آثار

پوتین ہای مریم

زینب احمدی
2 Views

"پوتین‌های مریم" (یعنی مریم کے فوجی جوتے) مریم امجدی (خرمشہر کی ایک امدادی کارکن اور مجاہدہ) کی عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کی یادوں پر مشتمل کتاب  کا نام ہے۔ اس کتاب میں راویہ کی بچپن سے لے کر خرمشہر کی آزادی تک کی یادوں کو شامل کیا گیا ہے۔ مریم امجدی کا انتقال اکتوبر 2011ء میں ہوا۔[1]

" پوتین‌های مریم" ایران عراق جنگ پر لکھی گئی یادوں کی کتابوں میں 139ویں اور "دفتر ادبیات و هنر مقاومت حوزه هنری" کی 458ویں کتاب ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 2002ء میں 160 صفحات پر مشتمل، رقعی سائز، نرم جلد میں، قیمت 9000 ریال، 4400 کاپیوں کے ہمراہ، فریبا طالش پور کے انٹرویو اور تدوین کے ساتھ "سورہ مہر حوزه هنری" نے شائع کیا۔ کتاب کے سرورق کا ڈیزائن گڈمڈ اور غیر واضح ہے۔ بظاہر یہ ایک فوجی بوٹ کے پچھلے حصے کی تصویر ہے جس کے نیچے ایک پیلے رنگ کا پھول رکھا ہوا ہے۔ کتاب کا عنوان  سفید رنگ میں جلد کے اوپر والے حصے پر  بڑے حروف  میں درج ہے۔ متن سے پہلے کتاب کے ابتدائی صفحات بالترتیب یہ ہیں: عنوان کا صفحہ، تعارفی صفحہ، اور موسم گرما 2002ء کی تاریخ کا حوالہ۔ کتاب میں کوئی فہرست (انڈیکس) نہیں ہے اور یادداشتیں ایک ہی تسلسل میں تحریر ہیں۔

یادداشتوں کا آغاز امجدی کے خرمشہر میں بچپن سے ہوتا ہے اور اس کے بعد تعلیمی مراحل کی تکمیل، انقلاب سے پہلے ہونے والے مظاہروں میں شرکت، انقلاب کی کامیابی، حزب جمہوری اسلامی اور جہاد سازندگی میں شمولیت، پسماندہ دیہاتوں کے دورے، بسیج مستضعفین میں رکنیت، اور فائرنگ جیسے فوجی ہنر سیکھنے کے واقعات بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ ایران عراق جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ عراق کے حملے کے بعد، مریم امجدی، مصدق ہسپتال (خرمشہر) میں زخمیوں کی دیکھ بھال، خرمشہر کی جامع مسجد میں ہتھیاروں کے گودام کی نگرانی، خرمشہر سے لوگوں کا انخلا، ابوذر گروپ کے ساتھ مل کر عراقیوں سے لڑائی، اپنے خاندان سے ملاقات کے لیے گچساران جانا، آبادان واپسی کی مشکلات، حسین علم الہدی کی شہادت، محمد جهان آرا کا خط اور امجدی سے خرمشہر کی سپاہ پاسداران میں شامل ہونے کی درخواست، حسن آذرنیا سے شادی، آپریشن محاصرہ آبادان کے زخمیوں کا علاج، اپنے بیٹے سجاد کی پیدائش، اور خرمشہر کی آزادی کے واقعات بیان کرتی ہیں۔ کتاب کے آخر میں چھ صفحات پر تصاویر اور دستاویزات منسلک ہیں۔

امجدی اپنے بچپن کے بارے میں یوں بیان کرتی ہیں: "جب کبھی ہم گڑیا سے کھیلتے کھیلتے اکتا جاتے تو سیدھے گلی میں دوڑتے اور محلے کے بچوں کے ساتھ مٹی سے کھیلتے۔ ہم مٹی سے گارا بناتے۔ گارے کو کھوکھلا کر کے اس کے درمیان تھوک دیتے، پھر اسے پلٹ کر زمین پر مارتے اور یک زبان ہو کر کہتے 'ہیل!' اور گارا پھٹ جاتا اور 'بوم' کی آواز نکالتا"۔[2]

