آثار

بمو

بہناز باقر پور
2 Views

کتاب "بمو" ایران اور عراق کے درمیان جاری مسلط کردہ جنگ میں قصرشیرین اور دشت ذهاب کے علاقے کی شناخت کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔

"شناخت" [1]دشمن اور آپریشنل زون کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے کی جانے والی ہدایت کی گئی سرگرمیوں کو کہا جاتا ہے[2]۔ دشمن کے بارے میں حاصل کردہ معلومات میں سے ایک، انسانی معلومات ہے، اور ماہر[3] اطلاعاتی عناصرکا نفوذ انسانی معلومات جمع کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے۔ ایران عراق جنگ میں انفارمیشن فورسز کے توسط سے حاصل کی جانے والی معلومات پر مشتمل یہ کتاب ایک نمونے کے طور پر ہے ۔

"بمو"  کے پہلے ایڈیشن کو 2000 میں 722 صفحات میں  حوزہ ہنری سازمان تبلیغات اسلامی نے وزیری سائز اور نرم جلد میں شایع کیا، اس کی قیمت 30000 ریال  اور تعداد تین ہزار تھی، تحقیق و تدوین کے فرایض اصغر کاظمی نے انجام دیے۔کتاب کا کور ڈیزائن کوروش پارسانژاد کا بنایا ہوا ہے، جو دو  رنگوں کا مرکب ہے، اور اس کی تصویر "آنو بانی نی" [4]کے کتبے سے لی گئی ہے، جس کا تعلق "لولوبی" دور سے ہے، اور  سر پل ذہاب میں تین ہزار سال  قبل مسیح سے متعلق ہے۔ [5]عنوان کے صفحے پر دس راویوں کے نام درج ہیں، لیکن مصنف کا نام درج نہیں ہے۔  تعارف اور تقدیم کے صفحہ کے بعد، کتاب کی فہرست میں "پیش گفتار، پہلا باب: قصرشیرین، دوسرا باب: ارتفاعات حمرین، تیسرا باب: ارتفاع آق داغ، چوتھا باب: ارتفاعات بمو، پانچواں باب: ارتفاعات کانی مانگا، نتیجہ، اور آخر میں ضمائم شامل ہیں جن میں دستاویزات، تفصیلی فہرست، نقشوں کی فہرست، تصاویر کے بارے میں معلومات، اور اشاریہ شامل ہیں۔ پیش گفتار اصغر کاظمی کے قلم سے 20 جولائی 1999 کو لکھی گئی ہے۔ ہر باب کے شروع میں، ذیلی عنوانات جو فہرست مطالب میں ہیں، دہرائے گئے ہیں۔ پہلا باب، قصرشیرین، دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ماضی میں قصرشیرین کے تاریخی اور فوجی جغرافیے کے بارے میں ہے۔ دوسرا حصہ بہار 1979سے خزاں 1982 تک قصرشیرین میں جنگ، فکه آپریشن، قصرشیرین کے علاقے، ذهاب کی شناخت، اور آخر میں سنہ 1984 سے 1989 کے درمیان اس علاقے میں کیے گئے آپریشنوں کے بارے میں ہے، جو حسین الله کرم [6]کی روایت ہے۔ باب کے درمیان میں دو نقشے اور پانچ صفحات کی تصاویر ہیں۔ دوسرا باب، اپریل1983میں آپریشن والفجر یک کو انجام دینے کے لیے ارتفاعات حمرین کی شناخت کے بارے میں ہے۔ مصطفی مولوی، محمد جوانبخت، مهدی قلی رضایی اور احمد استادباقر اس باب کے راوی ہیں۔ باب کے آخر میں، آپریشن "والفجر یک "کے نو صفحات کی تصاویر اور ایک نقشہ ہے۔ تیسرا باب مئی1983میں "ارتفاع آق داغ" کی ناکام شناخت اور اس کی معلومات افشا ہونے کے بارے میں ہے، جسے احمد استادباقر نے بیان کیا ہے۔ چوتھا باب ارتفاعات بمو کی شناخت کے بارے میں ہے۔ اس باب میں جون سے اکتوبر1983 تک "بمو" کی شناخت کی تفصیلی وضاحت دی گئی ہے۔ احمد استادباقر کی روایت میں بمو کے راہ کار [7]کی شناخت، محمد جوانبخت کی روایت میں "قَلپ" اور "قله شاخه خیشک" کے راستہ کار کی شناخت، احمد کوچکی کی روایت میں کوہنوردی کی تربیت، محرم قاسمی کی روایت میں "زیمناکو" کے راستہ کار کی شناخت، جعفر جهروتی زاده کی روایت میں "سد دربندیخان" کے راہ کار کی شناخت، مصطفی مولوی کی روایت میں لشکر عاشورا کی شناخت، حسین دمیرچی کی روایت میں آپریشن کے لیے خطے کی تیاری، احمد کوچکی کی روایت میں کمانڈروں کی بریفنگ، اور علی صیاد شیرازی کی روایت میں بمو میں ہیلی برن کا طریقہ کار شامل ہے۔ باب کے آخر میں احمد استادباقر کی روایت  اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ آپریشنل انٹیلی جنس کے تین اہلکاروں کی گرفتاری اور لاپتہ ہونے کی وجہ سے بمو آپریشن معطل ہو گیا۔ مختلف صفحات پر سات نقشے اور کئی رنگین تصاویر ان بیانات کو سمجھنے میں مدد  دیتی ہیں۔ پانچواں باب نومبر 1983 میں آپریشن والفجر چهار کے تیسرے مرحلے میں ارتفاعات کانی مانگا کی شناخت کے بارے میں ہے۔ اس باب کے راوی مصطفی مولوی، علی صیاد شیرازی، احمد کوچکی، محمد جوانبخت، احمد استادباقر ہیں، اور باب کے آخر میں ایک نقشہ اور کئی تصاویر منسلک ہیں۔ بعض ابواب یا معلوماتی رپورٹوں کے آخر میں، بیانات کو مکمل کرنے اور تصدیق کرنے کے لیے "مجید زادبود" [8] کے روزانہ کی ڈایری استعمال کی گئی ہے۔ نتیجہ میں، جنگ میں آپریشنز کے جنوبی محور سے پہاڑی محور کی طرف رجحان کی تاریخ اور اسباب کا جائزہ لیا گیا ہے، جو اس کتاب کا موضوع رہا ہے۔ سب سے طویل باب "چوتھا باب: ارتفاعات بمو" اور سب سے چھوٹا باب "تیسرا باب: ارتفاع آق داغ" ہے۔ کتاب کے آخر میں، ضمائم جن میں کئی دستاویزات کی تصاویر (بشمول راویوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس، معلومات رپورٹس وغیرہ)، تفصیلی فہرست مطالب، نقشوں کی فہرست، تصاویر کے بارے میں معلومات، اور اشاریہ شامل ہیں، جو63 صفحات پر مشتمل ہیں، جنہوں نے کتاب کے مواد کو زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔

بمو کا دوسرا ایڈیشن 2018 میں، ناشر کے حوزہ هنری سے "سورہ مهر" میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی شائع ہوا ہے۔ اس ایڈیشن میں کتاب کے سفید رنگ کے کور ڈیزائن میں، عنوان ہلکے سرخ رنگ کے ساتھ، چار بار دہرایا گیا ہے، اور پہلے ایڈیشن میں کندہ کاری والی تصویر، کور کے بائیں کونے میں بنائی گئی ہے۔ اس ایڈیشن کے کور ڈیزائنر حسام صادقی ہیں۔ راویوں کے نام عنوان کے صفحے سے پہلے چھپے ہیں اور "مجید زادبود" کا نام بھی راویوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ عنوان کے صفحے پر مصنف کا نام درج ہے۔ تفصیلی فہرست کتاب کے آخر سے شروع میں منتقل کر دی گئی ہے، اور نقشے اور تصاویر بہتر کوالٹی کے ساتھ چھپے ہیں۔ کچھ تصاویر بھی تبدیل کی گئی ہیں۔ ضمائم کے حصے میں، راویوں کی طرف سے "حرف آخر" کے عنوان سے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس چھپے ہیں، اور دستاویزات کی تعداد پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔

"بمو" نے سنہ 2001 میں کتاب سال دفاع مقدس کے چھٹے دورے میں یادداشتوں کے گروپ میں پہلا ایوارڈحاصل کیا۔ [9]اسماعیل علوی (2015) نے "روایتی از بزرگترین عملیات کوهستانی" کے عنوان سے ایک مضمون میں "ایران" اخبار میں اس کتاب کا تعارف کرایا ہے۔ [10] مرجان قندی (2018) نے "ایران" اخبار میں اصغر کاظمی کے ساتھ ایک مختصر گفتگو میں کتاب "بمو" کا بھی حوالہ دیا ہے۔[11]  پرنٹ کاپیوں کے علاوہ، کتاب "بمو" کی الیکٹرانک کاپی، دوسرے ایڈیشن کے مطابق، بھی دستیاب ہے۔ [12]

 

[1] Reconnaissance

[2] رستمی، محمود، فرهنگ واژه‌های نظامی، تهران: ستاد مشترک ارتش جمهوری اسلامی ایران، 1999، ص527.

[3] معین‌وزیری، نصرت‌الله، نقش اطلاعات و حفاظت اطلاعات در جنگ تحمیلی، تهران: مرکز آموزشی و پژوهشی شهید صیاد شیرازی، 2008، ص1.

[4] کندہ کاری شدہ اس پتھر کی عمر 4800 سال ہے جو "لولوبی ہا"  قوم کے بادشاہ کی یادگار ہے جس کا تعلق "زاگرس" کے ایک قبیلے سے  تھا ۔ ان کی حکومت آریاوں سے پہلے تھی۔ انیسی، فریبا، سرپل‌ذهاب در جنگ، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2001، ص25 و 26

[5] کاظمی، اصغر، بمو، تهران: سازمان تبلیغات اسلامی، سوره مهر، 2000، ص661.

[6] مصطفی مولوی و حسین دمیرچی لشکر 31 عاشورا اور کتاب کے باقی راویان کا تعلق آپریشنل لشکر 27 محمد رسول‌الله‌(ص) کی انفارمیشن یونٹ سے ہے۔

[7] " روش هدایت یک یگان در درگیری" (رستمی، محمود، فرهنگ واژه‌های نظامی، تهران: ستاد مشترک ارتش جمهوری اسلامی ایران، 1999، ص442).

[8] مجید زادبود کا تعلق آپریشنل لشکر 27 محمد رسول‌الله‌(ص) کی ایک اور انفارمیشن یونٹ سے تھا جو در 20 نومبر 1983 کو کانی‌مانگا  میں شہید ہوئے۔ (کاظمی، اصغر، بمو، تهران: سازمان تبلیغات اسلامی، سوره مهر، 2000،  ص646).

[9] "سیمای آثار هفده دوره کتاب سال دفاع مقدس"، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع مقدس، سازمان ادبیات و دفاع مقدس، 2018، ص15.

[10]  روزنامه ایران، ش6103، 19 دسمبر 2015، ص10.

 

[11] روزنامه ایران، ش6749، 7 اپریل 2018، ص14.

[12] https://www.faraketab.ir/book/19536