اشخاص

علیرضا موحد دانش

محمد ہادی فاضلی
19 Views

علی رضا موحد دانش عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کےبریگیڈ10کے کمانڈر تھے۔

علی رضا موحد دانش خاندان کے پہلے فرد تھے اور 18 ستمبر 1958 کو تہران میں پیدا ہوے۔ ان کے والد حاجی غلام حسین ڈیفنس انڈسٹریز میں ملازم تھے[1]۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم نوبخت کے اسلامی اسکول میں مکمل کی[2]۔ہنرستان سے بجلی کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد  1976 میں تبریز یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لے لیا، لیکن ساواک کی جانب سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں حساسیت اور نگرانی کی وجہ سے ان  کو اپنی تعلیم چھوڑنا پڑا  اور 1977 میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔دسمبر 1978 میں امام خمینی رح نے بیرکوں میں موجود فوجیوں کے فرار پر مبنی ایک بیانیہ دیا جس کے بعد  علی رضا موحد دانش بھی بیرک سے بھاگ کر انقلابیوں میں شامل ہو گئے۔ موحد دانش ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے جمشیدیہ چھاونی  پر قبضہ کرنے اور جنرل ناصری کو 1 فروری 1979 کو فرار ہونے سے روکنے میں کردار ادا کیا[3]۔

موحد دانش ،1 فروری 1979 کو  امام خمینی رح کی واپسی کے حوالے سے "استقبالیہ کمیٹی" کے انتطامی کمیٹی  کے رکن تھے۔ انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد، ابتدائی طور پر وہ "شمیران" کی انقلاب اسلامی کمیٹی میں بھرتی ہوئے اور اپریل 1979 میں  سپاہ پاسداران کے رکن بن گئے۔  امام خمینی رح کے گھر کی حفاظت کی تین ماہ تک خدمات انجام دینے کے بعد، موحد دانش  نے تہران میں  چھاونی  امام حسین علیہ السلام کے پہلے تربیتی کورس میں شرکت کی[4]۔ اس کے بعد تہران میں ولی عصر  فرجہ الشریف چھاونی میں شہداء بٹالین کی کمان سنبھالی اور 1979 کے موسم خزاں میں ان کو بازرگان سرحد کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا[5]۔ تہران واپس آنے کے بعد، وہ کچھ عرصہ کے لیے ایون جیل میں گارڈ رہے ۔پھر جلد ہی انھیں صدارتی محل کی حفاظت کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔ اپریل 1980 کے اواخر میں ضدانقلابی سرگرمیوں میں شدت کے وقت، وہ ایک کمپنی کمانڈر کے طور پر کردستان گئے اور کئی شہری اور مضافاتی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ سنندج کو کلیئر کرنے کے بعد، وہ تہران واپس آےاور بٹالین کمانڈر کے عہدے پر فائز ہونے کے علاوہ، ان کو خلیجی چھاؤنی (پاسداران انقلاب کا مرکزی ہیڈکوارٹر)، اسلامی مشاورتی اسمبلی، اور کچھ عرصے کے لیے کئی دیگر عہدوں کا انچارج ان کو دیا گیا۔ عراق پر سرکاری حملے سے پہلے اپنے آخری مشن میں، موحد دانش کو اگست 1980 میں مریوان بھیجا گیا اور اسی سال ستمبر میں تہران واپس آئے[6]۔ جون 1982 میں، انہوں نے شہید سیروس مولائی کی ہمشیرہ محترمہ ام سلمہ مولائی سے شادی کی جس کا خطبہ نکاح امام خمینی  رح نے پڑھا۔[7] ان کی اکلوتی اولاد ایک بیٹی ہے جس کا نام فاطمہ ہے، جو تہران کے شہید مصطفی خمینی ہسپتال میں اپنے والد کی شہادت کے تقریباً نو ماہ بعد پیدا ہوئی تھی۔[8]

