آثار

بوئے پیرہن یوسف

زینب احمدی
2 Views

فلم "بوی پیراهن یوسف" سن 1995 میں ابراہیم حاتمی‌کیا نے بنائی، جس کا موضوع ایک ایسا سپاہی ہے جو جنگ کے محاذ پر لاپتہ ہو جاتا ہے اور اس کے اہلِ خانہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

ہدایتکار اور اسکرپٹ نویس ابراہیم حاتمی‌کیا، پہلے معاون ہدایتکار آتیلا پسیانی، دوسرے معاون ہدایتکار مجید موحد، اسکرپٹ مشیر داریوش مؤدبیان، تصویربرداری کے مدیر عزیز ساعتی، معاون تصویربردار ابراہیم غفوری، تصویربرداری ٹیم حسین کریمی، حسین امیری اور هوشنگ غفوری، آواز ریکارڈ کرنے والے محمود سماک‌باشی، خصوصی اثرات کے ماہر بهروز روزبهانی، تدوین کار حسین زند‌باف، موسیقی مجید انتظامی، منظر کے مدیر حسین منصور‌فلاح، فوٹوگرافر حافظ احمدی، منصوبے کے مجری حمید مدرسی، پیداوار کے مدیر اور پروڈیوسر مجید مدرسی اور اداکاران علی نصیریان، نیکی کریمی، نوبر قنبریان، مهران تاجیک، جعفر دهقان، لوریک میناسیان، گلنار طهماسب، قاسم زارع، ساحره متین، حسن شیرازی، شیرین بینا، عزیز‌الله هنرآموز، عیسی صفایی، صالح میرزا‌آقایی، اکبر شاپوری، آتوسا قریشی اور دیگر ہیں۔

یہ ۹۶ منٹ کی فلم فارابی سینما فاؤنڈیشن کی پیشکش ہے، جو 10 جولائی 1996 کو آزادی، قدس، سروش، سپیده، تهران، حافظ اور دیگر سینما گھروں میں عوامی نمائش کے لیے پیش کی گئی جس نے ۴۸۰,۳۵۹,۷۰۰ ریال کا کاروبار کیا[1]۔ یہ فلم فجر فلم فیسٹیول کے چودھویں دور میں تین شعبوں میں ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی؛ حمیدرضا تاج‌دوستی بہترین معاون اداکار، محمود سماک‌باشی بہترین آواز ریکارڈنگ، اور عزیز ساعتی بہترین تصویربرداری کے لیے نامزد ہوئے[2]۔ یہ فلم دفاع مقدس فلمی میلے کے چھٹے دور میں بہترین اداکار کے لیے اعزازی سند اور طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یوسف (حمیدرضا تاج‌دولتی)، جو غفور  ماموں(علی نصیریان) کا بیٹا اور ایئر پورٹ پر ٹیکسی ڈرائیور ہے، جنگ میں شہید ہو چکا ہے اور اس کی لاش مچھلیوں کا شکار بن گئی، لیکن غفور بضد ہے کہ یوسف زندہ ہے اور ایک دن ضرور واپس آئے گا۔ وہ شیرین (نیکی کریمی) سے ملاقات کرتا ہے، جو قیدیوں کی آزادی کی خبر سن کر پیرس سے اپنے بھائی خسرو سے ملاقات کے لیے واپس آئی ہے۔ اصغر (جعفر دهقان)،  غفور کا بھائی اور یوسف کا ہمرزم، قیدیوں کی آزادی کی خبر سن کر جرمنی میں اپنا علاج ادھورا چھوڑ کر ایران واپس آتا ہے۔ ایک آزاد شدہ قیدی (قاسم زارع) شیرین سے ملاقات کے بعد خسرو کی خیریت کی خبر دیتا ہے، لیکن بعد میں غفور کو اطلاع دیتا ہے کہ خسرو کو قید میں ایک احتجاج کے دوران شہید کر دیا گیا۔ غفور یہ خبر شیرین سے چھپا لیتا ہے، اور اصغر خسرو کی تصویر لے کر آزاد شدہ قیدیوں سے ملاقات کے لیے "قصر شیرین" بارڈر کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ شیرین آہستہ آہستہ اپنے بھائی کی واپسی سے مایوس ہو جاتی ہے اور غفور کی تسلیوں پر اعتراض کرتی ہے کہ وہ اسے بھی اپنی طرح واپسی کے خواب میں قید کرنا چاہتا ہے۔ شیرین اس حالت میں فرانس واپس جانے کا فیصلہ کرتی ہے، لیکن اصغر دایی غفور کو اطلاع دیتا ہے کہ خسرو کے بارے میں معلومات ملی ہیں اور وہ جلد دیگر اسیران کے ساتھ واپس آئے گا۔  غفور یہ خبر شیرین کو ہوائی اڈے پر دیتا ہے اور دونوں رات کو "قصر شیرین" روانہ ہوتے ہیں۔ شیرین اسیران میں اپنے بھائی کو تلاش کرتے ہوئے یوسف کو پہچان لیتی ہے[3]۔

