اشخاص

ذبیح اللہ حاجی بخشی

آذر خزایی سرچشمه
15 Views

ذبیح اللہ بخشی زادہ، جو "حاجی بخشی" کے نام سے بھی معروف سےتھے، عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران سرگرم بسیجیوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے مقدس دفاع کے پرچار کرنے  اور سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔

ذبیح اللہ بخشی زادہ 1933میں اراک کے گاؤں شمس آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ سات سال کے تھے کہ ان کے والد کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا  جس کی وجہ سے ان کو  پڑھائی چھوڑ کر کام کاج کرنا پڑا[1]۔ کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ نے ایک پولیس افسر سے شادی کر لی اور زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے اہواز شفٹ ہو گئے[2]۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور ایران میں اتحادی  موجود تھے ۔[3]

شہید ذبیح اللہ کچھ عرصہ بعد تہران چلے گئے  اور کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں دن رات کلاسیں ہوتی تھیں[4]۔ شہید نے  رفتہ رفتہ مذہبی نشستوں میں جانا شروع کر دیا اور کچھ عرصے بعد فدائیان اسلام گروپ سے آشنا ہوئے۔  تقریبا اسی زمانے  سے ہی، وہ انقلابی سرگرمیوں کی جانب زیادہ سے زیادہ سنجیدہ ہوتے چلے گئے[5]۔

کچھ عرصے بعد، سیکورٹی فورسز کے تعاقب سے بچنے کے لیے، وہ" لار" گاؤں میں روپوش ہوگئے اور وہاں کچھ عرصہ چرواہے کا کام کیا۔ لار میں، ان کی ملاقات اچانک آذربائیجان کے پانی اور بجلی کی اتھارٹی کے سربراہ سے ہوئی، جو وہاں معاینہ کرنے اور شکار کی غرض سے  آئے تھے، اور کچھ ہی عرصے بعد، حاجی بخشی اس  ادارے کے لیے کام کرنے آذربائیجان چلے گئے[6]۔ اور پھر  1963 میں تہران منتقل ہو گئے[7]۔

پہلوی حکومت کے خلاف ان کی جدوجہد اسلامی انقلاب کی فتح  تک جاری رہی، اور انقلاب کے عروج کے ساتھ اپنے رہایشی شہر کرج میں انقلابی افراد میں پیش پیش نظر آنے لگے[8]۔

امام خمینی  (رح)کی جلا وطنی سے ایران آمد والے دن وہ استقبالیہ ٹیم  کا حصہ تھے۔ انقلاب کی فتح کے بعد، انہیں کرج کے علاقوں میں تمام گیس سٹیشنوں اور پٹرول کوٹے کی ذمہ داری سونپی گئی[9]۔

1981 میں، انہوں نے اصفہان میں الغدیر بیرکوں میں تقریباً 750 بسیجیوں کے ساتھ فوجی تربیت حاصل کی، اور  پھرانہیں سوسن گرد بھیج دیا گیا[10]۔

وہ شروع سے ہی بیک سپورٹ بٹالین میں تھے۔ سپاہیوں  کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لاجسٹک ڈپارٹمنٹ میں ان کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے، انہیں لاجسٹک  سیل کی ذمہ داری سونپ دی گئی[11]۔

دسمبر 1981میں بوستان کی آزادی کے بعد جب وہ دیگر سپاہیوں کے ساتھ بوستان مسجد گئے اور مسجد کی دیواروں پر عراقیوں کی جانب سے لکھی ہوئی تحریریں دیکھیں تو انہوں نے سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے "ماشاء اللہ حزب اللہ" کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ اس دن سے سپاہیوں نے ان کا لقب "حاجی بخشی" رکھا[12]۔

حاجی بخشی مسلسل  کئی محاذوں پر موجود رہے اور زیادہ تر جنگی آپریشنز میں  لاجسٹک اور پبلسٹی کے محکمے میں مصروف عمل رہے۔ اپنی انقلابی سرگرمیوں کے پس منظر اور کئی سالوں سے صاحبان حیثیت افراد کے ساتھ اپنے رابطوں کے پیش نظر، وہ تہران اور کرج سے سپاہیوں کے لیے ضروری سامان اور اشیائے خورد و نوش تہیہ کرتے اور سپاہیوں میں تقسیم کرتے[13]۔

1961 میں بخشی نے  شادی  کی اور ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ نادر نادری نامی  ان کے ایک داماد اور ان کے تین بیٹے عباس، رضا اور علی جنگ کے دوران اکثر محاذ جنگ ہی پر ہوتے تھے[14]۔ علی، جو1982 سے اپنے والد کے ساتھ محاذ پر رہ رہا تھا، خیبر آپریشن (3مارچ 1984، ہور الہویزہ ) میں ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا[15]۔ رضا کو آپریشن والفجر- 1 (10 اپریل 1983 جبل فوقی کے علاقےمیں) میں شہید کر دیا گیا [16]۔ اور تیسرا بیٹا عباس آپریشن والفجر- 8 (9 فروری 1986کو، فاؤ میں) میں شہید ہوا۔ اس کے باوجود  حاجی بخشی  نے بلند حوصلہ اور ہمت  کے ساتھ محاذ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں[17]۔

