اشخاص
رینالڈ ویکسن ریگن
فاطمہ دفتری
16 Views
رونلڈ ولسن ریگن (1911-2004)ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 40 ویں صدر تھے، جن کی صدارت کے سات سال ایران –عراق جنگ کے زمانے میں گزرے۔
رونالڈ ولسن ریگن 1911 میں امریکہ میں پیدا ہوئے۔ یوریکا کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، وہ 1932 سے 1937 تک اسپورٹس رپورٹر تھے۔ پھر 1937 میں اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا اور 1962 تک پچاس فلموں میں نظر آئے۔ 1947 میں وہ اسکرین ایکٹرز کمیٹی کے صدر بنے اور 1952 تک اس عہدے پر رہے[1]۔
1980 کے ریپبلکن پارٹی کنونشن میں، انہیں جارج ہربرٹ واکر بش کے مقابلے میں صدارت کے لیے نامزد کیا گیا، اور 1981 کے انتخابات میں، وہ اپنے ڈیموکریٹک حریفوں کو شکست دے کر ریاستہائے متحدہ کے صدر بن گئے[2]۔
ریگن کی صدارت کا آغاز ایران میں امریکی سفارت خانے کے عملے کی رہائی کے ساتھ ہوا، جنہیں 4نومبر 1979 کو امام خمینی کے حامی طلباء نے یرغمال بنا لیا تھا۔ یرغمالیوں کو لے جانے والا طیارہ 20 جنوری 1981 کو تہران سے روانہ ہوا، اور اسی دن ان کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی[3]۔
صدارتی انتخابات میں ریگن کا نعرہ سوویت یونین پر امریکی بالادستی کو بحال کرنا اور تیسری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایران عراق جنگ میں غیر جانبداری کا اعلان کرنے کے باوجود انہوں نے باقاعدہ بیان دیا کہ وہ جنگ کے نتائج سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے انہوں نے عراق کا ساتھ دیا اور اسے مالی اور عسکری مدد فراہم کی[4]۔ انہوں نے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک سے عراق کا نام نکال دیا اور عراق اور کویت سمیت خطے کے ممالک کو بھی مسلح کر دیا۔ انہوں نے سابق صدر جمی کارٹر کی طرف سے ایرانی فوجی سپیئر پارٹس کے 240 ملین ڈالر واپس کرنے کے وعدے سے بھی انکار کر دیا ۔ ریگن کے عہدہ سنبھالنے کے چند دن بعد، اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ نے اعلان کیا کہ وہ ایران کو سابقہ وعدوں یا معاہدوں کے تحت یا ایسی درخواستوں کے تحت کوئی فوجی سازوسامان فراہم نہیں کریں گے جن کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا تھا[5]۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے آپریشن سٹانچ کے تحت ممالک پر ایران کو ہتھیار اور فوجی ساز و سامان فروخت کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے[6]۔ ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو تیل کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور کیا اور ایران سے تیل کی درآمد پر پابندیاں عائد کر دیں[7]۔
امریکہ نے ایک طرف سے ممالک کو ایران کے ساتھ تجارت کرنے سے منع کیا ہوا تھا، تو دوسری طرف سے 25 مئی 1986 کو، اس نے سی آئی اے کے تجزیہ کار اور ریگن کے مشیر میک فارلین کی سربراہی میں ایک خفیہ وفد کو ہاک میزائلوں کے اسپیئر پارٹس کی کھیپ کے ساتھ تہران بھیجا[8]۔ اس وفد نے فریقین کے درمیان مسائل کے حل کے لیے ایرانی وفد کے ساتھ ایک منصوبے پر دستخط کیے؛ لیکن ان مذاکرات کو خفیہ رکھنے کی کوششوں کے باوجود اسی سال 4 نومبر کو امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ABC نے اس معاملے کا انکشاف کر دیا۔ ریگن نے ابتدا میں اس سے انکار کرنے کی کوشش کی اور اعلان کیا: "ہم دہشت گردوں کو کبھی کچھ نہیں دیں گے؛ کیونکہ اس سے دہشت گردی میں اضافی ہوگا۔"[9]لیکن آخر کار وہ اسے تسلیم کرنے اور اس کی ذمہ داری لینے پر مجبور ہوئے۔ اس اعتراف کے بعد، قومی سلامتی کے مشیر اور ان کے نائب کو برطرف کر دیا گیا، اور رابرٹ میک فارلین نے بڑی تعداد میں ویلیم گولیاں کھا کر خودکشی کر لی[10]۔
