڈیزائنر محمد علی باطنی، پروڈیوسر شاہد ٹیلی ویژن گروپ، پروڈکشن مینیجر سعید حاجی میری ، اور ادارہ فلم کے منتظم سبحان تھے، جبکہ اداکاروں میں مجید مجیدی، ہدایت اللہ نوید، جلیل فرجاد، محمدہادی قمیشی، محسن صادقی، ابوالقاسم مبارکی، حسن اسدی، علی جلیلی بالہ، ملیحہ نظری، فرحناز نظری، سعید فرامرزی اور دیگر شامل تھے۔
108 منٹ کی یہ فلم شاہد ٹیلی ویژن گروپ نے تجرباتی اور نیم پیشہ ورانہ سنیما کے مرکز کے تعاون سے بنائی اور 1990 میں عوامی نمایش کے لیے پیش کیا ؛ اس فلم نے 48,877,390 ریال کا کاروبار کیا۔[1]
فلم کی داستان کچھ یوں ہے کہ ایران کی فٹ بال ٹیم کو ایشیائی کھیلوں کے لیے بیرون ملک بھیجا جانا ہے، لیکن ٹیم کے ایک اہم کھلاڑی مصطفی موسوی کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا بھائی مرتضی جنگ کے محاذ پر لاپتہ ہو گیا ہے۔ وہ ٹیم کے ساتھ جانے سے انکار کرتا ہے اور اپنے بھائی کو تلاشنے کے لیے محاذ پر پہنچ جاتا ہے۔ مصطفی اپنے بھائی کے ساتھی ہاشم کی مدد سے اس جگہ پہنچتا ہے جہاں آخری بار مرتضی موجود تھا ، لیکن کچھ جھڑپوں کے بعد ہاشم شہید ہو جاتا ہے اور مصطفی زخمی ہو کر پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔[2]
فلم " تا مرز دیدار" فجر بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے آٹھویں دورے میں بہترین فلم کے لیے نامزد ہوئی لیکن کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔[3]
تنقید نگاروں کے مطابق، ایک نئے ہدایت کار کے طور پر فلم کے موضوع کا انتخاب قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی مشکل کو بیان کرتی ہے جس پر طویل بات چیت ہو سکتی ہے۔ دو بھائیوں مرتضی اور مصطفی کا انتخاب، جو دونوں ہی زندگی میں ترقی اور کامیابی کے خواہشمند ہیں—ایک کھیل کے میدان میں (مصطفی) اور دوسرا حق و باطل کی جنگ میں(مرتضی)—اور دونوں اپنا مقصد پالیتے ہیں۔ ایک دنیاوی کمال کا خواہشمند ہے اور دوسرا حقیقی معرفت کا۔ اس فلم میں ہم مرکزی کردار مصطفی کو مشکل ہدف کا انتخاب کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جب اسے ایک ساتھ دو خبریں ملتی ہیں: ایک اس کے بھائی مرتضی کے لاپتہ ہونے کی، اور دوسری اس کی خواہش پوری ہونے کی کہ وہ ایشیائی کھیلوں کے لیے قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ اس مشکل انتخاب میں پھنس جاتا ہے اور آخرکار اپنے بھائی کو تلاش کرنے جنگی محاذ پر چلا جاتا ہے اور یہی فلم کا مرکزی خیال ہے۔[4]
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ فلم ساز کے تجربے کی کمی کی وجہ سے فلم میں کچھ خامیاں ہیں، جن میں کرداروں کی کمزور اداکاری شامل ہے۔ مصطفی کی شخصیت میں تبدیلی ادھوری رہ گئی ہے۔ ان خامیوں کے باوجود، فلم کا اختتام دلچسپ اور اثرانگیز ہے۔[5]
دیگرتنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اس فلم کا اسکرپٹ اچھا ہے، لیکن تجربے کے فقدان اور کمزور اداکاری کی وجہ سے فلم ساز اپنے ابتدائی مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ ہدایت کار کی تصویر پیش کرنے میں کمزوری، اداکاروں کی کمزور کارکردگی جن میں مجید مجیدی بھی شامل ہیں، اور تکنیکی cuts کا نامناسب ہونا فلم کی دلچسپی میں نمایاں کمی کے سبب بنا ہے۔ فلم نے عوام کی زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہی ہے، لیکن مصطفی کا کردار منطقی محسوس نہیں ہوتا۔ ناظرین مصطفی اور اس کے بھائی مرتضی کے درمیان واضح انداز فکر کے فرق کو محسوس نہیں کر پاتے: ایک غیور اور محبت کرنے والا اور دوسرا اپنے خاندان کے بارے میں بے پروا( یعنی مصطفی کو اپنی ماں کی بیماری کی کچھ فکر ہی نہیں )۔ نیز مصطفی کے ارادہ تبدیل ہونے اور فٹ بال کو چھوڑ کر محاذ پر جانے کی وجہ ناظرین کے لیے واضح نہیں ہے۔ اسی لیے زیادہ تر تنقید نگاروں کے خیال میں مصطفی کا کردار درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔ ان خامیوں کے باوجود، یہ فلم کچھ دیگر جنگی فلموں کی طرح فرسودہ اور پریشان کن نہیں ہے بلکہ اس میں سچائی ہے اور جنگ کے محاذوں کی حقیقت کے قریب ہے۔[6]
فلم ساز نے تجربے کی کمی کے باوجود اس کام میں سچائی برتی ہے اور وہ تصویری زبان سے واقف بھی ہے۔ مصطفی کا کردار محاذ پر جانے سے پہلے مثبت تسلسل سے لبریز ہے، لیکن محاذ پر پہنچنے کے بعد ہمیں اچانک اور بغیر تیاری کے وہی تبدیلی دکھائی دیتی ہے جو ہم دوسری ایسی فلموں میں دیکھ چکے ہیں۔ فلم میں ہدایت کار کا تصویری زبان کے ساتھ تقابلی رویہ اہم ہے۔ مثال کے طور پر، جب وہ مرتضی کو پیش کرنا چاہتا ہے، جو مصطفی سے زیادہ سمجھدار اور پختہ ہے اور اس نے زندگی کا راستہ خود چنا ہے، تو وہ اسے حوض میں پڑی مردہ مچھلی کے ساتھ دکھاتا ہے جو اس کی شہادت اور آخری سفر کی علامت ہے۔ مرتضی کے چہرے کو باغ کے خوبصورت پودوں کے ساتھ دکھا کر اس کی اندرونی پاکیزگی اور صفائی کو ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ مصطفی کو دکھانے کے لیے درخت سے گرتے ہوئے کچے اور ناپختہ پھل کی تصویر استعمال کی گئی ہے، جو اس کی ناپختہ اور نابالغ شخصیت کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ مصطفی میں اخلاقی خامیاں ہیں۔ ایک اور منظر میں، جب مصطفی محاذ پر جاتا ہے، ہدایت کار جان بوجھ کر اسے باقی مجاہدین کی صف سے الگ کر دیتا ہے، کیونکہ اس میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور ان کے ساتھ فکری ہم آہنگی نہیں رکھتا۔[7]
[1] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران 1990، 2016، ص ۹
[2] بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران (فیلم شناسی سینمای ایران 1979-1993)، تهرن، قطره، 2004، ص ۱۹۴ و ۱۹۵
[3]http://www.sourehcinema.com/Festival/Film/History.aspx?Kind=Full&Id=138109201458
[4] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران 1979-1990، تهران، روزنه، 2004، ص ۹۹۹-۱۰۰۲.
[5] مجله اطلاعات هفتگی، ش ۲۴۷۲، ص ۴۱.
[6] روزنامه سلام، ش ۳۹۱، 30 ستمبر 1992، ص ۵
[7] ماهانه سینمایی فیلم، ش ۹۳، سال 3، اگست 1990، ص ۵۳

