اشخاص

محمود خضرائی

محسن شیر محمد
19 Views

بریگیڈیئر جنرل محمود خضرائی دفاع مقدس کے زمانے میں ایئر ٹریننگ سینٹر کے کمانڈر تھے، جو مارچ 1986 میں اس وقت شہید ہوئے جب ان کے فوکر ایف-27کو اہواز میں دشمن کے جنگی طیاروں نے مار گرایا۔

محمود خضرائی 6جون 1947 کو تہران میں پیدا ہوئے؛[1]  انہوں اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم تہران میں مکمل کی، اور ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، اور قومی داخلہ کے امتحانات میں  انجینئرنگ کے کئی شعبوں  میں پاس  ہوئے، لیکن اپنے والد کے مالی حالات اچھے نہ ہونےکی وجہ سے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری  نہ رکھ سکے ۔ 1965 میں، انہوں نے  کیڈٹ کالج میں داخلے کا امتحان دیا  اور اکتوبر 1969 میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے کے ساتھ گریجویشن کیا؛ [2] انہیں ایئر فورس  کے ریڈار ڈیپارٹمنٹ کا چارج دیا گیا[3]۔

پرواز کے شعبے میں دلچسپی کے باعث، انہوں نے ایئر فورس پائلٹ کالج [4]میں داخلہ لے لیا اور ملک میں ابتدائی پرواز کا کورس مکمل کرنے کے بعد، انہیں  اعلیٰ تعلیم کے حصول  کے لیے امریکہ بھیج دیا گیا۔ چونکہ وہ کیڈٹ کالج  سے پائلٹ کالج میں   آئے تھے، اس لیے ایک سینئر افسر کے طور پر ان کو امریکہ بھیجا گیا اور وہاں  کے" ریس بیس " میں   تربیتی کورس مکمل کیا۔ 1972 میں اپنی تربیت  مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے اپنا ایف-4پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا اور ایران واپس تشریف لائے اور تہران کے مہرآباد ایئر بیس پر  ڈیوٹی شروع کر دی اور بعد میں ان کو بوشہر ایئر بیس پر منتقل کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد، وہ اس چھاؤنی کی شکاری بٹالین  کے آپریشنل ہیڈ بن گئے[5]  1973 میں، ان کی شادی ہوئی اور خدا نے ان کو ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

محمود خضرائی انقلاب اسلامی کی کامیابی سے کچھ عرصہ  پہلے فوج سے فرار ہوکر انقلابی افراد میں شامل ہو گئے تھے[6]۔ فروری 1979 کے اوائل میں، اسلامی انقلاب کی فتح سے چند دن پہلے، شہید اور نوجوانوں کے ایک گروہ نے تہران کے علاقے گرگان کے پولیس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا ، البتہ جھڑپوں کے دوران ان کے ہاتھ میں  گولی بھی لگی[7]۔

اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، خضرائی،  ڈاکٹر مصطفی چمران (شہید) کے ساتھی تھے اور انہیں صوبہ کردستان میں کوملہ قبیلے اور ڈیموکریٹ [8]گروہ کی بغاوت کو دبانے کے لیے ملک کے مغربی حصے میں بھیجا گیا[9]۔ خضرائی نے شہید نوژہ بیس (ہمدان) میں نقاب بغاوت کے مرتکب افراد کی شناخت میں بھی کردار ادا کیا۔[10]

مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے بعد شہید خضرائی نے بیرونی سرحدوں پر آپریشنز میں حصہ لیا اور مشن کے دوران کئی بار ان کا طیارہ حادثے سے دوچار ہوا اور خضرائی زخمی ہوئے[11]۔ ایک آپریشن  جس میں ان کے طیارے  کا پہیہ ٹوٹنے پر طیارےکو بہت زیادہ نقصان پہنچا  لیکن پھر بھی ، وہ طیارے کو کامیابی سے لینڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے[12]۔ ان کی  دوسری بلند پرواز کے دوران،  دشمن نے میزائل سام-2 سے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا، لیکن خوش قسمتی سے طیارے میں سوار خضرائی اور ان کے معاون پائلٹ حسین نیکو کار موت کے منہ سے بچ نکلے [13]، صرف یہی نہیں بلکہ طیارے کو اسی حالت میں ایک انجن پر خرم آباد کے جنوب تک لائے اور پھر  اسے وہیں چھوڑ دیا [14]، تاہم طیارے  سے ہنگامی طور پر باہر نکلتے وقت، ان کا ہاتھ کاک پٹ کی زد میں آنے سے ٹوٹ گیا  تھا[15]۔

6 نومبر 1980 کو خضرائی کو کئی دیگر پائلٹوں کے ساتھ دزفول  شہرکے وحدتی ایئر بیس پر بھیجا گیا [16]جہاں انہوں نے زمینی افواج کی پشت پناہی کے طور  اس  چھاونی میں خدمات سر انجام دیں[17]۔

شہید خضرائی مارچ 1981  میں آپریشن ایچ-3 یا  "مشن الولید" ( عراق نے ایران پر حملے کے بعد اپنے زیادی تر جنگی طیاروں کو اردن کی سرحد کے قریب ایچ-3 کے مقام پر منتقل کر دیا تھا ،اسی ایئر بیس پر ایران نے زبردست طریقے سے حملہ کیا جس میں 60 فیصد سے زیادہ جنگی طیارے اور چھاؤنیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ اس آپریشن کا نام   آپریشن ایچ-3 یا مشن الولید تھا) میں بھی شریک رہے[18]۔ اس آپریشن میں، ان کو تین طیاروں کے پہلے گروپ (ایف-4 طیاروں) میں شریک پائلٹ اصغر باقری کے ساتھ ایک ہوائی اڈے پر بمباری کرنے کا مشن سونپا گیا تھا[19]۔ ہدف پر بمباری کے بعد، ان کے طیارے کو نقصان پہنچا اور وہ ہوا میں ایندھن بھرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا[20]۔ چونکہ طیارے کا ایندھن کم ہو رہا تھا، اس لیے خضرائی نے اسے شام کے ایک ایئربیس پر اتارا[21]۔

