مفاہیم اور اصطلاحات

گمجن

محسن شیر محمد
43 Views

گمجن یعنی "گروہ جنگی مشترک جنگ ہائے نا منظم"(گوریلا جنگوں کے لئے تشکیل پانے والے جنگی گروپس)، در اصل یہ وہ قبائلی لوگ تھے جو مسلط شدہ آٹھ سالہ جنگ میں دشمن سے نمٹنے کے لئے پہلے ٹریننگ لیتے پھر وطن کے دفاع کے لئے نکل جاتے۔

یہ گروپ جنگ کے ابتدائی زمانے میں ہی تشکیل پا گیا تھا اور جنگ کے پہلے ہفتے میں جنگی معاملات کی (مشترکہ کمیٹی) شورا نے فیصلہ کیا کہ ملک کے مغرب میں آباد قبائل کو تیار اور مسلح کیا جائے۔ آغاز میں جب عراق نے وسیع پیمانے پر حملہ کیا تھا تو اس وقت یہ شورا ہی فوج کی اعلی کمان سے ہم آہنگی کرتی تھی اور ساتھ نظارت اور کلی ہدایات دینے کا فریضہ بھی انجام دیتی تھی تو اس لئے ملک کے مغرب میں بسنے والے رضاکار قبائل، "سماجا" (ستاد مشترک ارتش جمهوری اسلامی ایران یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج کی مشترکہ کمیٹی ) سے ہٹ کر دیگر معاملات کو دیکھتے تھے۔

ان رضاکار قبائل کے لئے جناب کریم سنجانی سے مدد لی گئی جو خود بھی سنجانی قبائل میں سے تھے اور عبوری حکومت کے وزیر امور خارجہ تھے۔

29ستمبر 1980 کو ملک کے مغرب میں بسنے والے قبائلی رضاکاروں کے ادارے نے پیدل فوجی دستے، میجر محمود رستمی کی کمانڈ میں "ستون اعزامی سماجا" کے عنوان سے ملک کے مغربی علاقے میں روانہ کئے جن میں سات افسر، بیس رینک آفیسرز، تین کلرک اور ستائیس سپاہی شامل تھے جنہوں کرمانشاہ کے علاقے "ماہی دشت" میں پڑاو ڈالا اور ساتھ ہی "قبائلی رضاکار" کے عنوان کے ساتھ علاقے کے قبائل کی جنگی تربیت بھی کی اور انہیں مسلح بھی کیا اور 6280 برنو نامی بندوقیں اور 270 ایم1 گنیں جو 9 نومبر تک سنجابی، گوران، کلھر، عثمانوند، ولد بیگی، جلالوند، زردلان سر فیروزآباد کے باشندوں کے سربراہوں میں تقسیم کی گئیں اور اس کے علاوہ بیس ہزار افراد نے"گمجن" میں اپنا نام لکھوایا۔

مسلح کرنے کے بعد ان قبائلی جنگی دستوں کی تشکیل کے لئے ہر دستے کو اس کے سربراہ کا نام ہی دیا گیا جیسے افسر سنجابی، افسر کلھر، افسر قلخان وغیرہ۔ ہر افسر کے ماتحت دو بٹالین تھیں اور ہر بٹالین میں چار سو افراد تھے۔

فوج کے مشترک سربراہی ادارے نے "گمجن" کی تمام تر ضروریات جیسے گاڑیاں، وایرلس سسٹم اور دیگر لوازمات فراہم کرنے کی ذمہ داری لی۔

ملک کے ان مغربی قبائل کو مسلح کرنے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ آٹھ سالہ جنگ کے آغاز میں نفسیاتی اور تبلیغاتی طور پر سرگرمیاں برقرار رہیں اور ملکی میڈیا نے ان تربیت یافتہ قبائلی دستوں کی مغربی گیلان اور سر پل "ذہاب" کے محاذ جنگ کی جانب روانگی کو نشر کیا۔ البتہ اس خبر کا عنوان یہ تھا: ملک کے مغربی قبائل میں سے تیس ہزار افراد کی تیاری اور روانگی، اور انہی قبائل کے دو لاکھ افراد کی محاذ کی طرف روانگی"۔

قبائلی گمجن جب اسلحہ اور دیگر لوازمات سے لیس ہو گئے تو انہوں نے کرمانشاہ، مغربی اسلام آباد (ایران کا ایک شہر)، قلاجہ، سرچلہ، نسلر بلالر کے بالائی علاقے اور درے، اور اسی طرح قازانچی، کوزان، باینگان، میر آباد، بزمیرآباد، اور دشت ذہاب کے علاقوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری لے لی۔

گمجن کا سب سے پہلا مشن 6 اکتوبر 1980 کو گیلان کے مغربی علاقے میں دشمن کا سامنا کرنا تھا۔

