آپریشنز

آبادن محاصرے میں

محسن شیر محمد
34 Views

اکتوبر 1980 میں آبادان شہر دشمن کے محاصرے میں آ گیا اور پھر 349 دنوں بعد "ثامن الائمہ" آپریشن میں اس کو آزاد بھی کروا لیا گیا۔

جغرافیایی اعتبار سے یہ شہر صوبہ خوزستان کی بندرگاہوں میں سے ایک بندرگاہ ہے ۔ شمال کی طرف سے "خرم شہر" سے ملتا ہے اور مشرقی جانب سے "ماہ شہر" سے جڑا ہے، جبکہ جنوبی سمت سے خلیج فارس اور مغربی طرف سے عراق سے متصل ہے۔ اس شہر کے اطررف میں تین دریا بہتے ہیں: دریائے کارون، دریائے بہمن شیر، اور دریائے اروَند، جبکہ جنوبی سمت سے خلیج فارس سے جڑا ہے اور یوں اس نے جزیرہ کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ اور اسی اہمیت کے پیش نظر عراق کی نظریں دیگر کئی اہداف کی طرح اس شہر پر بھی جمی ہوئی تھیں اور بالآخر اس نے  22 ستمبر 1980 کو اس شہر پر حملہ کر دیا۔

ایران پر مسلط شدہ جنگ کے آغاز میں دریائے اروند کی گہرائی اور بہاؤ میں تیزی کے باعث عراقی فوج کے لئے اسے عبور کرنا ناممکن تھا اور اسی طرح "خرم شہر" کے لوگوں کی طرف سے بنائی گئی رکاوٹیں بھی عراقی زمینی حملے کو روکے ہوئے تھیں۔ اسی وجہ سے آٹھ سالہ جنگ کے آغاز میں عراقی فوج نے یہ منصوبہ بنایا کہ پہلے "مارد" کے علاقے دریائے کارون کو عبور کیا جائے اور پھر "بہمن شیر " کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ 10 اکتوبر 1980کو عراق کی بکتر بند بریگیڈ6 نے دریائے کارون سے اہواز-خرمشہر روڈ تک ایک پل بنایا اور دو کلو میٹر چوڑا پل دریا پر بنایا۔ اس دوسرے پل کی خاصیت یہ تھی کہ اسے دريا کے اوپر تیرنے کی ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا گیا تھا۔ پھر عراق نے کارون کے مشرقی علاقے کو طاقتور بنانے کا قدم اٹھایا اور پھر تین دن بعد آبادان کے شمال میں واقع "مارد" کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا اور اگلے دن صبح ماہشہر-آبادان روڈ پر قبضہ کر لیا اور یوں آبادان شہر مکمل طور پر محاصرے میں آ گیا۔ نتیجتا عراق نے کارون کے مشرق میں واقع اہم پل پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کر آبادان شہر کو ہتھیا لیا۔

دریائے کارون کو دشمن نے عبور کیا تو اس کے نتیجے میں تین دفاعی لائینیں اور محاذ وجود میں آئے: ایک آبادان محاذ جو چودہ کلومیٹر لمبا تھا۔ دوسرا محاذ "دارخوین" نامی محاذ جو پچاس کلومیٹر پر محیط تھا اور تیسرا محاذ "ماہ شہر" کا تھا جس کی لمبائی سات کلومیٹر تھی۔

 21 اکتوبر 1980 کو خرمشہر اور آبادان میں مسلح افواج کی کمانڈ نے افسر حسن علی فروزان کی زیر نگرانی، جو ملکی سطح پر کانسٹیبلری کے ہیڈ تھے، "اروند کمیٹی" بنائی۔ اور آبادان آپریشن کی سربراہی افسر حسین حسن سعدی کو سونپی گئی۔

 نومبر1980 کے شروع میں آبادان کے محاصرے کے بعد فوجی ڈویژن77 کی بٹالین153 سمندری راستے سے "ہاور کرافٹ" نامی بحری جہاز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے وارد میدان ہوئی۔ 31 اکتوبر کو آبادان میں ذوالفقاری کے علاقے میں دشمن سے جھڑپیں ہوئیں اور دشمن عقب نشینی پر مجبور ہو گیا۔

