گروہ، ادارے، آرگنائزیشنز

انقلاب اسلامی کمیٹی

محسن شیر محمد
20 Views

انقلابِ اسلامی کمیٹی ان اولین اداروں میں سے ایک ہے جو انقلاب  اسلامی ایران کی کامیابی کے فوراً بعد بنائی گئی ، اور عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں بھی اس کا نمایاں کردار رہا۔

11 فروری 1979ء کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، وہ کمیٹیاں جو اپنی مدد آپ کے تحت اور غیر رسمی طور پر علما کی نگرانی میں مساجد میں تشکیل پا چکی تھیں تو  امام خمینیؒ نے  آیت اللہ محمد رضا مهدوی کنی  کو  12 فروری 1979کو ان تمام کمیٹیوں کا سربراہ مقرر کیا  جس کے فورا بعد آیت اللہ مہدوی کنی نے ان کوباقاعدہ طور پر سرکاریسرکاری حیثیت دے دی۔[1]یہ ادارہ سماجی برائیوں، منشیات، عمومی جگہوں  پر برائیوں  اور ضد انقلاب عناصر کے خلاف جدوجہد کرتا تھا اور سرکاری مقامات اور ملکی شخصیات کی حفاظت بھی اس کے ذمے تھی۔[2]

عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگِ کے آغاز کے ساتھ ہی، انقلابِ اسلامی کمیٹی کے حکام نے یہ بندوبست کیا کہ کمیٹی کے محافظین دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جنگی محاذوں پر بھی ڈیوٹی دے سکیں۔[3]کمیٹیٔ تہران کے محافظین کی بڑے پیمانے پر پہلی روانگی 15 اکتوبر 1980ء کو "بٹالین امام موسیٰ بن جعفرؑ" کے تحت انجام پائی، اور یہ بٹالین خرمشہر اور آبادان کے محاذوں کی جانب روانہ ہوئی۔[4] ان سپاہیوں نے پہلے مرحلے میں خرمشہر میں جنگ لڑی، اور بعد ازاں آبادان کی اسٹیشن نمبر 7 کے سامنے کی دفاعی لائن ان کے حوالے کر دی گئی۔ اس محاذ سے متعلق تمام امور—عراقی افواج کے ٹھکانوں پر فائرنگ، دشمن کی صفوں میں نفوذ کے راستوں کی شناسائی، مورچوں اور ٹیلوں کی تعمیر—کمیٹی کے پاسداران انجام دیتے تھے۔ ان فورسز نے دشمن کے نومبر 1980ءمیں "کوی ذوالفقاری"آبادان پر حملے کو روکنے میں حصہ لیا۔[5]  انقلابِ اسلامی کمیٹیٔ  کی افواج، 27ستمبر 1981ءکو "آپریشن ثامن‌الائمه" (محاصرۂ آبادان کا خاتمہ) میں بھی اسی علاقے میں موجود تھیں۔[6]

1983ء کے اوائل تک کمیٹی کے محافظ مغربی اور جنوبی علاقوں میں زیادہ تر غیر منظم انداز میں، اور زیادہ سے زیادہ ایک  بٹالین" بٹالین امام موسیٰ بن جعفرؑ" کی صورت میں دیگر افواج کے ساتھ مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اس سال تک کمیٹی کے اعزامی اہلکار محاذ پر موجود بٹالینز اور ڈویژنزکے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے، یا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ساتھ محاذ میں مامور خدمت کے طور پر شریک ہوتے تھے۔  1983ء تک کمیٹیٔ انقلابِ اسلامی کے تقریباً 14 ہزار اہلکار، ایک ماہ کی تربیت کے بعد محاذوں پر بھیجے گئے۔[7]

جنگی محاذ پر جانے کے لیے کمیٹی اہلکاروں کی پرجوش درخواستوں اور رضاکارانہ شرکت کے لیے منظم ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باعث، کمیٹی کے اُس وقت کے کمانڈر نے ایک جنگی بریگیڈ کی تشکیل اور تنظیم کا حکم دیا۔ یہ بریگیڈ    17مئی 1983ءکو سب ڈویژن کی فوجی چھاؤنی میں تشکیل دی گئی اور اسے 4 بٹالین میں منظم کیا گیا۔اس کا نام "بریگیڈ امام موسیٰ بن جعفرؑ" رکھا گیا، اور سپاہ پاسداران کی کمان کے تحت مغربی ایران کے محاذ پر بھیجا گیا۔[8]

