اشخاص
آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی
لیلا آزادی
23 Views
آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی پہلوی حکومت کے خلاف سرگرم مزاحم افراد میں سے وہ فرد تھے جو انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے عبوری وزیر اعظم اور مجلس خبرگان رهبری کے سربراہ رہے۔
محمد رضا مہدوی کنی 5 اگست 1931 کو تہران کے نواحی گاؤں "کن" میں پیدا ہوئے[1]۔ ان کے والد، الحاج اسد اللہ، ایک کسان تھے اور زراعت کے ساتھ تجارت بھی کرتے تھے۔ ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ ان کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں[2]۔ انہوں نے اپنی پرائمری تعلیم 1938[3]میں شروع کی جسے تیرہ سال کی عمر میں "کن" [4]گاؤں میں ہی مکمل کیا،اور اس کے بعد اس نے مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ 1945 میں، آپ نے سپاہ سالار اسکول (شہید مطہری ہائی اسکول) میں اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، مگر پندرہ دن کے بعد، ماحول پسند نہ آنے کی وجہ سے مدرسہ لرزادہ تشریف لے گئے[5]۔ وہاں تین سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1948 میں آپ نے حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا، پہلے مدرسہ فیضیہ اور پھر حجتیہ مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی اور تیرہ سال تک آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی، امام خمینی اور علامہ طباطبائی سے کسب فیض کیا[6]۔نوروز 1949 میں ایام فاطمیه میں اصفہان کے مضافات میں "اردستان" نامی علاقے میں تبلیغی پر تشریف لے گئے۔ بہائیوں کے زیادہ اثر رسوخ کی وجہ سے اس جگہ کے نمائندے نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو یہ دورہ منسوخ کرنے کا حکم دے دیا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور پہلی بار گرفتار ہو کر کے قم واپس بھیج دیے گئے[7]۔
مہدوی کنی نے اپنی تعلیم کے علاوہ قم میں منطق، اصول، مکاسب اور ملا ہادی سبزواری کی کتاب "شرح منظومہ" پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔[8] انہوں نے اپنی پہلی سیاسی سرگرمی اٹھارہ سال کی عمر میں اور "فدائيان اسلام" گروپ کی حمایت میں شروع کی۔ اگرچہ وہ "فدائیان اسلام" کے رکن نہیں تھے لیکن ان کے بعض اجتماعات میں شرکت کرتے تھے اور ان کا لٹریچر پڑھا کرتے تھے[9]۔ 1959 میں آپ نے آیت اللہ سرخہ ائی کی بیٹی سے شادی کی جس پر اللہ نے ایک بیٹا محمد سعید اور دو بیٹیاں، مہدیہ اور مریم سے نوازا[10]۔
1961 میں مہدوی کنی درجہ اجتہاد پر پہنچ گئے اور قم میں 13 سال قیام کے بعد اپنے والد کے اصرار پر تہران واپس لوٹ گئے اور مدرسہ مروی میں پڑھانا شروع کر دیا۔[11] آیت اللہ سرخہ ای کی تجویز اور تہران کے ایرانشہر روڈ پر نئی قائم ہونے والی "جلیلی" مسجد کے ٹرسٹی حضرات کی دعوت پر 1341 کے ماہ مبارک رمضان سے مسجد میں امامت کے فرائض سنبھال لیے۔[12] جلیلی مسجد 5جون 1963 کے واقعے کے بعد سے پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کے سیاسی مراکز میں سے ایک تھی، اور ان سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں چار مرتبہ گرفتار کیا گیا اور منبر پر جانے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔[13]انہیں آخری بار 1975میں گرفتار کیا گیا اور "بوکان" میں تین سال کی جلاوطنی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن دو ماہ بعد انہیں تہران اور مشترکہ انسداد تخریب کمیٹی میں منتقل کر دیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ساواک کی دستاویزات میں انہیں حکومت کے مخالف اور امام خمینی کے سخت حامی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد انہوں کو اوین جیل منتقل کر دیا گیا اور چار سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن دو سال بعد رہا کر دیا گیا[14]۔