آبادان شہر کا دفاع کرنے والے کم اور معمولی افراد نہ تھے بلکہ ان میں 151قلعہ(خرمشهر )، 165بکتر بند، 232 ٹینک (فوجی ڈویژن92) اور بڑی فوج کی ڈویژن77 کی برگیڈ2 کی بٹالین153، بحری فوج کے 200 کمانڈر، سپاہ پاسداران آبادان کے 350 فوجی، آبادان بسیج کے 2000 افراد، فدائیان اسلام گروپ کے تقریبا 200 افراد جو مختلف قصبوں سے سید مجتبی ہاشمی کی کمانڈ میں روانہ ہوئے، انقلاب اسلامی کمیٹی تہران کے 150 افراد، سپاہ پاسداران شیراز  کے 150 افراد، آبادان  کانسٹیبلری کے 70 افراد، آبادان اور قم بلدیہ سے کچھ افراد اور صوبہ "کہگیلو" اور "بویر احمد" کے دیہات سے متعدد افراد شامل تھے۔ آبادان شہر کے محاصرے کی وجہ سے اس علاقے میں آمد و رفت کا سلسلہ بندر امام خمینی ‌رح کی طرف سے تھا۔ بندر "چوئبدہ" کی طرف اسلحہ وغیرہ پہنچانے کے لئے کچھ گروہ رضاکارانہ طور پر تیار ہوئے؛ لوگوں کی کشتیاں اور لانچیں، بری افواج، فضائیہ اور بحریہ  کے ہیلی کاپٹر، نیز بندر گاہ امام خمینی کی جنگی کشتیاں بھی زیر استفادہ رہیں۔ "چوئبدہ" میں ہیلی پیڈ بنایا گیا۔ ہیلی کاپٹروں کی کارکردگی کی صلاحیت چونکہ وسیع پیمانے پر تھی اس لئے اسلحے کے ساتھ سپاہیوں اور دیگر اشیاء کا نقل و انتقال بھی انہی کے ذمہ تھا اور واپسی پر زخمیوں یا شہداء کو اور واپس لوٹنے والے سپاہیوں کو لے کر جانا پہلی ترجیحات میں ہوتا تھا۔ آبادان کے محاصرے میں ماہ شہر کی بندر گاہ آبادان تک پھیلی ہوئی تھی۔

25 اکتوبر1977 کو ڈویژن21 کی بٹالین 144 نے اہواز - آبادان روڈ کو آزاد کروانے اور آبادان کا محاصرہ ختم کرنے کے لئے آپریشن انجام دیا جو شکست سے دوچار ہوا۔5  نومبر 1980 کو دریائے کارون کے محاذ پر دشمن کو شکست دینے میں جب ایرانی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو امام خمینی ‌رح  نے محاصرہ توڑنے کے مقصد کو پورا کرنے کے باقاعدہ حکم دے دیا۔  فوج اور سپاہ  پاسداران مل کر ماہ شہر‌_آبادان روڈ پر "توکل" نامی آپریشن 10 جنوری 1981کو انجام دیا مگر یہ بھی ناکام رہا۔

اس محاصرے کے دوران شہر کے بنیادی ادارے جیسے بلدیہ، ٹیلی فون ایکسچینج، اور بجلی پانی کے ادارے کھلے تھے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے لیکن مُسلسل بمباری اور گولہ باری کی وجہ سے شہر کا انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو گیا۔ بہمن شیر کے کنارے پر واقع پانی کے فلٹر، آئل ریفائنریاں اور بلدیہ کے دفتر کو کافی نقصان پہنچا اور شہر کا پانی بھی بند ہوگیا تھا۔ اگرچہ پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی سپاہی پینے اور نہانے کے لیے دریائے بہمن شير کا پانی پینے پر مجبور تھے جو عراقیوں کے متعفن اجساد کی بو دیتا تھا۔ ان حملات نے واپڈا سٹیشنز کو بھی نقصان پہنچایا تھا جس سے شہر بھر کی بجلی بند ہوگئی۔ اس کے علاوہ دشمن کی فوج نے آبادان- اہواز روڈ اور آبادان -ماہ شہر روڈ پر قبضہ کرتے ہوئے بجلی کے ہائی وولٹیج لائینیں تباہ کر دیں جس کی وجہ سے شہر کے حساس ادارے جیسے ہسپتال، جنگی ادارے، اور کمانگ آفیسز جنریٹر استعمال کرتے تھے۔آبادان کی آئل ریفائنری آگ کی لپیٹ میں تھی لیکن کاریگر گاڑیوں کے لئے محفوظ ذخائر سے پٹرول لے رہے تھے۔ یہاں تک کہ اہواز اور اطراف کے محاذوں پر بھی یہیں سے پٹرول اور تیل سپلائی کیا جاتا تھا۔

