مفاہیم اور اصطلاحات
استخبارات
فاطمہ دانش شکیب
34 Views
"استخبارات" عراق کی انٹیلی جنس ایجنسی کا نام ہے جو عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران فوجی سرگرمیوں کے لیے ایرانی قیدیوں سے پوچھ گچھ اور معلومات اکٹھا کرنے کی انچارج تھی۔
"استخبارات" عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں "کسی سے خبریں پوچھنا"، "خبروں کی ٹوہ میں رہنا"، اور اصطلاح میں "جاسوسی" مراد ہے(1)۔
جب ملک فیصل 23 اگست 1921 میں برطانیہ کے پشت پناہی سے عراق میں شاہی تخت پر بیٹھا(2) تو اس نے عراق میں انٹیلی جنس کے دو ادارے قائم کئے، ایک کا نام "سویلین انٹیلی جنس سروسز"؛ رکھا، جس کا کام یہ تھا کہ عام شہریوں میں امن عامہ قائم کیا جائے۔ اور دوسرے ادارے کا نام "ملٹری انٹیلی جنس سروسز"؛ رکھا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ فوجیوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔
عراق میں بعث پارٹی کی طرف سے 8 فروری 1963 کی بغاوت(3) کے بعد، اس پارٹی نے انٹیلی جنس سروس قائم کی(4)۔ صدام کی حکومت کے دوران ایک سازش کا پردہ فاش کرنے کے بہانے، 1983 میں "الامین الخاص" یا "امن کا خصوصی ادارہ" بھی قائم کیا گیا تھا(5)۔
ملٹری انٹیلی جنس سروس اپنے آغاز سے ہی وزارت دفاع کا ذیلی ادارہ تھا۔ 1962 میں بعث پارٹی کی بغاوت کے بعد یہ عراقی انقلابی کونسل کی نگرانی میں آگئی۔ ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے بنیادی فرائض میں ذیل کی امور شامل تھے: پڑوسی ممالک سے زمینی، سمندری اور فضائی افواج کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا، فوجی سربراہوں کی شناخت کرنا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدوں کی تہہ تک کی عسکری معلومات اکٹھا کرنا، اورحکومت کو مطلوبہ ممالک کے فوجی اور ٹپوگرافک نقشے تیار کرنا، ان کی انٹیلی جنس کے خلاف اقدامات کرنا اور فضائی اور سیٹلائٹ تصویریں بنانا۔
جنگ کے دوران اس تنظیم کا سربراہ صدام حسین کا بیٹا "قصی" تھا(6)۔ تنظیم کا مرکزی دفتر دریائے دجلہ کے کنارے بغداد میں واقع تھا۔ اس کے رہنما حکومت کے اعلیٰ سطح کے ارکان تھے(7) جو تربیت یافتہ افسران ہونے کے ساتھ ساتھ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ یہ افسران عام طور پر سنی تھے، اکثر رمادی، موصل اور تکریت کے شہروں سے تھے، اور پیچیدہ طریقہ کار کے ذریعے منتخب کیے جاتے تھے(8)۔ بیرون ملک عراقی سفارت خانوں میں اس محکمے کے افسران درج ذیل مقاصد کے لیے ڈپلومیٹک پروٹوکول استعمال کرتے تھے: پڑوسی ممالک سے عسکری معلومات حاصل کرنا، فوجی کمانڈروں کی شناخت کرنا، پڑوسی ممالک کی سرحدوں پر معلومات اکٹھا کرنا، فوجی نقشے تیار کرنا، سیٹلائٹ کی تصاویر جمع کرنا، غیر ملکیوں کی حمایت یافتہ کسی بھی سرگرمی اور نقل و حرکت کا مقابلہ کرنا، غیر ملکی جاسوسوں کا مقابلہ کرنا اور ان کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق معلومات کو نوٹس میں رکھنا، مغرب کی کیمیکل اور میکروبی جنگوں اور جوہری منصوبہ بندی پر رپورٹس کی نگهداری، دوسرے ممالک میں اڈوں کی فضائی تصویروں کی تیاری، نیٹو کے رکن ممالک میں فورس اسمبلی سینٹرز، ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز، ان ممالک میں فضائی، زمینی اور سمندری اڈوں کی جگہ کی نشاندہی، خفیہ ہتھیاروں کے منصوبے اور جدید ہتھیاروں کی تیاری، ملکی مخالفین سے لڑنا اور انکے منصوبوں کو ناکام بنانا(9)۔
ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران عراقی فوج کی انٹیلی جنس سرحدوں پر بڑے پیمانے پر سرگرم تھی۔ اس کا مطلب یه ہے کہ ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں میں طاقتور تکنیکی سننے والے یونٹ اور آلات تعینات کیے گئے تھے۔ ان ٹیموں کا مشن فوج اور IRGC کے وائرلیس نیٹ ورکس میں نفوذ کرنا تھا، جسے دو طریقوں سے انجام دیا گیا تھا: قریب سے خبریں سننا اور دور دراز سے سننا(10)۔
"مجاہدین خلق" کے ارکان، جو 1982 میں مسعود رجوی کی قیادت میں بھاگ کر عراق چلے گئے اور وہاں "ایران کی قومی آزادی کی فوج" تشکیل دی(11)، یہ لوگ چونکہ فارسی زبان کے استعارات اور زبانی کوڈز کو بخوبی جانتے تھے، اس لئے فارسی پیغامات کو اچھی طرح تجزیہ اور تحلیل کرتے۔ اس لئے یہ لوگ مسلط کردہ جنگ کے دوران، عراقی انٹیلی جنس کی ایک خاص طاقت تھے(12)۔
جنگ کے دوران عراقی انٹیلی جنس کے ہاتھوں متعدد ایرانی جنگی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ انٹیلی جنس افسران قیدیوں کو مختلف طریقوں سے صعوبتیں دے کر ان سے معلومات لیتے(13) ان صعوبتوں میں بجلی کے جھٹکے، پاؤں، ہاتھ اور چہروں کو جلانا، ناخن نکالنا، انہیں صلیب سے باندھنا، اور چھت سے الٹا لٹکانا شامل تھا(14)۔
1997عیسوی میں "ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ" کو "جنرل ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ" کے عنوان سے عراقی صدر کی نگرانی میں ملٹری انٹیلی جنس اور انسداد انٹیلی جنس کے جنرل ڈائریکٹریٹ کے طور پر رکھا گیا تھا(15)۔
صدام کی حکومت کے خاتمے اور عراقی انٹیلی جنس اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد اس عراقی سیکورٹی ادارے کے جرائم کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی گئیں۔ یہ معلومات زیادہ تر عربی اور انگریزی میں ہیں(16)۔
*حوالے:*
[1]. طبیعتشناس، تحسین، فرهنگ اصطلاحات نظامی عربی ـ فارسی، تهران: جهاد دانشگاهی دانشگاه تربیت معلم، 1374، ص17؛ دهخدا، علیاکبر، لغتنامه دهخدا، ج2، تهران: مؤسسه انتشارات و چاپ دانشگاه تهران، 1372، ص1797.
[2]. پارسادوست، منوچهر، نقش عراق در شروع جنگ همراه با بررسی تاریخ عراق و اندیشههای حزب بعث، تهران: شرکت سهامی انتشار، چ اول، 1369، ص34.
[3]. سرهنگ ع.الجمیلی، نگاهی به تاریخ سیاسی عراق، ترجمه محمدحسین زوار کعبه، تهران: حوزه هنری، 1370، ص100.[4]. تبرائیان، صفاءالدین، خوابگردها: از پایان جنگ جهانی اول تا روی کار آمدن حزب بعث، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1396، ص66.
[5]. جنایات پشت پرده، انجمن نجات، 1384، ص3.
[6]. سابق، ص1.
[7]. تبرائیان، صفاءالدین، خوابگردها، ص69.
[8]. رمضان، میخائیل، شبیه صدام، بینا، 1379، ص243.
[9]. تبرائیان، صفاءالدین، خوابگردها، ص68 و 69.
[10]. اسماعیلی، سیدحجت، خداوند اشرف از ظهور تا سقوط، تهران: مؤسسه فرهنگی هنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1393، ص663 و 664.
[11]. تبرائیان، صفاءالدین، خوابگردها، ص65 و 72.
[12]. اسماعیلی، سیدحجت، خداوند اشرف از ظهور تا سقوط، ص664.
[13]. جباری، جلیل، شهید غریب، تهران: سازمان عقیدتی سیاسی ارتش جمهوری اسلامی ایران، 1373، ص71.
[14]. احمدزاده، میکائیل، آخرین خاکریز، تهران: سازمان عقیدتی ـ سیاسی ارتش جمهوری اسلامی ایران (نشر آجا)، 1389، ص143.
[15]. تبرائیان، صفاءالدین، خوابگردها، ص68.
[16]. بایگانی دانشنامه الکترونیکی دفاع مقدس، سند ش1/2-97-1367، مصاحبه با مرتضی بشیری.