آثار

پرواز در شب

زینب احمدی
2 Views

فلم "پرواز در شب" سن 1364 ہجری شمسی میں رسول ملاقلی پور نے بنائی۔ اس کا موضوع ایرانی فوجی دستے کا وہ محاصرہ ہے جس میں انہیں عراقی فوج نے گھیر لیا تھا۔

اس فلم کے ہدایت کار اور منظر نویس رسول ملاقلی پور، معاون ہدایت کار اور منظر ڈیزائنر جمال شورجه، تصویر بردار رضا رضی، معاونین تصویر برداری منوچهر فرزانه، کیومرث محمودی اور مجید دهقان نیری، خاص اثرات رضا رستگار اور مرتضی رستگار، سین سکریٹری کاظم شهبازی، نگران راویان علی کسمائی، صدا اور میکس علی خانزادی، تدوین کار صمد تواضعی، پس منظر کی موسیقی محمدرضا علیقلی، گریم ڈیزائنر فرهنگ معیری، پروڈکشن مینیجر محسن علی اکبری تھے۔ اداکاروں میں فرج اللہ سلحشور، علی یعقوب زاده، تاج بخش فنائیان، جعفر دهقان، مصطفی لاجوردی، کامران نوروز، علی اکبر نیک رو، علی رضا حائری، سید جواد ہاشمی، ہادی جلیلی، حسین نامی، رستم حمیدی اور دوسرے شامل تھے۔

115 منٹ کی یہ فلم مرکز گسترش سینمای تجربی و نیمه حرفه ای، وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی کی پیشکش ہے اور 19 مارچ 1987 کو سینما صحرا، ایران، آستارا، جمہوری، ستارہ، میلاد، جام جم وغیرہ میں دکھائی گئی اور اس نے 2,293,020 ریال کی کمائی کی۔[1]

کمیل بٹالین کے ایرانی مجاہدین ، عراقی فوج کے محاصرے میں آ گئے اور ان کا اپنے مرکزی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ دستے کے چار مجاہدین کو مدد کی درخواست لے کر اپنے ہیڈ کوارٹر پہنچنے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے جن میں سے تین شہید ہو جاتے ہیں اور ایک ہیڈ کوارٹر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ دستے کے کمانڈر (فرج اللہ سلحشور) زخمی فوجیوں کے لیے پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے دشمن کے سپاہیوں کے محاصرے کو توڑتے ہیں لیکن خود شہید ہو جاتے ہیں۔ کمک پہنچ جاتی ہے اور "کمیل بٹالین " کے دستے دشمن کا مقابلہ کرنے کے بعد بچ جاتے ہیں۔[2]

فلم "پرواز در شب" پانچویں فلم فیسٹیول فجر میں بہترین موسیقی اور بہترین فلم نامہ کے لیے نامزد ہوئی اور بالآخر اس نے 2 انعامات جیتے؛ رسول ملاقلی پور نے بہترین فلم کا انعام جیتا اور علی رستگار نے بہترین خاص اثرات (اسپیشل ایفیکٹس) کا انعام جیتا۔[3]

ماہرین کے مطابق آسانی سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ تحمیلی جنگ شروع ہونے کے 80 ماہ گزرنے کے بعد یہ واحد فلم ہے جو جنگ کی ایک واضح، خوبصورت اور بناوٹی جذبات سے پاک تصویر پیش کرتی ہے۔ فلم میں مبالغہ نہیں ہے، اداکاروں کے درمیان غیر ضروری مکالمے نہیں ہوتے، اور فلم میں ضمنی امور پر توجہ نے اصل مسائل کو نظر انداز نہیں ہونے دیا یا ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فلم زندہ ہے؛ اس معنی میں کہ ناظرین  کا آسانی سے اداکاروں کے ساتھ دلی تعلق پیدا ہو جاتا ہے، ان کے ہنسنے پرخوش ہیں اور ان کے رونے پر اداس ہوتے ہیں۔ فلم کے مرکزی کرداروں کی قربانی اور ایثار مصنوعی نہیں ہے اور ناظر کے لیے امام حسین (ع) کے ساتھیوں کی قربانی کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ فلم کا ماحول پرخلوص اور حقیقت کے بہت قریب ہے اور ایران کے محاذ جنگ کی عکاسی کرتا ہے۔

رسول ملاقلی پور نے دو فیچر فلمیں "بلمی به سوی ساحل" اور "نینوا" کے تجربے اور نیز محاذ جنگ کے ماحول اور مجاہدین کی نفسیات سے واقفیت کے بعد، اپنی فلم کے تصور کو بخوبی پیش کیا ہے۔ فلم کا مواد قربانی، ایثار، مزاحمت، صبر اور دیگر اسلامی اقدارسے لبریز ہے۔ اداکاروں کی کارکردگی، خاص طور پر فرج اللہ سلحشور (مہدی نریمان) کی اداکاری، حقیقی اور اچھی رہی ہے نیز فلم کی تصویر برداری اور خاص اثرات بھی ماہرانہ ہیں۔ فلم کی موسیقی بھی شاندار ہے۔[4]