اشیائے خورد و نوش کی قلت کے باعث سپاہی خشک روٹی اور دیگر چیزوں سے استفادہ کرتے تھے جو سمندری راستے سے ان تک پہنچتی تھیں اور سمندر کی نمی کی وجہ سے اکثر اوقات پھپھوندی زدہ ہو جاتی تھیں۔ غذایی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی طریقے اختیار کئے گئے، اشیائے خورد و نوش کے دکانداروں، میڈیکل سٹور کیپروں، نانبائیوں کو بلایا جاتا تھا، ان کے بازاروں کو ان کی موجودگی میں کھلوا کر موجودہ اشیاء کی فہرست لی جاتی اور نقد سامان خریدا جاتا، یہ بھی ایک راہ حل تھا۔ جنگی کے آغاز میں جو لوگ ہجرت کر گئے تھے، جگہ کا انتظام ہوتے ہی واپس آئے اور ماہ شہر سے سامان زندگی اٹھا کر کے لے گئے۔ البتہ اس کام کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا کام سامان لے جانے پر نظارت کرنا تھا۔

جنگ کے آغاز میں خرمشهر-آبادان روڈ کا کچھ حصہ عراقی فوج کے قبضے اور حملوں کی زد میں آیا جس کی وجہ سے ايرانی سپاہیوں کا وہاں سے گزر ناممکن تھا۔ فوج کے ڈویژن77 اور دیگر دستوں کے قیام کی جگہ آبادان کے اطراف میں اس طرح تھی کہ ہوائی رابطہ مہنگا اور خطرناک تھا جب کہ "ھور" اور تنگ آبی راستے مسافت کے اعتبار سے طولانی تھے، سو اس مشکل کو حل کرنے کے لئے 1980 میں موسم گرما کے شروع میں موسمی بارشوں کا زور کم کرنے کے لئے ڈویژن77 خراسان فورس کی انجینئرنگ بٹالین نے صوبہ فارس کے ادارہ "جہاد سازندگی" کی مدد سے ریت کے پانچ ہزار ٹرکوں کی مدد سے دفاعی لائنوں کے پیچھے ایک نیا روڈ بنایا جس کا نام "وحدت روڈ" رکھا گیا۔ جولائی1981 کے آخر میں دریائے بہمن شیر کے کنارے پر "آبادی ابو شانک" کو سہ راہ شادگان (آبادان -ماہ شہر روڈ سترہ کلومیٹر ) سے ملا دیا۔ اس راستے کے بعد فوجیوں اور ساز و سامان کی نقل مکانی میں تیزی آگئی ۔

فروری 1981 میں ڈویژن 77 نے آبادان اور خرمشهر کی کمانڈ سنبھالی اور آبادان کے محاصرے کو توڑنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ آپریشن "ثامن الائمہ" کے نام سے معروف ہوا اور اس کی بنیاد پر ڈویژن77 کی بریگیڈ1، 2 اور 3 نے سپاہ پاسداران کے دستوں کے ساتھ مل کر دریائے کارون کے مشرقی علاقے کو آزاد کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔  27 ستمبر 1981کی صبح کو اس ڈویژن کی برگیڈ1 نے "ذوالفقاری" کے علاقے، بریگیڈ 2 نے "فیاضیہ" کےعلاقے اور بریگیڈ 3 نے "دارخوین" کی جانب سے عراقی فوج پر حملہ کیا اور دو دن کی جنگ کے بعد دریائے کارون کی مشرقی جانب سے دشمن کی فورسز کو نکال باہر کیا۔ اس آپریشن کے اختتام پر عراقی قیدیوں نے ایرانی افواج کے اعلی افسران کے سامنے پریڈ کی اور بریگیڈیئر سید شہاب الدین جوادی نے عراقی قیدیوں کے لئے عربی میں تقریر کی اور یوں 349 دنوں کے بعد آبادان دشمن کے محاصرے سے آزاد ہو گیا۔ اس سے قبل بنی صدر کے دونوں صدارتی ادوار میں اس محاصرے کو توڑنے کے لئے دو آپریشن کئے گئے جو ناکام رہے۔ 22 جون 1981 کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے بنی صدر کو معزول کرنے کے بعد، امام خمینی ‌رح کے حکم پر 5 نومبر 1980 کو سپاہ اور عوام نے مشترکہ آپریشن انجام دیا اور بالآخر 349 روز بعد یہ محاصرہ ختم ہوا اور آبادان آزاد ہوا۔