اشخاص
عباس دوران
میلاد شکلو
16 Views
عباس دوران (1950-1982) اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے مشہور پائلٹوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ایران کے خلاف عراقی جنگ کے ابتدائی سالوں میں متعدد فضائی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ان میں سے بعض کی کمانڈ کرتے ہوئے اپنے وطن کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔
عباس دوراں 12 اکتوبر 1940 کو شیراز میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیراز کے سلطانی ہائی سکول میں داخل ہوئے۔ 1969 میں نیچرل سائنسز میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ ایئر فورس میں بھرتی ہوئے اور ایئر ٹریننگ سینٹر کمانڈ میں ابتدائی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد 1970 میں پائلٹ یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ایران میں اپنا ابتدائی فلائٹ کورس مکمل کرنے کے بعد انہیں 1972 میں تکمیلی پائلٹ کورس کے لیے امریکہ بھیج دیا گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے ٹیکساس میں لیک لینڈ ایئر فورس بیس میں انگریزی کا سپلیمنٹری کورس کیا اور پھر مسیسیپی میں کولمبس ایئر فورس بیس میں بونانزا –ٹی41 اور ٹی-47 طیاروں پر پرواز کی مہارت حاصل کی۔ 1973 میں پائلٹ بیج حاصل کرنے کے بعد، ایران واپس آئےاور تہران میں پہلے فائٹر بیس اور پھر ہمدان میں تیسرے فائٹر بیس پر F-4 فینٹم پائلٹ کے طور پر ڈیوٹی سنبھال لی۔ 13 جولائی 1979 کو عباس دوران نے نرگس خاتون دلیر روی فرد سے شادی کی، جس پر اللہ نے ان کو ایک بیٹا عطا کیا جس کا نام امیر رضا رکھا۔ امیر رضا اپنے والد کی شہادت کے وقت صرف آٹھ مہینے کا تھا۔
عباس دوراں مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی بوشہر میں چھٹے فائٹر بیس میں منتقل ہو گئے[1]۔ اس وقت، صرف وہ اور آرمی ایئر فورس کے ایک اور پائلٹ، علی رضا یاسینی، خلیج فارس کے علاقے میں ہونے والی لڑائیوں میں فضا سے زمین پر مار کرنے والے ریڈار میزائلوں کو فائر کرنے کے قابل تھے، جس پر عراقی بحریہ نے ایرانی جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے پر انعام مقرر کیا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب عراقی بحریہ کی بقیہ افواج کو عباس دوران اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے دقیق فضائی مروارید آپریشن کے ساتھ 27 اور 28 نومبر 1980 کوخلیج فارس کے گہرے پانیوں میں بھیج دیا گیا۔[2]
جنگ کے بالکل ابتدائی گھنٹوں میں، عباس دوران نے الامیہ اور البکر کی لنگرگاہوں کے قریب عراقی بحریہ کی دو جنگی کشتیوں کو تباہ کر دیا۔ عباس دوران اور ان کے ساتھی اس آپریشن کے اختتام تک اس انداز میں مسلسل پرواز کرتے رہے کہ عباس دوراں ہر لینڈنگ کے بعد اپنے لڑاکا طیارے سے نکلتے اور دوسرے طیارے میں بیٹھ جاتے جو پہلے سے تیار ہوتا، اور یوں آپریشن کاتسلسل باقی رہا[3]۔