کتاب میں بیان کردہ یادوں سے امجدی کے مسلح جدوجہد کے شوق کا بھی پتہ چلتا ہے: "پہلے دن سے جب میں ہتھیاروں کے گودام کی محافظ بنی، مسٹر فرخی نے مجھے ایک اے کے 47 رائفل تھمائی... میں نے ان سے میگزین لگانا اور بٹ کھینچنا سیکھا۔ پہلے دو تین دن میں مسجد گئی اور گروپ ابوذر کے جوانوں سے ملی۔ وہ محاذ پر جاتے تھے... میں نے ان سے کہا: اگر ممکن ہو تو مجھے اپنے ساتھ اگلے مورچوں پر لے چلو۔ ایک دن... انہوں نے مجھے آواز دی: 'ہم جا رہے ہیں، تم نے آنا ہے؟'... میں نے ایک بڑے ڈبے کے پیچھے مورچہ سنبہالا  اور فائرنگ لائن کھول دی۔ دو بھائی آگے نکل گئے۔ امیر ثامری نے کہا: اب تم جاؤ... میں ڈبے کے پیچھے سے نکلی، آگے دوڑی... میں نے دیکھا کہ ایک شخص سامنے سے ہماری طرف آ رہا ہے... میں نے دیکھا کہ وہ میرا بھائی علی ہے۔ اس کی نگاہیں مجھ پر پڑیں... میں دنگ رہ گئی،  مجھے  لگا کہ مجھے یوں اس کے سامنے نہیں آنا چاہیے...کیونکہ  مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے وہاں سے واپس جانے کا کہہ دے گا"۔[3]

یادوں کے ایک حصے میں کتاب کے نام کی وجہ بیان کی گئی ہے: "ہم نے ہر ممکن کوشش کر کے سپاہ کی طبی سہولیات ڈھونڈیں... دروازے پر لکھا تھا، اندر داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیں... میں جوتے پہننے کے لیے کمرے سے باہر آئی تو دیکھا کہ جوتے وہاں نہیں ہیں... ادارہ تعاون کے انچارج نے سپاہ کے گودام کے لیے ایک پرچی دی تاکہ میں جوتے لے سکوں... ایک بھائی نے گودام کا دروازہ کھولا... میں نے سوچا کہ اسپورٹس شوز لوں، لیکن تمام جوتے فوجی بوٹ تھے... مجبوراً میں نے ایک جوڑا بوٹ لے لیا... سڑک پر آبادان کی طرف بڑی تعداد میں لوگ چل رہے تھے۔ کوئی سواری نہیں تھی... بوٹ میرے پاؤں کو بری طرح تکلیف دے رہے تھے... ہم طالقانی ہسپتال گئے... ہم نے رات کا کھانا کھایا... اس رات سید صالح موسوی (بتول کے شوہر) وہاں آئے۔ صبح جب وہ کام پر جا رہے تھے... انہوں نے پوچھا: یہ بوٹ کس کے ہیں؟ بتول نے کہا: مریم امجدی کے۔ ... سید صالح نے کہا: بتول، بہن امجدی سے کہو کہ یہ بوٹ مجھے دے دیں... میں نے کہا: "میرے لیے  جوتوں  کا بندوبست کریں، یہ (بوٹ) لے جائیں... سید نے بتول کو پیسے دیے...ہم لین بازار احمدآباد گئے۔ میں نے سفید رنگ میں ایڈیڈاس کمپنی کے ایک جوڑا جوتے لیے۔ [4]

کتاب " پوتین‌های مریم" کو سورہ مہر نے دس بار دوبارہ شائع کیا: دوسرا اور تیسرا ایڈیشن 2007ء، چوتھا ایڈیشن 2008ء، پانچواں ایڈیشن 2010ء، چھٹا ایڈیشن 2011ء اور ساتواں تا دسواں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوئے۔ دوسرے ایڈیشن میں سرورق پر ایک فوجی بوٹ اور کچھ نیلے رنگ میں  تتلیوں کی تصویر تھی، جبکہ بعد کے ایڈیشنز میں ایک جوڑے فوجی بوٹ کی تصویر ہے جن میں سے کھجور کے پتوں جیسی ایک پودا نکل رہا ہے۔ دوبارہ اشاعت میں کتاب کے مواد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