پابندیوں کے باوجود ریگن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اگرچہ اس نے 15 نومبر 1986 کو اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کئے بغیر جنگ ختم نہیں ہو سکتی اور مغربی ایشیا میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا، لیکن اس اعلان کے با وجود اس نے ایران کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا[11]۔
20 اپریل 1987 کو جب خلیج فارس میں تیل بردار بحری جیازوں کی جنگ تیز ہوئی تو کویت نے امریکہ سے اپنے جہازوں کی حمایت کرنے کو کہا۔ 21 مئی 1987 کو امریکہ نے کویتی جہازوں کی حمایت اور ان پر امریکی پرچم بلند کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔ حمایت کے اس اعلان کے بعد، 19 اکتوبر 1987 کو، کویتی آئل ٹرمینل پر دو جہازوںوں پر میزائل حملے کے جواب میں، امریکہ نے چار جنگی جہازوں سے رشادت (رستم) کے تیل کے پلیٹ فارم پر گولہ باری کی، جس سے ایران کو پانچ سوملین ڈالر کا نقصان پہنچا[12]
ستمبر 1987 میں، چھ امریکی ہیلی کاپٹروں نے بارودی سرنگیں بچھانے کے بہانے خلیج فارس میں ایران کےتجارتی جہاز "ایران اجر" پر حملہ کیا، جس میں عملے کے تین ایرانی ارکان شہید ہو گئے[13]۔ اسی سال 9 اکتوبر کو، امریکی ہیلی کاپٹروں نے سپاہ پاسداران کی چار گشتی کشتیوں پر حملہ کیا، جس میں سپاہ کے متعدد اہلکار شہید اور زخمی ہوئے جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت نے امریکی اقدام پر سخت تنقید کی[14]۔ یہاں تک کہ سابقہ امریکی صدر جمی کارٹر نے 21 اکتوبر کو ایک تقریر میں خلیج فارس میں ریگن کی پالیسیوں کی مذمت کی[15]۔
ان مذمتی بیانات کا خلیج فارس میں ریگن کی حکمت عملی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اپریل 1988 میں، امریکی جنگی جہازوں نے خلیج فارس میں ساسان، رشادت، سلمان، اور مبارک کے تیل کے پلیٹ فارمز اور ایرانی بحری جہاز سہند، جوشن اور سبلان پر حملہ کیا[16]۔ 15 مئی کو امریکہ نے عراق کے ساتھ مل کر خلیج فارس میں لارک آئل ٹرمینل پر حملہ کیا[17]۔
ایران کے خلاف امریکی دشمنی یکم جولائی 1988ء کو اس وقت اپنے عروج کو پہونچی جب خلیج فارس میں ایرانی اور امریکی جنگی جہازوں کے درمیان تصادم ہوا ، جس کے بعد 3 جولائی 1988 کو خلیج فارس میں ایرانی ایئربس کے مسافر بردار طیارے کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا، جس سے جہاز پر سوار 290 مسافر شہیدہو گئے[18]۔
11 نومبر 1988 کو، ریگن کی آٹھ سالہ صدارت ختم ہوئی، اور جارج ڈبلیو بش، نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد خطے میں ریگن پالیسیوں کو جاری رکھا[19] ۔ ریگن کئی سال الزائمر کی بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد 5 جون 2004 کو انتقال کر گئے[20]۔
[1] دانشنامه دانشگستر، ج9، تهران: مؤسسه علمی فرهنگی دانشگستر روز، 2010، ص104.
[2] طلوعی، محمود، فرهنگ جامع سیاسی، تهران: نشر علم، چ دوم، 1998، ص294.
[3] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، تهران: مرکز اسناد و تاریخ دیپلماسی، 2000، ص294؛ دانشنامه دانشگستر، ج9، ص104.
[4] اسدیان، امیر، سیاست امنیتی آمریکا در خلیج فارس، تهران: پژوهشکده مطالعات راهبردی، 2002، ص110ـ107.
[5] سابق، ص107 و 108.
[6] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص308.
[7] غضنفری، کامران، مداخلات، ج4 (نیمه پنهان56)، تهران: شرکت انتشارات کیهان، 2015، ص72
[8] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص323.
[9] سابق ، ص329 و 330.
[10] سابق ، ص333 و 334.
[11] سابق، ص331.
[12] طلوعی، محمد، صد سال صد چهره (تاریخ مصور قرن بیستم)، تهران: نشر علم، 1999، ص1029 و 1030
[13] غضنفری، کامران، مداخلات، ج4، ص69.
[14] سابق ، طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص337.
[15] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص337.
[16] غضنفری، کامران، مداخلات، ج4، ص70.
[17] سابق۔
[18] غضنفری، کامران، مداخلات، ج4، ص77.
[19] دانشنامه دانشگستر، ص104.
[20] باشگاه خبرنگاران جوان، 15/3/1392، کد خبر 4412209