1977میں جیل سے رہائی کے بعد، آپ نے اور کچھ دیگر علماء نے ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا جس کا موضوع تھا: "تہران کے مزاحمتی علما کی تحریک"۔[15]آیت اللہ مہدوی کنی انقلابی کونسل کے اصلی اراکین میں سے ایک تھے جو 1357 میں پہلوی حکومت کی طاقت اور اقتدار کو اسلامی جمہوریہ کو منتقل کرنے کے لیے سرگرم تھے اور امام خمینی کی استقبالیہ کمیٹی کے رکن تھے[16]۔
اسلامی انقلاب کی فتح اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد، وہ عبوری حکومت کے اجلاسوں میں بطور ناظر شرکت کرتے تھے، لیکن چونکہ وہ حکومت کے رکن نہیں تھے، اس لیے انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا[17]۔ اسلامی انقلاب کی کمیٹیوں کی تشکیل کے ساتھ، 1 مارچ 1979 کو امام خمینی کے فرمان پر ان کو چیئرمین کمیٹی مقرر کیا گیا اور 8 اگست 1982 تک اسی عہدے پر باقی رہے۔[18] اسلامی انقلاب کی عارضی حکومت میں، وہ وزیر داخلہ کے مشیر اور وزارت عدلیہ میں انقلابی کونسل کے نمائندے تھے۔[19]مارچ1980 میں ان کو امام خمینی نے قانون اساسی کی شورائے نگہبان کے رکن کے طور پر منتخب کیا لیکن حجت الاسلام اکبر ہاشمی رفسنجانی کے وزارت داخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دینے اور شوارئے اسلامی کے پارلیمانی انتخابات میں شریک ہونے کی وجہ سے ان کو وزیر مملکت بنا دیا گیا جس پر انہوں نے شورائے نگہبان کی رکنیت سے استعفا دینا پڑا۔ آقائے مہدوی کنی شہید رجائی اور شہدد با ہنر کی حکومتوں میں وزیر داخلہ بھی رہے۔[20]
صدر ابوالحسن بنی صدر کے ساتھ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تنازعات کے دوران، قانون کی مبینہ خلاف ورزی کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی پینل مقرر کیا گیا اور امام خمینی نے ایک فرمان کے ذریعے آیت اللہ مہدوی کنی کو اس پینل میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔[21]
30 اگست 1981 کو وزارت عظمی کے دفتر میں ہونے والے دھماکے میں آقائے رجائی اور آقائے با ہنر کی شہادت کے بعد، انہیں 1 ستمبر 1981کو عارضی صدارتی کونسل کے ذریعے اسلامی مشاورتی اسمبلی میں وزیر اعظم کے طور پر متعارف کرایا گیا، اور 2 ستمبر 1981 کو ایک عوامی اجلاس میں اراکین اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔[22] آیت اللہ مہدوی کنی کی حکومت کا سب سے اہم کام تیسرے صدارتی انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل کے لیے میدان تیار کرنا تھا۔[23] آپ نے صدارتی انتخابات کے تیسرے دورے حصہ لیا اور اپنے منصوبے بتانے کے بجائے انتخابی انٹرویوز میں صدارت کی اہمیت پر بات کی اور انتخابات سے ایک دن پہلے آیت اللہ خامنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے اور لوگوں کو آیت اللہ خامنہ ای کو ووٹ دینے کا مشورہ دیا۔[24] انتخابات اور آیت اللہ خامنہ ای کے صدر منتخب ہونے کے بعد، آیت اللہ مہدوی کنی نے معینہ مدت سے پہلے اپنا اور کابینہ کا استعفا آیت اللہ خامنہ ای کو پیش کر دیا تاکہ صدر محترم اپنی کابینہ کو بہتر طریقے سے منتخب کر سکیں۔[25] اس کے بعد آیت اللہ مہدوی کنی نے کویی انتظامی عہدہ نہیں لیا[26]۔
1981 میں آیت اللہ مہدوی کنی سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب اور ثقافتی انقلاب کے ہیڈکوارٹر کے رکن تھے، اور فلاحی تنظیم کے اخراجات میں سہم امام علیہ السلام کے نگران تھے، اور قومی فلاحی کونسل کے رکن تھے[27]۔
آیت اللہ مہدوی کنی کی سب سے اہم ثقافتی سرگرمی امام صادق (ع) یونیورسٹی کا قیام تھا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی علوم اور رایج انسانی علوم کی ایک مشترکہ شکل تعلیم دی جائے اور اسلامی اور سائنسی علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جائیں۔ مروی مدرسہ کا احیاء اور اس کا انتظام 17 ستمبر 1984 کو امام خمینی (رح) کے فرمان کے ذریعے ان کے سپرد کیا گیا تھا۔[28] 1989 میں، وہ آئینی نظرثانی کونسل کے رکن بن گئے اور 1995میں تحریک علمائے مزاحم کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔[29] مجلس خبرگان رهبری کے ضمنی انتخابات میں، صوبہ تہران سے قیادت کے لیے آپ کا انتخاب ہوا اور17 مارچ 2011 میں اسی اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔[30]