دیگر نقادوں نے بھی اس فلم کے بارے میں کہا ہے کہ اس فلم کو دوسری دفاع مقدس فلموں سے ممتاز کرنے والی چیز محاذ جنگ کے واقعات کے ساتھ فلم ساز کا برتاؤ ہے۔ فلم میں  دوسری تجارتی فلموں کی مانند بڑھا چڑھا کر پیش  کرنا اورنعروں  کی بھر مار نہیں ہےاور مجموعی طور پر اپنے اجزا کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر فلم، عاشورا جیسے مذہبی واقعات سے مشابہت رکھتی ہے تو اس کی وجہ ان دو واقعات میں مقاصد اوراہداف کی یگانگی ہے۔ ملاقلی پور کی اس بات کی سمجھ نے اس فلم کو اپنی ہم پلہ فلموں کے مقابلے میں ممتاز کر دیا ہے۔ اس فلم میں ایک مجاہد جب شہادت پاتا ہے تو وہ ایک نور دیکھتا ہے جبکہ دوسرے اسے لائٹ بم (روشنی دینے والا بم) سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ابھی اس مجاہد کی کمال کی منزل تک نہیں پہنچے ہیں کہ اس کی طرح شہادت کا نور دیکھ سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ فلم کا آخری حصہ بہترین حصوں میں سے ایک ہے؛ کمیل بٹالین کے کمانڈر اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے حضرت ابوالفضل (ع) سے الہام لیتے ہوئے دشمن کی فوج پر حملہ کرتے ہیں تاکہ اپنے دستے کے لیے پانی کا بندوبست کر سکیں۔ نریمان عاشورا کے دن کے شہسواروں کی طرح رجز پڑھتا ہے اور دشمن کی فوج پر حملہ کرتا ہے۔ موسیقی میں بھی حضرت ابوالفضل (ع) کے مرثیے کے ریتم کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔ جب نریمان شہید ہو جاتا ہے تو امانت کی ذمہ داری نئی نسل کے کندھوں پر آ پڑتی ہے تاکہ وہ یہ سفر جاری رکھیں اور مرتضی کا سر بند (پٹی) کا منتقل ہونا اس ذمہ داری کی منتقلی کی علامت ہے۔ البتہ فلم میں کبھی کبھار تفصیلات میں کچھ خامیاں ہیں جو اس کی کامیابیوں کے حجم کے پیش نظر قابل معافی ہیں۔[5]

نقادوں کا کہنا ہے کہ فلم "پرواز در شب" جنگ کے حوالے سے ایک ناقابل انکار ضرورت ہے اور اس طرح کی فلمیں بننی چاہئیں تاکہ جنگ کی حقیقت کو پیش کیا جا سکے۔

البتہ بعض نقادوں کے مطابق اس فلم میں ملاقلی پور کی ایک خامی یہ رہی ہے کہ تصور کو منتقل کرنے اور ناظر پر زیادہ اثر ڈالنے کے لیے تکنیکی اصولوں کے استعمال میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ فلم میں ڈرامائی انداز میں جلدی بازی اور عجلت ہے اور یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ لوگ کیوں لڑ رہے ہیں اور کن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس فلم کو وہی لوگ صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں جو فلم کے واقعات کے فیصلے سے پہلے اپنے دل سے مدد لیں، کیوں؟ کیونکہ فلم کا موضوع دل ہے۔ مثال کے طور پر وہ جگہ جہاں مہدی نریمان دل و جان سے قربانی دیتے ہیں اور اپنے دستے کے لیے قربانی کا فیصلہ کرتے ہیں، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جس نے معشوق سے ملاقات اور دیدار کے معنی سمجھ رکھے ہوں۔ وہ اپنی شان و حماسہ کے عروج پر، اپنی جان قربان کرتا ہے تاکہ ایک بسیجی کی شہادت اور ایمان کی جھلک پیش کر سکے۔ ان لمحات میں ناظر تک جو معنی منتقل ہوتا ہے وہ ایک نیا جنم ہے۔ فلم کا ایک ابہام جس پر نقادوں نے سوال اٹھایا ہے فلم کے مقامات کا غیر واضح یا نا معلوم ہونا ہے جس کے جواب میں رسول ملاقلی پور نے کہا: "موجودہ حالات میں جب کہ ہم ابھی تک تحمیلی جنگ میں مصروف ہیں ہمیں ملکی قوانین کی پیروی کرنی چاہیے۔ اسی لیے ہم نے فلم میں ہونے والی کارروائی کے مقام اور نام کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ نیز اگر فلم میں مقامات کی بصری ارتباط (ربط) میں کمزوری ہے تو اس کی وجہ جنگ اور تصادم کے مناظر کو دوبارہ بنانے کے لیے مناسب سہولیات کا نہ ہونا تھا اور ہم  انہی بنیادی لوازمات اور سامان کے ساتھ اور دن رات کی محنت سے اس فلم کو اس شکل میں لا سکے جیسے فیسٹیول میں دکھائی گئی..."[6]

 

[1] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران سال 1993، خزاں2017، ص10

[2] بهارلو، عباس، فیلمشناخت ایران (فیلم شناسی سینمای ایران 1980-1993)، تهران، قطره، 2004، ص 109 و 110

[3] https://www.manzoom.ir/

[4] مجله اطلاعات هفتگی، ش 2335، 29 اپریل 1987، ص 68 و 69

[5]  ماهنامه فیلم، ش 49، سال پنجم، اپریل 1987، ص 68

[6] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران 1358-1369، تهران، روزنه، 2003، ص 478 و 479