مسلط شدہ جنگ کے آغاز میں گمجن نے صوبہ کرمانشاہ میں سر پل ذہاب سے اسلام آباد تک دہ سرخ، ملہ کبود، پالان، بز میر آباد، امن کے قیام اور دشمن کو بھگانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

3 جنوری1981 کو "تنگ حاجیان" کے علاقے میں دشمن پر حملہ گمجن کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح علاقہ "بازی دراز" کی بلندیوں میں تین مراحل میں یعنی6 دسمبر 1980، 22 اپریل 1981 اور 2ستمبر 1981 کو حملہ کیا گیا۔ نیز 6 جولائی 1981 کو دشت ذہاب میں "گاری" کی چوٹیوں کو فتح کیا گیا۔ اورگمجن کے مزید اقدامات میں سے "شیاکو" میں 11 دسمبر 1981 کا "مطلع الفجر" نامی آپریشن بھی اسی اہمیت کا حامل  تھا۔

آپریشن "مسلم ابن عقیل" 1 اکتوبر 1982 کو "سومار" میں کیا گیا جس میں مسلح افواج اور سپاہ پاسداران نے شرکت کی اور اس آپریشن کے نتیجے میں ڈیڑھ سو مربع کلو میٹر کا ایریا آزاد کروایا گیا جس میں سومار علاقے کے "کھنہ ریگ" اور "گیسکہ" کی چوٹیوں کے علاوہ دیگر مقبوضہ علاقے آزاد ہوئے۔

28 جون 1983 سے 27 دسمبر 1986 تک گمجن نے "نفت شہر_ سومار کے محاذ پر حملے انجام دیے۔ سومار میں جب گمجن نے قیام کیا تو 31 دسمبر 1986 کو دشمن نے یہاں کیمیکل بم گرائے جس کے نتیجے میں چار سو لوگ زخمی ہوئے۔ ان حملوں اور زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی اور اسی موقع میں گمجن کے سربراہ کی بینائی بھی عارضی طور پر چلی گئی۔ انسان تو انسان، یہاں سامان لے جانے والے خچروں پر بھی رحم نہ کیا گیا۔

اعلی دفاعی کمیٹی نے ایک مسودہ تیار کیا جس کے نتیجے میں 1 اپریل 1985 کو ملک کے مغربی قبائل کی سرپرستی بڑی فوج کے حوالے کیا گیا۔

جب آٹھ سالہ جنگ شروع ہوئی تو عوامی سطح پر بھرتیاں، ترسیل، ٹریننگ اور کھپت قانون کے مطابق سپاہ پاسداران کے ذمہ تھی۔ اسی اساس پر 4 اپریل 1987کو "خاتم الانبیاء" چھاؤنی کی سربراہی میں یہ ذمہ داری سپاہ پاسداران کو سونپی گئی اور اس یونٹ نے "نفت شہر" اور "سومار" کے علاقے میں 25 کلومیٹر طویل محاذ جنگ پر ڈیوٹی کی اور دفاعی نظام سنبھالا۔ اور یوں گمجن کی فعالیت اپنے اختتام کو پہنچی۔

دفاع مقدس کے دوران ملک کے مغربی قبائل میں سے 13 ہزار کے قریب افراد، جن میں سے اکثر نے رضاکارانہ طور پر شمولیت اختیار کی تھی، مسلسل ایک ماہ سے 80 ماہ تک جنگی علاقوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔

اس آٹھ سالہ جنگ میں گمجن فورس کے 1200 افراد قیدی، شہید اور زخمی ہوئے۔ 1980 کے دوسرے نصف میں گمجن قبائل کے شہدا اور سپاہی سرپل ذہاب، بازی دراز کی بلندیوں، سنبلہ اور مغربی گیلان، تنگ حاجیان، دار بلوط اور بانسیران کے علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے جو مختلف حملوں میں شہید یا زخمی ہوئے۔  اس فورس کے پہلے شہید علی مراد الماسی تھے جو کلھر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور 4 جنوری 1981 کو تنگ حاجیان میں شہید ہوئے۔ گمجن کے شہید اور معذور افراد صرف قبائلی نہیں تھے بلکہ ان کو باقاعدہ طور پر گمجن کی طرف سے مشن سونپے جاتے اور یہ فوج میں بھی تھے اور عام شہری بھی۔

میجر محمود رستمی 29 ستمبر 1980 سے 28 اکتوبر 1981 تک، لیفٹیننٹ کرنل نور الدین طباطبایی 28 اکتوبر 1981 سے 27 دسمبر 1981 تک، میجر محمد شھسواریان 27 دسمبر 1981 سے 11 دسمبر 1982 تک، کرنل محمود رستمی دوبارہ 11 دسمبر 1982 سے 1 اپریل 1985 تک، کرنل عبد اللہ مھر پویا 1 اپریل 1981 سے 22 دسمبر 1984 تک اور میجر احمد اسدی 22 دسمبر 1984 سے 4 اپریل 1987 تک گمجن قبائل کی سربراہی کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