جنگ شروع ہوئے ابھی کچھ ہی مہینے گزرے تھے کہ صدام نے بی بی سی کے ایک رپورٹر کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعلان کیا: "ہم نے اپنے دوست اور حامی ممالک کی مدد سے حال ہی میں اپنے شہروں اور اقتصادی وسائل بشمول پاور پلانٹس کے گرد ایسا مضبوط فضائی دفاعی قلعہ بنایا ہے کہ اگر کوئی ایرانی پائلٹ کامیابی سے ان پاور پلانٹس کے دفاعی حلقوں کے پچاس میل کے دائرے تک پہنچنے کی ہمت کر لے تو میں اسے اپنی ایک سال کی تنخواہ دینے کو تیار ہوں"۔ اس انٹرویو کے چند گھنٹے بعد عباس دوران نے پائلٹ یاسینی کے ساتھ مل کر بصرہ پاور پلانٹ کو اس طرح تباہ کیا کہ جنوبی عراق تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس آپریشن کے بعد صدام کے انٹرویو لینے والے نے فوری طور پر بین الاقوامی سطح پر بصرہ پاور پلانٹ کی تباہی کی خبر نشر کر دی[4]۔
1981 کے موسم بہار میں، شیراز کے سیاسی اور فوجی حکام نے اس پائلٹ کی بہادری اور شجاعت پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شہر کے ایک بلوار (شہر کی داخلی دو طرفہ سڑک) کا نام، عباس دوران کے نام پر رکھا۔ یہ بلوار شیراز شہر کی ایئر فورس چھاونی کے سامنے واقع ہے[5]۔
آپریشن فتح المبین (22 مارچ 1982) سے پہلے عراقی فوج نے بڑے پیمانے پر نقل و حرکات کا سلسلہ جاری رکھا اور جنگی ساز و سامان کو جنوبی محاذوں پر منتقل کرنے لگے۔ اسی وجہ سے ضروری معلومات حاصل کرنے اور فلائٹ پلان تیار کرنے کے بعد طے یہ پایا کہ ایک بڑے فضائی حملے کے ذریعے عراقی فوج کی پشت پناہی کرنے والے مسلح دستوں اور جنگی سامان کو فضایئ حملے سے تباہ کیا جائے ۔ 20 مارچ 1982 کو، عباس دوران کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے پندرہ پائلٹوں کے ساتھ فلائٹ اسکواڈرن کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا گیا تاکہ اس کارروائی کے نتیجے میں 30 اپریل 1982 کو "خرم شہر" کی آزادی کے لیے ہونے والے آپریشن کے کامیابی کی راہ مزید ہموار کی جا سکے[6] اور پھر ایسا ہی ہوا۔
ایران کے ساتھ جنگ سے پہلے صدام نے 1982 کے موسم گرما میں "ہوانا" میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا حق پہلے سے حاصل کر لیا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بغداد میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کو منسوخ کرنے کی، کافی عرصے تک کوشش کی۔ لیکن جب یہ مقصد سفارتی حربوں سے حاصل نہ ہوسکا تو صوبہ بغداد میں عدم تحفظ پیدا کرنے اور بد امنی ایجاد کرنے والا فارمولا، اسلامی جمہور ایران کے فوجی سیاسی ایجنڈے میں شامل کیا گیا ۔ آخرکار طے یہ پایا کہ جنوب مشرقی بغداد میں الدورہ آیل ریفائنری پر حملہ کرکے ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کے انعقادکو روکا جائے، اور پھر اس فیصلے کو حتمی شکل دے کر یہ مشن ایئر فورس کو سونپ دیا گیا ۔ اس مشن کو انجام دینے کے لیے فضائیہ کے چھ نامور پائلٹوں کا انتخاب کیا گیا، جن کی قیادت عباس دوران کر رہے تھے، مذکورہ پایلٹوں کے لئے تین فینٹم طیارے منتخب ہوئے۔ عباس دوران نے، معاون پائلٹ منصور کاظمیان اور چار دیگر پائلٹوں کے ساتھ 21 جولائی 1982 کو بغداد میں الدورہ ریفائنری کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیک آف کیا۔ اس کارروائی میں عباس دوران کے فلائٹ گروپ کے دو دیگر طیاروں کو عراقی ریڈار سے بچنے کے لیے کم اونچائی پر پرواز کرنے کا حکم دیا گیا لیکن عراقی ریڈاروں نے ایرانی طیاروں کے فلائٹ گروپ کو دیکھ لیا اور ان پر فائرنگ کی۔ اسی اثنا میں عباس دوران کا طیارہ الدورہ ریفائنری کو نشانہ بنانے اور بغداد کے اوپر سے ساؤنڈ بیریئر توڑنے کے بعد واپسی پر عراقی میزائلوں کا نشانہ بن گیا۔ منصور کاظمیان نے عباس دوران سے ہنگامی چھلانگ لگانے کے لیے کہا، لیکن عباسن دوران نے خود کودنے کی بجائےپچھلے کیبن کا ایمرجنسی ایگزٹ بٹن دبا دیا اور کاظمیان کو پیراشوٹ کے ذریعے کود جانے کا حکم دیا، حکم کی اطاعت کرتے ہوئے منصور کاظمیان طیارے سے کود گئے۔ اب عباس نے جہاز کا رخ الرشید ہوٹل کی جانب کر دیا جہاں سربراہی اجلاس کا انعقاد ہونا تھا، عباس کو اس آپریشن کا مقصد بخوبی یاد تھا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنا طیارہ مذکورہ ہوٹل پر گرا دیا جس سے عمارت کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا اور خود شہید ہو گئے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں بغداد میں بد امنی اور عدم تحفظ کی وجہ سے ناوابستہ ممالک کے سربراہوں کا اجلاس بالآخر منسوخ ہو گیا، اور سربراہی اجلاس کے سیکرٹریٹ نے اجلاس کو بغداد سے نئی دہلی منتقل کر دیا[7]۔
اس واقعے کے بیس سال بعد عباس دوران کا باقی ماندہ پیکر خاکی 20 جولائی 2002 کو ایران واپس لایا گیا اور 21 جولائی کو شیراز شہر کے قبرستان گلزار شہداء دفن کیا گیا[8]۔
جنگ کے پہلے دو سالوں کے دوران عباس دوران نے 120 سے زائد مرتبہ پرواز کی اور بیرونی سرحدوں پر آپریشنز کیے جس کی مثال فضائیہ کے ماہرین کے مطابق، حتی ویتنام کی سات سالہ جنگ میں بھی نہیں ملتی[9] ۔
عباس دوران تنہا ایسے شہید ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے نام پر ایک سڑک کا نام رکھا[10]۔ 1997 میں عباس دوران پر "خلبان" (کراسنگ دی ریڈ لائن) نامی فلم بنائی گئی، جس کی ہدایت کاری جمال شورجہ نے کی۔ اس فلم کو "زیتون سنیما کلچرل انسٹیٹیوٹ"نے پروڈیوس کیا تھا اور اسکرین پلے سید علی رضا سجاد پور نے تحریر کیا[11]۔
[1] بابک، محمد، زندگینامه سرلشکر خلبان عباس دوران (فاتح آسمان بغداد)، تهران: آتشبار، 2016، ص22ـ18؛ مشتاق، زهرا، دوران به روایت همسر شهید، تهران: روایت فتح، 2004، ص9.
[2] کیا، بیژن، پلاکهای آسمانی، شیراز: زرینه، 2010، ص24.
[3] ذوالفقاری، علی، آشنایی با زندگینامه شهید عباس دوران، تهران: مکعب، 2013، ص5.
[4] کیا، بیژن، پلاکهای آسمانی، ص40ـ34.
[5] شاهد یاران، ش96 و 97، اکتوبر و نومبر 2013، ص8.
[6] ذوالفقاری، علی، آشنایی با زندگینامه شهید عباس دوران، ص7.
[7] بابک، محمد، زندگینامه سرلشکر خلبان عباس دوران (فاتح آسمان بغداد)، ص40ـ9؛ لطفاللهزادگان، علیرضا، روزشمار جنگ ایران و عراق. کتاب بیستم: عبور از مرز، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2002، ص338 و 339؛ کریمی، نبیالله، تقویم تاریخ دفاع مقدس، ج23: رمضان در رمضان، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2013، ص951.
[8] پرهیزگار، علیاکبر، یادگار عقاب: نگاهی به زندگی شهید عباس دوران، تهران: شاهد، 2011، ص8.
[9] کیا، بیژن، پلاکهای آسمانی، ص11.
[10] شاهد یاران، ص8.
[11] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلمهای جنگ و دفاع ایران، تهران: ساقی، 2013. ص123.