شہید مرتضی آوینی نے حاجی بخشی کے بارے میں کہا: "فاؤ کے اس پار ہماری ملاقات حاجی بخشی سے ہوئی  جو کہ حزب اللہ تہران کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے، جو بھی ان کی زندہ دلی، حاضر دماغی اور کھلا ہوا  چہرہ دیکھتا  اسے  یقین نہیں آتا تھا کہ دو گھنٹے پہلے ان کا بیٹا شہید ہوا ہے، وہ حتی چند دنوں کے لیے بھی مرتضیٰ کی میت کے ساتھ مورچہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے۔ جہاں حزب اللہ تہران کا ذکرہے، وہاں ان کا نام ہے، اور وہی اس تنظیم کے سربراہ  ہیں[18]۔"

آپریشن کربلا- 5 کے دوران (9 جنوری 1987کو شلمچے میں) حاجی بخشی جب اپنی گاڑی میں سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کر رہے تھے  تو  ایک عراقی ٹینک نے بمباری کی، اور حاجی بخشی کی گاڑی میں آگ لگ گئی جس سے  وہ خود تو زخمی  ہوئے مگر ان کی گاڑی میں موجود ان کے داماد اور دو سپاہی شہید ہو گئے۔ کچھ ہی دیر  بعد  حاجی بخشی نے ایک اور گاڑی تیار کی اور محاذ پر واپس پہنچ گئے[19]۔

حاجی بخشی جنگ کے اختتام تک  مورچوں اور محاذوں  پر سرگرم رہے، جب انہیں یہ خبر ملی کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے قرارداد 598 کو قبول کرلیا ہے اور جنگ اب ختم ہو گئی ہے، تو  اگرچہ یہ خبر ان کے بہت تعجب کا باعث بنی لیکن اس کے باوجود انہوں نے محض امام خمینی کے حکم کی تعمیل کی خاطر اس جنگ بندی کو تسلیم کیا اور تہران میں نماز جمعہ کے دوران یہ نعرہ لگایا: "اےامام، اے  امام، ہم نے آپ کا پیغام سن لیا ، ہم نے اسے  دل  جان سے مان لیا [20]۔"

جب امام خمینی کا انتقال ہوا تو حاجی بخشی نے بہشت زہرا میں امام کی قبر کھودی اور چند لمحے وہیں لیٹ گئے[21]۔

جنگ کے بعد، وہ ثقافتی سرگرمیوں  اور امر بہ معروف اورنہی از منکر کرنےمیں سرگرم رہے، اور اسلامی انقلاب کی اقدار کے دفاع میں نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے[22]۔

2009میں، وہ بیمار ہو گئے اور برسوں[23]  زیر علاج رہے ،یہاں تک کہ 3 جنوری 2012 کو ان کا انتقال ہو گیا[24] اور تہران کی مسجد ارگ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تشییع جنازہ کے بعد بہشت زہرا قبرستان کے قطعہ 25 میں دفن کیا گیا[25]۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای، اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد اور اس وقت کے تشخیص مصلحت نظام کونسل کے چیئرمین اکبر ہاشمی رفسنجانی نے ذبیح اللہ بخشی  کی وفات پر ان کے خاندان اور ایرانی قوم کو تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں[26]۔

آیت اللہ خامنہ ای کے پیغام کا متن کچھ یوں ہے: "﷽، میں جہاد کے محاذوں کے بہادر بزرگ، دو شہیدوں کے والد اور ہزارہا شہیدوں کے ساتھی، مرحوم حاج ذبیح اللہ کے انتقال پر راہ حق کے تمام  مجاہدین اور مرحوم کے معزز خاندان کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور  اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ ان کے درجات بلند فرمائے اور صبر و استقامت  کے اجر سے نوازے۔

سید علی خامنہ ای،  5جنوری 2012 [27]۔"

انہیں 2011میں قومی "نشان ایثار"  دیا گیا[28]۔

 

 

[1] مطلق، محسن، حاجی‌بخشی: خاطرات شفاهی ذبیح‌الله بخشی، تهران: عماد فردا، 2012، ص9 و 10.

[2] سابق، ص13.

[3] سابق ، ص9.

[4] سابق ، ص32 و 33 و 41.

[5] سابق ، ص44.

[6] سابق ، ص52 و 54.

[7] سابق ، ص69.

[8] سابق ، ص76.

[9] سابق ، ص77 و 78

[10] سابق ، ص88 و 94.

[11] سابق ، ص95.

[12] سابق ، ص96.

[13] سابق ، ص97 و 98

[14] سابق ، ص62 و 99.

[15] هفته‌نامه خبری تحلیلی پنجره، سال سوم، ش122، ہفتہ 7 جنوری 2012، ص70؛ رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2001، ص71.

[16] مطلق، محسن، حاجی‌بخشی، ص114 و 115؛ رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص71

[17] سابق،  ص150 و 151 و 226؛ رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص74.

 

[18] غلامی، علیرضا، صلواتی‌ها، تهران: جام‌جم، 2017، ص77؛ رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص77

[19] مطلق، محسن، حاجی‌بخشی، ص166 و 167.

[20] سابق ، ص183.

[21] سابق ، ص185.

[22] سابق.

[23] هفته‌نامه خبری تحلیلی پنجره، سابق، ص77.

[24] سابق ، ص70.

[25] غلامی، علیرضا، صلواتی‌ها، ص74.

[26] هفته‌نامه خبری تحلیلی پنجره، سابق، ص80

[27] روزنامه کیهان، ش20116، 7 جنوری 2012، ص3.

[28] سابق ؛ غلامی، علیرضا، صلواتی‌ها، ص77