جب جنگ شروع ہوئی تو علی رضا موحد دانش اپنی کمان میں بٹالین کے ساتھ سر پل ذہاب کے لیے روانہ ہوئے[9]ے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اپنے کمانڈر کے حکم پر تہران واپس آئے لیکن خرمشہر کے محاصرے کی خبر سن کر خوزستان روانہ ہو گئے[10]۔ خرمشہر کے سقوط کے بعد، وہ تہران واپس آئےاور تہران میں ولی عصر  عج بٹالین کے مجموعی انتظامات کا ذمہ داری سنبھال لی، یہاں تک کہ وہ  بٹالین9 کے ساتھ دوبارہ سر پل ذہاب کے لیے روانہ ہوئے جس کی کمان محسن وزوای نے کی۔ آبنائے کورک کے آپریشنل علاقے کا کامیابی سے دوبارہ جائزہ لینے کے بعد، انہوں نے 4 اپریل 1981کو اس آپریشن کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس کے فوراً بعد، انہوں نے "بازی دراز" کی بلندیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے محسن وزاوی اور غلام علی پیچک کے ساتھ دشمن کے محاذ کے اندرجا کر بیس روزہ جاسوسی مشن کی قیادت کی۔ آخر کار، مئی 1981 میں، انہوں  نے وزوائی کے متبادل کے طور پر آپریشن "بازی دراز" کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں حصہ لیا، کیونکہ ایک صوتی دستی بم دھماکے میں محسن وزوائی کا دایاں ہاتھ کٹ گیا[11]۔ اسی آپریشن کے تیسرے مرحلے کے دوران ستمبر 1981 میں انہوں نے عمرہ کی سعادت حاصل کی[12]۔

11 دسمبر 1981 کو موحد دانش نے آپریشن مطلع الفجر میں حصہ لیا اور سر پل ذہاب کے علاقے "برآفتاب" میں تقریباً تین سو گولیوں سے زخمی ہوئے[13]۔ آپریشن فتح المبین کے موقع پر، اس نے  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بریگیڈ27 میں شمولیت اختیار کی اور جاسوسی کے کئی مراحل کی قیادت کرنے کے بعد انہیں آپریشنل کمانڈر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ آخر کار 22 مارچ 1982 کو وہ حبیب بن مظہر بٹالین کے کمانڈر بنے اور اس آپریشن میں حصہ لیا[14]۔ وہ بیت المقدس آپریشن کے چار مرحلوں کی شناخت اور منصوبہ بندی کرنے والے عوامل میں سے ایک تھے اور مئی اور جون 1982 میں آپریشن کے اس سلسلے میں سرگرم عمل تھے اور پہلے مرحلے کے بعد وہ ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے ۔ [15] اسی آپریشن کے پہلے مرحلے میں ان کے بھائی محمد رضا بھی شہید ہو گئے تھے۔

بیت المقدس آپریشن کے بعد اور جون 1982 میں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے سپریم ڈیفنس کونسل کے فیصلے کے بعد، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بریگیڈ27 کی افواج کی ایک بٹالین کے کمانڈر کے طور پر لبنان روانہ ہوئے۔[16] کچھ ہی عرصے بعد رمضان آپریشن میں شرکت کے مقصد سے بٹالین کی ذمہ داری اپنے جانشین سلمان ترکی کو سونپ کر ایران واپس آگئے۔

رمضان آپریشن کے بعد سید الشہداء علیہ السلام  بریگیڈ 10 کی تشکیل کے ساتھ، علیرضا موحد دانش کو ستمبر 1982 میں اس بریگیڈ کے کمانڈر کے طور پر متعارف کرایا گیا اور وہ اپنے پہلے مشن میں آپریشن مسلم بن عقیل کی منصوبہ بندی میں شامل  ہوئے۔[17]انہوں نے اس آپریشن کے بعد آپریشن کے طریقہ کار پر اختلاف کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینے کے بعد، وہ سابق فوجیوں کے ہیڈکوارٹر کی نگرانی میں تجربہ کار افواج میں شامل ہو گئے اور اکبر نوجوان(ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر) کے حکم سے سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ میں ایک آزاد سپاہی کے طور پر واپس آئے۔ فروری 1983 میں انہوں نے ابتدائی آپریشن والفجر میں حصہ لیا۔ اپریل 1983 میں، انہوں نے زہیر بٹالین کے ساتھ آپریشن والفجر 1 میں حصہ لیا اور اب تیسری بار سر میں زخم آئے[18]۔ محاذوں پر اپنی آخری پیشی میں، انہوں نے سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ10 کے کمانڈر کے طور پر علی اصغر بٹالین کے ساتھ آپریشن والفجر 2 میں حصہ لیا۔[19]

