آثار

پیک نیک در جنگ

زینب احمدی
2 Views

فلم "پیک نیک در میدان جنگ" رحیم حسینی نے 2006ء میں بنائی ہے اور یہ ایک ایسے عاشق چرواہے کی مزاحیہ کہانی دکھاتی ہے جو اپنے سسر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محاذ جنگ  پر چلا جاتا ہے۔

ہدایت کار رحیم حسینی ہے، پہلے اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد کاوری ہیں، فلم نویس مجتبی خشک‌دامن، حمید برزگر اور رحیم حسینی ہیں، ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی مصطفی احمدیان ہیں، کیمرا مین وحید مینا، رضا طوفانیان اور حسین حسین‌زاده ہیں، سکرپٹ سیکرٹری جمشید بهرامیان ہیں، ساؤنڈ ریکارڈسٹ محمد امامی ہیں، ویژول ایفیکٹس حسین طلابیگی ہیں، ایڈیٹر حسین مشک‌آبادیان ہیں، موسیقی ستار اورکی نے بنائی ہے، میک اپ آرٹسٹ پیام صابری ہیں، یونٹ مینیجر محمد یامینی ہیں، سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر محمدرضا شجاعی ہیں، پروڈیوسر محمد خزاعی ہیں، پوسٹر ڈیزائنر بهزاد خورشیدی ہیں اور اداکار علی صادقی، قاسم زارع، علیرضا اوسیوند، عزت‌الله رمضانی‌فر، قربان نجفی، بهادر اسدی، محسن سلیمانی، هادی محقق، محسن جهانبانی، علی‌اصغر محمدی، فواد احمدی ‌صابر، محمود مقدسی، هانیه اکراد، سلمان نظری، امیر احمدی، احمد نظیمی اور دوسرے شامل ہیں۔

94 منٹ کی یہ فلم 23 خرداد 1386 (13 جون 2007) کو سینما سروش، سپیده، قدس، میلاد، فلسطین، دهکده، بلوار اور دیگر سینماوں میں ریلیز ہوئی جس نے 678,097,000 ریال کا بزنس کیا۔[1]  یہ فلم کسی فیسٹیول میں کوئی اعزاز حاصل نہ کر سکی۔

سهراب (علی صادقی) ایک سادہ لوح دیہاتی نوجوان ہے جو ایک گاؤں کی لڑکی ہمدم (هانیه اکراد) سے محبت کرتا ہے۔ لڑکی کے والد نے شرط عائد کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی سهراب کے ساتھ صرف اسی صورت میں  کرے گا جب وہ محاذ پر جاکر پچیس عراقیوں کو قیدی بنائے۔ سهراب، جو پیشے کے اعتبار سے چرواہا ہے، تیئیس عراقیوں کو قیدی بنا لیتا ہے اور انہیں حوالے کرکے میرزا (عزت‌الله رمضانی‌فر) نامی ایک بزرگ سے رسید حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا عشقیہ حریف اور رقیب جعفر (قربان نجفی) بھی  محاذ میں موجود ہے اور ان کے درمیان کشیدگی ہے۔ سهراب دو مزید عراقیوں کو قیدی بناتا ہے اور پھر آپے سے باہر ہو کر  ایک غیر متوقع انداز میں، اسلحہ اٹھاتا ہے اور قیدیوں کو آزاد کر دیتا ہے۔ سهراب سپلائی کی گاڑی اور اپنی بھیڑوں کے ساتھ بھاگ کر  اگلے مورچے تک جا پہونچتا ہے جہاں ہر طرف ہنگامہ برپا ہے۔ سپاہی بھوکے اور پیاسے ہیں اور سهراب، باوجود اس کے کہ وہ اپنی بھیڑوں سے محبت کرتا ہے، انہیں یکے بعد دیگرے ذبح کرتا ہے، کباب بنا کر سپاہیوں کو کھلاتا ہے۔ وہ خط مقدم میں موجود مجاہدین تک کھانا پہنچانے کے ارادے سے دشمن کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ آر پی جی کی فائرنگ سے شہید ہو گیا ہے۔[2]

ماہرین کا کہنا ہے کہ سنیما میں فلم کی کہانی ہیرو اور اس کی مخالف قوتوں کے درمیان کشمکش سے آگے بڑھتی ہے۔ اس فلم میں بھی فلم ساز ابتدا میں اس کشمکش کو بخوبی پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے؛ ایک چرواہا جو ایک لڑکی کا عاشق ہوا ہے اور لڑکی کے والد کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اس کی شرط ماننے اور محاذ جنگ پر جانے پر مجبور ہے۔ البتہ جو چیز کہانی کی طاقت اور کشش کو کم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سهراب اپنی خواہش تک پہنچنے کے سفر میں کسی مخالف قوت کے ساتھ کشمکش اور جدوجہد نہیں کرتا۔ اگرچہ بظاہر جعفر، اس کا ہم وطن، اس کا عشقیہ حریف ہے اور وہ بھی اسی لڑکی کا عاشق ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان کوئی جاندار کشمکش پیش نہیں آتی۔ اسی وجہ سے ناظرین کو کہانی کو فالو کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ روایت میں ضروری کشش اور روح موجود نہیں ہے۔