خزاں 1983ء میں، انقلابِ اسلامی کی کمیٹیٔ "بریگیڈ امام موسیٰ بن جعفرؑ" لشکر 25 "حمزہ سید الشہداء"، "مسلم بن عقیل"، "صاحب‌الزمانؑ" اور "محمد رسول‌اللهﷺ" کے خط‌شکن بٹالین کے ہمراہ "آپریشن والفجر-4" میں شریک ہوئی۔ یہ کارروائی 19 اکتوبر 1983ء کو مریوان و پنجوین کے شمال میں واقع درۂ شیلر میں، مرکزی کیمپ "حمزہ سید الشہداء" کی قیادت میں انجام دی گئی، جس کا مقصد ضد انقلاب کے عراق سے رابطے کاٹنا، علاقے کی اہم بلندیوں کو آزاد کرانا، پنجوین و گرمک عراق کے چھاؤنیوں پر قبضہ کرنا اور مریوان کو دشمن کی دید اور فائر سے محفوظ بنانا تھا۔[9]اس آپریشن کے نتیجے میں 300 مربع کلومیٹر مقبوضہ علاقہ آزاد اور 700 مربع کلومیٹر عراقی سرزمین پر قبضہ کیا گیا۔[10]

1985ء میں محاذوں پر مزید افواج کی ضرورت کے پیش نظر، کمیٹی کے اہلکاروں پر مشتمل ایک اور بریگیڈ "بریگیڈ قوامین" کے نام سےیکم مارچ 1986ء کو تشکیل دی گئی، جو جزیرہ مجنون اور فاو میں سپاہ پاسداران کے تحت تعینات ہوئی۔ اس بریگیڈ نے شہر فاو کے ایک محاذ پر دو بٹالین کی صورت میں دفاعی ذمہ داری سنبھالی۔ "بریگیڈ قوامین" نے 24 دسمبر 1986ء کو "آپریشن کربلا-4"[11] اور 9 جنوری 1987ءکو "آپریشن کربلا-5" میں بھی سپاہ پاسداران کے تحت شرکت کی۔[12]

کربلا-۵ آپریشن کے بعد، جب محاذ پر اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو "بریگیڈقوامین" کی ذمہ داریاں ایک بریگیڈ کی حد سے بڑھ گئیں۔ چنانچہ21 جنوری 1987ء کو "بریگیڈ امام موسیٰ بن جعفرؑ" اور "بریگیڈ قوامین" کو ضم کر کے "لشکر روح‌الله" کی بنیاد رکھی گئی۔[13]اس عرصے میں، " روح‌الله آرمی" کی دو بٹالین فاو کے دفاعی محاذ پر اور دیگر دو بٹالین عراق کے جنوبی علاقے میں بصرہ کے سامنے واقع عراقی پیٹروکیمیکل کمپلیکس کے مقابل، دفاعی مورچوں پر تعینات رہیں۔ 16 مئی 1987ء سے یہ آرمی "جزیرہ اُم‌الطویل"، "جزیرہ ماهی (فیاض)" اور جزیرہ "بوارین" کے ایک حصے—جو شلمچہ کے جنوب میں اروندرود کے اندر واقع عراقی جزائر ہیں—کی دفاعی ذمہ داری سنبھال چکا تھا۔[14]

1987ءمیں انقلاب اسلامی کمیٹیٔ کے رضاکاروں پر مشتمل  " بٹالین کربلا" کو، گوریلا  آپریشن کے لیے عراق کی سرزمین میں بھیجا گیا۔ انہیں ضروری فوجی تربیت کے بعد مریوان  میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی  کی  "رمضان بیس" بھیجا گیا۔ ان کا مشن تھا کہ دیگر مجاہدین کے ہمراہ دشمن کے فوجی اجتماع کے مقامات اور اسلحہ جات کے مراکز کو پہچانیں اور ان پر حملے کریں۔ ان کارروائیوں میں نمایاں مثال "فتح-۷" آپریشن تھا، جو مکمل کامیابی کے ساتھ انجام پایا۔[15]