جولائی 1981 میں،خضرائی کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور وہ ہمدان میں تیسرے شکاری ایئربیس کے کمانڈر بن گئے، جہاں وہ دو سال تک اس عہدے پر فائز رہے[22]۔

1983 میں، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے فضائی دفاع کے کمانڈر بنے[23] اور 1985 کے شروع میں، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے فضائی تربیتی مرکز کے کمانڈر بنے اور   شہادت تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے[24]۔

آپریشن  والفجر8 کے بعد، 20 فروری 1986 کو، ایک فوکر F-27 جس میں سپاہ پاسداران انقلاب میں امام خمینی کے نمائندے آیت اللہ فضل اللہ محلاتی، اسلامی مشاورتی اسمبلی کے متعدد اراکین، سپریم کورٹ کے ججز اور محمود خضرائی شامل تھے،  جنگی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اہواز کے لیے روانہ ہوئے۔ اہواز کے قریب، ویس کے علاقے میں[25]،  ان کا طیارہ دشمن  کے لڑاکا طیارے میگ-23  کےمیزائل  کا نشانہ بن گیا[26] ۔

عراقی لڑاکا طیاروں نے ابتدا میں پائلٹ کرنل عبدالباقی درویش کو عراق کی سرزمین پر اترنے کی صورت میں دنیا کے کسی بھی آزاد ملک میں سیاسی پناہ کی پیشکش کی لیکن پائلٹ نے آخری فیصلہ آیت اللہ محلاتی پر چھوڑ دیا جنہوں نے شہاد ت  کو  اسیری پر ترجیح دی اور ان کے طیارے کو دشمن کے طیاروں نے تباہ کر دیا  جس کے نتیجے میں تمام افراد شہید ہو گئے[27]۔ 21 فروری کو شہداء کے جسد ہائے خاکی کو اہواز سے امیدیہ اور وہاں سے سی - 130 طیارے کے ذریعے تہران منتقل کیا گیا[28]۔ شہید خضرائی کے جسد خاکی کو تہران  کے قبرستان بہشت زہرا  (س) میں  پلاٹ 53 میں سپرد خاک کیا گیا۔

محمود خضرایی کی شہادت کے بعد ایئر ٹریننگ سینٹر کا نام شہید خضرائی کے نام پر رکھا گیا[29]۔

شہید خضرائی کے بارے میں قاسم اکبری مقدم کی کتاب "ستارگان آسمانی " اور حمید بوربور کی کتاب "فروغ پرواز" شائع ہو چکی ہیں۔

 

 

 

[1] زندگینامه ـ محمود خضرایی»، همشهری آنلاین، 17 تیر 1392، www.hamshahrionline.ir/news/222360.

[2] بوربور، حمید، فروغ پروازـ مروری بر زندگی شهید سرتیپ خلبان محمود خضرائی، تهران، انتشارات عقیدتی سیاسی ارتش، 1383، ص 9.

[3] سابق ، ص 30.

[4] سابق ، ص 9.

[5] «زندگینامه ـ محمود خضرایی»، سابق.

[6] بوربور، حمید، سابق ، ص9 و 10.

[7] «زندگینامه ـ محمود خضرایی»، سابق.

[8] بوربور، حمید، سابق ، ص 9.

[9] سابق ، ص 10.

[10] سابق

[11] سابق .

[12] سابق ، ص 21.

[13] اردانی، محمد داود، «شهیدی با فرق شکافته»، فصلنامه جامع، ش 11، زمستان و بهار 1398، ص 25.

[14] مهرنیا، احمد، ستاره‌های نبرد هوایی، ج 3، تهران، سوره مهر، 1395، ص 565 و 566.

[15] «زندگینامه ـ محمود خضرایی»، سابق۔

[16] مهرنیا، احمد، خلبان وارسته، تهران، سوره مهر، 1398، ص 91

[17] موسوی، اسماعیل و دیگران، «تقویم مستند عملکرد نهاجا»، ج 6، تهران، مرکز انتشارات راهبردی نهاجا، 1399، ص 173.

[18] اردانی، محمد داود، سابق ، ص 25.

     [19] مهرنیا، احمد، حمله به الولید، تهران، سوره مهر، چ هفتم، 1392، ص 170.

[20] سابق ، ص176.

[21] سابق ، ص 181-179

[22] بوربور، حمید، سابق ، ص 21 و 22.

[23] «زندگینامه ـ محمود خضرایی»، سابق.

[24] سابق۔

[25] اردانی، محمد داود، سابق ، ص 25.

[26] نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، تهران، ایران سبز، 1389، ص 318.

[27] «جزئیات سقوط هواپیمای مسافربری حامل شهید محلاتی و یارانش، یادمان شهید فضل‌الله مهدی زاده محلاتی»، مجله شاهد یاران، ش 56، تیر 1389، ص 116.

[28] اردانی، محمد داود، سابق، ص 26.

[29] عاروان، محمدرضا، در قلمرو آفتاب، تهران، سازمان حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع مقدس ارتش، 1385، ص 146.