 4 اگست 1983 کو "حاج عمران" کے علاقے میں آپریشن والفجر 2 کے دوران مارٹر گولے سے علیرضا موحد دانش   کی ٹانگ  زخمی ہوئی اور زیادہ خون بہہ جانے سے جام شہادت نوش کر گئے[20]۔ ان کی شہادت کے وقت ان کا جسد خاکی واپس نہیں لایاگیا اور تقریباً ایک ہفتہ تک ریت کے نیچے مخفی رہا۔یہاں تک کہ تحقیقات کے جب ان کا جسد خاکی ملا  تو 13 اگست 1983  کو تہران کے  بہشت زہرا قبرستان میں حصہ نمبر 24، ردیف نمبر 73، قبرنمبر 20 میں دفن کیا گیا[21]۔ تہران کے محلہ اقداسیہ  میں ایک سڑک کا نام "شہید موحد دانش برادران" کے نام پر رکھا گیا ہے۔[22] پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف نے 4 دسمبر 2019 کو نیشنل کانگریس کے موقع پر ایک تقریب میں شہید علی رضا موحد دانش کو میجر جنرل کے عہدے سے نوازا۔ 1[23]

شہید علی رضا موحد دانش کے بارے میں لکھی گئی تین کتابوں "من،علی و جنگ"، "موحد"، اور"یک آسمان ھیاھو" کے علاوہ، تین کتابوں "اسطورہ ھا"[24]، "ھمپای صاعقہ"[25]، اور "بی کرانہ ھا"[26] میں بھی مختصراً ان کی زندگی کی عکاسی  کی گئی ہے۔ دستاویزی فلمیں "زیوران خلقت" جس کی ڈائریکٹنگ 1993میں حامد حسینی  نے کی تھی، تہران نیٹ ورک ڈاکیومینٹری گروپ 2002کی طرف سے تیار کردہ "ساکنان حرم ملکوت" اور علی حمید (2010) کی ہدایات میں بننے والی دستاویزی سیریز "فرماندھان" کی قسط 24 میں شہید موحد دانش کی شخصیت کی کچھ عکاسی کی گئی ہے۔ دو الگ الگ وصیتوں کے علاوہ اب تک ایک ویڈیو انٹرویو اور ان کی تقریروں کی دو آڈیو فائلیں شائع ہو چکی ہیں۔[27]

 

 

[1]  فرهنگ اعلام شهدای تهران بزرگ، ج3، تهران: نشر شاهد، 2018، ص2010.

[2] اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، تهران: شاهد، 2001، ص95.

[3]  ماهنامه فرهنگی هنری سرو، سال ششم، ش53، اگست 2023، ص76

[4]  اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، ص95 و 96

[5] علوی‌زاده، سهیلا، من و علی و جنگ، تهران: سازمان جغرافیایی نیروهای مسلح، 2003، ص3 و 4.

[6] سابق، ص28-10.

[7] دفاع پرس، ش35653، 4 اگست 2019؛ پیام آشنا، ش1669،16 اگست 2019، ص8؛ عامری، محمد، موحد، تهران: تقدیر، 2014، ص81.

[8] سابق، ص116

[9] علوی‌زاده، سهیلا، من و علی و جنگ، ص29.

[10] سابق ، ص35.

[11] سابق ، ص83-58.

[12] سابق ، ص108-103.

[13] سابق ، ص110 و 111.

[14] اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، ص97.

[15] علوی‌زاده، سهیلا، من و علی و جنگ، ص138-122.

[16] بابایی، گلعلی، بهزاد، حسین، همپای صاعقه، تهران: سوره مهر، چ چهارم، 2008، ص815

[17] . علوی‌زاده، سهیلا، من و علی و جنگ، ص141 و 142؛ عامری، محمد، موحد، ص88 و 89.

[18] سابق ، ص 145-144؛ ه سابق ، ص96-91.

[19] سابق ، 162و163؛ سابق ، ص102 و 103.

[20] . کاوندی، عین‌الله، بی‌کرانه‌ها، زندگینامه سرداران شهید سپاه استان تهران‌، تهران: کنگره بزرگداشت سرداران شهید سپاه و 36هزار شهید استان تهران، 1997، ص371

[21]  اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، ص105.

[22] Iraniju.ir/aqdasiye-tehran

[23]  باشگاه خبرنگاران جوان، ش۷۱۶۰۳۲۹، 4 دسمبر 2019

[24]  اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، ص106

[25] بابایی، گلعلی، بهزاد، حسین، همپای صاعقه، ص808 و 819.

[26] کاوندی، عین‌الله، بی‌کرانه‌ها

[27] مخدومی، رحیم، یک آسمان هیاهو: براساس زندگی شهید علیرضا موحد دانش، تهران: سوره مهر، 2006.