انقلاب اسلامی کمیٹی کی جنگ میں شمولیت، ان آپریشنز تک محدود نہیں رہی؛ "بیت‌المقدس-4" 26 مارچ 1988 کو "دربندیخان" عراق میں، "بیت‌المقدس-6" 17مئی 1988ءکو سلیمانیہ عراق میں، "بیت‌المقدس-7" 13جون 1988 کو شلمچہ کے علاقے میں، اور "مرصاد" 27 جولائی 1988 کو مغربی ایران میں، وہ دیگر معرکے ہیں جن میں اس کمیٹی نے شرکت کی۔[16]

محاذ جنگ کے علاوہ، انقلاب اسلامی کمیٹیٔ کے اہلکاروں نے، پولیس ہیڈکوارٹرز، کونسٹیبلری اور بسیجی فورس کے ہمراہ، ان شہروں میں بھی اہم فرائض انجام دیے جو دشمن کے بمباری کا نشانہ بنتے تھے؛ مثلاً شہروں میں نظم و ضبط قائم رکھنا، شہریوں کے انخلا کے راستوں کی حفاظت، عوامی املاک کا تحفظ، خالی گھروں کی نگرانی، زخمیوں کی امداد اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا۔[17]

آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران، انقلاب اسلامی کمیٹیٔ  کے 50 ہزار سے زائد اہلکاروں میں سے 1030 شہید ہوئے، 760 لاپتہ ہوئے، 4469 زخمی ہوئے اور 143 افراد دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔[18]

دفاع مقدس کے بعد، 20 جون 1990ءکو مجلس شورای اسلامی کے ذریعے منظور کردہ قانون کے تحت، کمیٹیٔ انقلاب اسلامی،کونسٹیبلری اور پولیس ہیڈکوارٹرز کو ضم کر کے[19] نیا ادارہ "نیروی انتظامی"  یعنی پولیس فورس تشکیل دیا گیا، جس نے پہلی  اپریل 1991ء کو اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔[20]

انقلاب اسلامی کمیٹیٔ کی کمان، اس کے قیام یعنی 1978ءسے لے کر سال 1982ء تک آیت اللہ محمدرضا مهدوی کنی کے پاس رہی، 1982 سے 1984 تک حجت الاسلام علی فلاحیان، 1984 سے 1986 تک حجت الاسلام احمد سالک، 1986 سے 1990 تک سید سراج‌الدین موسوی اور آخر میں 1990 سے 1991ء تک مختار کلانتری اس کے سربراہ رہے۔

فورسز کے انضمام کے بعد، "روح‌الله آرمی" کو اس کی تمام آٹھ جنگی بٹالینز، توپخانه، جنگی سازوسامان اور تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ تہران منتقل کیا گیا، جہاں اسے "اسپیشل پاسداران فورس" کے قالب میں منظم کیاگیا، اور اس نے پولیس فورس کے نئے ادارے کے تحت اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ 1991–1992ء کے دوران، اس فورس نے مشرقی ایران میں تین بریگیڈ پر مشتمل کئی فوجی کارروائیاں انجام دیں۔ برسوں  کے بعد  پولیس فورس کی تنظیمی ضروریات کے مطابق، اس لشکر کی باقیات سے انسدادِ شورش یونٹس تشکیل دی گئیں، جو آج بھی اپنی محولہ ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔[21]

 

 

[1] هاشمی، سیدعلی و مهدی رنجبر، آذربایجان، تاریخ شفاهی کمیته‌های انقلاب اسلامی، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی،2009، ص 33.

[2] رنجبر، سیف‌الله، نیروهای انتظامی و جنگ، تهران، انتشارات اسلامی، 2008، ص 121و122و123.

[3] سابق، ص 147.

[4] سابق، 147 و 148.

[5]  سابق، ص 148 و 149.

[6]  سابق، ص 152 و 153.

[7]  سابق ، ص 154.

[8] سابق ، ص 155.

[9] سابق ، ص 157.

[10] جعفری، مجتبی، اطلس نبردهای ماندگار، تهران، سوره سبز، چ سی‌وپنجم، 9389، ص 94.

[11] رنجبر، سیف‌الله، همان، ص 160.

[12] سابق ، ص 162.

[13] سابق ، ص 163 و 164.

[14] سابق ، ص 164.

[15] سابق ، ص 157.

[16] سابق ، ص 167، 168 و 171.

[17] سابق ، ص 149 و 150.

[18] سابق ، ص 175.

[19] هاشمی، سیدعلی و مهدی رنجبر، همان، ص 185 و 186.

[20] رنجبر، سیف‌الله، همان، ص 14.

[21] رنجبر، سیف‌الله، همان، ص 169.