بعض تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ فلم نامہ نویس کشمکش پیدا کرنے میں اپنی کمزوری اور نااہلی کی وجہ سے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کہانی کے پیچ و خم، بشمول فزیکل کشمکش اور لفظی جھگڑوں، کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تاکہ وہ فضا کو کنٹرول کر سکے، مصنوعی جوش و کشش پیدا کر سکے اور کہانی میں جان پیدا کر سکے۔ ان کے ساتھ ساتھ اس فلم میں کشمکش پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے بعض مناظر ڈرامائی منطق سے عاری ہیں۔ مثال کے طور پر، جب سهراب کمانڈر کو گرفتار کر لیتا ہے، تو کمانڈر، باوجود اس کے کہ وہ اپنی فوجی طاقت استعمال کرکے سهراب کو سزا دے سکتا ہے یا اسے غیر مسلح کر سکتا ہے، حیرت انگیز طور پر عاجزی اور تمسخر کے ساتھ سهراب کا قیدی بن جاتا ہے۔ فلم ساز اس قسم کے بے دلیل اور غیر منطقی مناظر کے ذریعے جبهہ کی فضا کو سهراب کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیتا ہے، کیونکہ مثال کے طور پر وہ ایک سادہ دل اور بے ساختہ چرواہا ہے اور کہانی کا دھارا اس کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے۔ ناظرین کے لیے یہ غیر منطقی ہے کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ جنگی علاقوں میں داخل ہو جائے اور بغیر کسی وجہ کے اور آسانی سے عراقیوں کو قیدی بنا لے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ فلم ساز یہ کہے کہ مثال کے طور پر ہمارے جنگی محاذوں میں کس قدر خلوص اور سادگی تھی کہ یہاں تک کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ وہاں داخل ہو سکتا تھا اور جنگی خدمات فراہم کر سکتا تھا۔ باقی کردار بھی سهراب کی طرح سادہ اور بے وقوفانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فلم کا میدان جنگ، بے ہودہ اور بے قانون لوگوں کامیدان جنگ بن گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فلم نامہ نویسوں نے محاذ جنگ کی فضا، مقام اور حالات کو اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیا ہے تاکہ جب بھی سهراب کا دل چاہے وہ عراقیوں کے ہیڈ کوارٹر جا سکے، مرتضی کو آزاد کر سکے، عراقیوں کے تربوز لے سکے اور آسانی سے اپنے فوجیوں کی طرف آ سکے۔ ان آمد و رفت میں فلم ساز نے کٹ کا ہتھیار استعمال کیا ہے۔ فلم کا نام ایک اور چال ہے تاکہ فلم ساز اپنے ناظرین کو یہ باور کرائے کہ جنگ پر جانا درحقیقت پکنک پر جانے کے مترادف ہے اور ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ فلم نامہ نویسوں نے فلم کے کرداروں کے مکالموں اور بات چیت پر صحیح توجہ نہیں دی ہے۔ فلم کے کرداروں کے بولنے اور مکالمہ نگاری میں کرداروں کے رویوں، عادات اور فطرت پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک جنگی کمانڈر کا بات چیت کا انداز سهراب سے، جو بظاہر ایک بے وقوف اور احمق آدمی ہے، مختلف ہونا چاہیے۔ کرداروں کے بات چیت کے انداز اور لہجے کے حوالے سے ایک اور نکتہ یہ ہے کہ فلم کے تمام کردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور چلاتے ہیں اور تیزی اور عجلت میں بولتے ہیں۔ شاید فلم نامہ نویس کی اس تمام سطحی سوچ اور غفلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلم کے ناظرین کو سادہ اور بے عقل سمجھتا ہے، حالانکہ بعض اوقات ناظر فلم ساز سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے اور فلم ساز کا اسے احمق سمجھنا اپنے آپ کی توہین سمجھتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ فلم ایران کی جنگی فلموں میں سے ایک غیر معمولی فلم ہے جس میں کوئی لڑائی اور کشمکش نہیں ہے اور اس میں بیانیات کی منطق میں بہت خامیاں ہیں۔ فلم کا کوئی ہیرو نہیں ہے، فلم میں دشمن کے وجود کا احساس نہیں ہوتا ہے اور فلم ہر قسم کے معنی اور مفہوم سے عاری ہے جو مقدس دفاع سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس فلم کے پروڈیوسر کا کہنا ہے کہ جنگ اور مقدس دفاع کے حوالے سے اس کا خصوصی اور طنزیہ نقطہ نظر دلچسپ ہے۔ میرے خیال میں یہ فلم سینما جنگ کے میدان میں ایک منفرد کام ہے۔ [3]

نقادوں کے نزدیک فلم ساز نے اس فلم میں لر لوگوں کی حد سے زیادہ سادگی، خلوص اور سچائی کو اپنا موضوع بنایا ہے تاکہ محاذ کی ایک طنزیہ داستان پیش کی جا سکے، لیکن یہ فلم کرداروں کو حقیقت کے قریب نہیں لا سکی اور وہ مصنوعی ہو گئے ہیں۔ حالانکہ طنزیہ فلم کو حقیقت پر منطبق ہونا چاہیے، لیکن اس فلم میں جنگ ایک پر شور اور ہنگامہ خیز فضا میں بدل گئی ہے جہاں پاگل کرداروں کے مبالغہ آمیز رویے ہیں، گویا جبهہ میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے۔ پوری فلم میں سب ایک دوسرے پر چلاتے ہیں، یہ سب اس لیے ہے کہ ناظرین کو ہنسایا جا سکے، لیکن اس ہنسی کی کوئی قدر نہیں ہے۔ [4]

 

[1] سالنامه آماری فروش فیلم سال 2007، تهران، 2017، ص ۸

[2] بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران، فیلم‌شناسی سینمای ایران 2004ـ 2011، تهران، قطره، 2014، ص ۵۶

[3] بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران، فیلم‌شناسی سینمای ایران 2004ـ 2011، تهران، قطره، 2014، ص ۵۶

[4] ماهنامه نقد سینما، ش ۴۶، فروری اور مارچ  2005  ، ص ۲۶-۲۹