انقلاب کے بعد کئی سالوں بعد تک آیت اللہ مہدوی کنی نے امام جمعہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔[31] آیت اللہ مہدوی کنی کی آخری تقریر15 میی 2014 کوقم میں سپریم لیڈر کی مجلس ماہرین کے سابق چیئرمین مرحوم آیت اللہ علی مشکینی کی یاد میں منعقدہ کانفرنس میں تھی۔
آیت اللہ مہدوی کنی کو 4 جون 2014 کو امام خمینی (رہ) کی برسی کی تقریب میں شرکت کے بعد دل کا دورہ پڑا اور وہ کوما میں چلے گئے اور بالآخر21 اکتوبر 2014کو 83 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ نماز جنازہ 23 اکتوبر 2014 بروز جمعرات مقام معظم رهبری نے تہران یونیورسٹی میں پڑھائی اور وصیت کے مطابق آیت اللہ مہدوی کنی کو ان کی حضرت عبدالعظیم حسنی کے حرم میں آیت اللہ ملا علی کنی کی قبر کے پاس دفن کیا گیا[32]۔
عملی اخلاقیات میں ابتدائی نکات، قرآن میں اسلامی اقتصادیات کے اصول و قوانین، بیس گفتگوئیں اور دعاے افتتاح کی شرح اسلامی علوم کے میدان میں آیت اللہ مہدوی کنی کی علمی فعالیت کا ثبوت ہیں۔ کتاب "خاطرات آیت اللہ مہدوی کنی" کو 2006 میں اسلامی انقلاب کے دستاویزی مرکز نے شائع کیا تھا[33]۔
[1] راعی گلوجہ، سجاد، دولتھای شہید رجائی، شہید باہنر و آیت اللہ مہدوی کنی، تہران، اسلامی انقلاب دستاویزی مرکز، 2008، صفحہ۔ 311.
[2] خواجہ سروری، غلام رضا، خاطرات آیت اللہ مہدوی کنی، تہران، اسلامی انقلاب دستاویزی مرکز، 2006، صفحہ 25 اور 26
[3] دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3، تہران، سورہ مہر، 2015، ص۔ 374
[4] راعی گلوجہ، سجاد، سابق، ص. 311
[5] قیصری، مہدی، یار امام، یاور رہبر (آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی کی زندگی اور جدوجہد)، تہران، ثقافتی اور فنی ادارہ اور اشاعت مرکز اسلامی انقلاب دستاویزات، 2016، صفحہ 41، 43، 44۔
[6] خواجہ سروری، غلام رضا، سابق، صفحہ 65، 66؛ نوجوانوں اور نوجوانوں کے لیے اسلامی انقلاب کا انسائیکلوپیڈیا، جلد۔ 3، ص۔ 374.
[7] قیصری، مہدی، سابق، ص 61، 62
[8] سابق، ص53
[9] دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3، ص۔ 374; قیصری، مہدی، سابق، ص. 63
[10] راعی گلوجہ، سجاد، سابق، ص۔ 312.
[11] قیصری، مہدی، سابق، ص. 69
[12] سابق، صفحہ 70 اور 71
[13] قدسی زادہ، پروین، تاریخ شفاهی مسجد جلیلی، تہران، اسلامی انقلاب دستاویزی مرکز اسناد انقلاب اسلامی 2004، صفحہ۔ 120.
[14] راعی گلوجہ، سجاد، سابق، ص۔ 312.
[15] دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3، ص۔ 375.
[16]. قیصری، مہدی، سابق، صفحہ 122، 123، اور 124۔
[17] خواجہ سروری، غلام رضا، سابق، صفحہ 211، 212۔
[18] راعی گلوجہ، سجاد، سابق، ص 313; قیصری، مہدی، سابق، ص. 142.
[19] دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3، ص۔ 375.
[20] راعی گلوجہ، سجاد، سابق.، ص. 313.
[21] قیصری، مہدی، سابق.، صفحہ 153-154.
[22] راعی گلوجہ، سجاد، سابق.، صفحہ 313 اور 314.
[23] قیصری، مہدی، سابق، ص 185
[24] خواجہ سروی، غلام رضا، سابق.، ص. 355.
[25] راعی گلوجہ، سجاد، سابق.، ص. 321.
[26] قیصری، مہدی، سابق.، ص. 189.
[27] سابق.، صفحہ 236 اور 237.
[28] سابق، ص223-226.
[29] سابق، ص237۔
[30] دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3، ص۔ 375.
[31] جعفری ہفت خوانی، نادر، سیاست اخلاقی اور اخلاق سیاسی، تہران میں نماز جمعہ میں آیت اللہ مہدوی کنی کے خطبات اور لیکچرز کا مجموعہ، تہران، امام صادق یونیورسٹی، دوسرا ایڈیشن، 2014، صفحہ 11 اور 12۔
[32] قیصری، مہدی، سابق، صفحہ 221 اور 229۔
[33] قیصری، مہدی، سابق، ص. 226; دایرهالمعارف انقلاب اسلامی ویژہ نوجوانان و جوانان، ج 3۔ ص375.