حاتمی‌کیا نے کہا: "سال 1986 میں میرے بہترین دوستوں میں سے ایک، اسکندر یکه‌تاز، جو روایت فتح کے تصویربردار تھے، شہید ہو گئے۔ ان کے والد، جو ریلوے سٹیشن پر ٹیکسی چلاتے تھے، شہادت کے بعد ایئر پورٹ  پر منتقل ہو گئے۔ اس تبدیلی نے انہیں ایک نئے اور مختلف ثقافتی ماحول سے روبرو کیا۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میرے ذہن میں ایک بات آئی؛ اس وقت میں نے اس موضوع پر کچھ نوٹس لکھے۔ یہی تحقیق اور نوٹس فلم 'بوی پیراهن یوسف' کے بنیادی خاکے کی بنیاد بنے۔"[4] انہوں نے مزید کہا: "انتظار، جو اس فلم کا مرکزی احساس ہے، ان سالوں میں میرے لیے ایک اہم مسئلہ بن گیا تھا اور مجھے اس پر بات کرنی تھی؛ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ یہ مفہوم زیادہ واضح انداز میں بیان ہو، جو نہیں ہو سکا۔" کچھ لوگوں کے خیال میں یہ فلم جنگ مخالف ہے اور جنگ کو خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب دکھاتی ہے، اور اس میں محاذ پر بہادری اور قربانی کی حقیقت کی کوئی جھلک نہیں ملتی[5]۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہدایتکار اس فلم میں دفاع مقدس کی سینما میں "انتظار" کے مفہوم کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس مضمون کو پہلے سے مختلف زاویے سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور فلم کی تصویری تشکیل میں تمام مناظر، سوائے آخری منظر کے، رات کے وقت فلمائے گئے ہیں (رات لاعلمی اور گمشدگی کی علامت ہے، جو آخرکار وصال کی روشنی میں بدلتی ہے)۔ فلم میں  غفور، شیرین کے برعکس، زیادہ توکل اور یقین رکھتا ہے اور تمام تاریکیوں اور مایوسیوں کے باوجود اپنے بیٹے کی واپسی پر یقین رکھتا ہے۔ وہی ہے جو آخرکار اس انتظار کا صلہ پاتا ہے، جبکہ شیرین توکل اور انتظار کے مفہوم سے ناآشنا ہے، ایک خیالی اور بچگانہ دنیا میں رہتی ہے، اور بھائی کی پہلی بری خبر سن کر مایوس ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ان دونوں کرداروں کا تضاد اور انتظار کے مفہوم کی تفہیم، ایمان، توکل اور قلبی شناخت پر زور، فلم کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہدایتکار کی فنی اور تکنیکی مہارت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے منتخب کردہ سینما کے میڈیم اور فنکارانہ قالب کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ فلم، اگرچہ اس کا ردھم سست ہے اور واقعات کی تعداد کم ہے،لیکن تاہم اپنے داستانی قالب کو آخر تک برقرار رکھتی ہے۔

کہا گیا ہے کہ اس فلم کی تصویربرداری بہت عمدہ ہے اور اسے ایرانی سینما کی تاریخ کی بہترین تصویربرداریوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ تصویربردار نے رات کے مختلف مناظر میں روشنی کا منطقی اور درست استعمال کیا ہے، جس نے فلم کو ایک لطیف اور خوبصورت احساس بخشا ہے اور رات کے ماحول کو بخوبی مجسم کیا ہے[6]۔

 

 

[1] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران 1990 2016، ص ۸.

[2] https://www.manzoom.ir/.

[3] - بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران- فیلم‌شناسی سینمای ایران (1993-1994)، تهران، قطره، ۱۳۹۰، ص ۷۶ و۷۷.

[4] ماهنامه سروش، ش ۷۹۸، 10 اگست 1996، ص ۳۴-۴۰

[5] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلم‌های جنگ و دفاع ایران 2012-1980، تهران، ساقی، 2013، ص ۶۹ و ۷۰.

[6] ماهنامه سروش، ش ۷۹۸،10 اگست 1996، ص ۳۴-۳۶.