" پوتین‌های مریم" محققین کی تحقیق کا موضوع بن چکی ہے: مصطفیٰ رحیمی (2006ء) نے "خرمشہر کے 34 دنوں کی مزاحمت میں خواتین کے کردار پر ایک نظر" کے عنوان سے ایک تحریر میں مریم امجدی کی یادوں سے بھی استفادہ کیا ہے[5] اور [6]؛ سورہ مہر پبلیکیشنز کی خصوصی کتابی جریدے (2011ء) نے مریم امجدی کی وفات کے موقع پر، "دفاع مقدس کی ادبیات میں خواتین کی موجودگی پر ایک نظر" کے عنوان سے ایک تحریر میں اس اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے[7]؛ فرشتہ موحدیان عطار، علی ربانی خوراسگانی اور ثریا معمار (2022ء) نے اپنے مقالے "دفاع مقدس کی یادوں کی کتابوں میں بنیادی اقدار کی بنیاد پر ایرانی خواتین کی شناخت کا تجزیہ"[8]  میں اس کتاب کو ایک تحقیقی نمونے کے طور پر استعمال کیا ہے؛ کچھ پرنٹ میڈیا نے بھی کتاب "پوتین ھای مریم" کو متعارف کرایا ہے، جیسے: مینا کمالی (2008ء) نے روزنامہ رسالت میں "ہشت سالہ دفاع مقدس میں خواتین کی موجودگی کے مظاہر" کے عنوان سے ایک مضمون میں[9]، طہ راستین (2010ء) نے "بہ دنبال پوتین ھای مریم" یعنی "مریم کے فوجی جوتوں کی تلاش میں"جنگ میں خواتین کی موجودگی کی ادبیات پر توجہ کیسے دی جائے" کے عنوان سے ایک مضمون میں[10]، ایمان رہبر (2014ء) نے خرمشہر کی دس کتابوں کی تعارف میں کتاب " پوتین ھای مریم " کا نام لیا ہے[11]، روزنامہ رسالت (2019ء) نے لائبریری سیکشن میں[12] اور علی رستگار (2022ء) نے روزنامہ جام جم میں "خرمشہر کی خواتین کی مزاحمت کے ورق گردانی" کے عنوان سے ایک مضمون میں[13]۔ پرنٹ ورژن کے علاوہ، ناشر نے کتاب کا الیکٹرانک ورژن [14] بھی تیار کیا ہے جو قارئین کے لیے دستیاب ہے۔

 

[1] mehrnews.com/xg5KY

[2] طالش‌پور، فریبا، پوتین‌های مریم، تهران: سازمان تبلیغات اسلامی، حوزه هنری، سوره مهر،2002، ص11.

[3] سابق، ص66ـ40

[4] سابق ، ص97ـ90

[5] روزنامه اطلاعات، ش23674، 12 جولائی 2006، ص7

[6] سابق ، ش23680، 19 جولائی 2006، ص7

[7] نگاهی به حضور زنان در ادبیات دفاع مقدس، نشریه تخصصی کتاب انتشارت سوره مهر، ش 133، ص17

[8] موحدیان عطار، فرشته، ربانی خوراسگانی، علی و معمار، ثریا (1401)، «تحلیل هویت زن ایرانی بر مبنای ارزش‌های اساسی در کتاب‌های خاطرات دفاع مقدس، پژوهش‌نامه اسلامی زنان و خانواده»، ش 29، ص29ـ9

[9] روزنامه رسالت، ش6552، 19اکتوبر2008، ص19

[10] روزنامه کیهان، ش19751،  27 ستمبر 2010، ص10

[11] روزنامه ایران، ش5653، 24 مئی 2014، 23

[12] روزنامه رسالت، ش9609، 24 مئی 2022، ص12

[13] روزنامه جام جم، ش6221، 24 مئی 2022ص11

[14] https://www.faraketab.ir/book/