اشخاص
احمد کشوری
ندا اربع
30 Views
احمد کشوری (1980-1953)، ایلام اور کرمانشاہ کے علاقوں میں فضائیہ کے کمانڈر تھے اور انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد ابتائی سالوں میں عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران ایلام میں شہید ہوئے۔
احمد کشوری جون 1953 میں صوبہ مازندران کے شہر "کیاکلا" میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسکول کی ابتدائی تعلیم "کیا کلا" کے خیام اسکول میں اور مڈل اور میٹرک کی تعلیم "سرپل تالار" اور "قنہ" شہر کے ہائی سکولز میں حاصل کی[1] ۔بابل شہر میں کشتی مقابلے میں گولڈ میڈل بھی جیتا[2]۔شہید کشوری نے 1972 میں، تہران یونیورسٹی میں فوڈ انڈسٹری کے شعبے میں داخلہ لیا[3]لیکن یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا[4]۔ پرواز کے شوق نے ان کو ایئر فورس کا حصہ بننے پر مجبور کیا[5]۔ اور تہران میں چھاونی نمبر06 میں چکے گئے۔ شہید کشوری ان سات افراد میں سے ایک تھے جنہیں پائلٹ کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔[6]
مارچ 1973کے آخر میں، انہیں پائلٹ ٹریننگ کورس پاس کرنے کے لیے اصفہان بیس بھیجا گیا اور پہلے چانس میں 19 دسمبر 1973 کو ہیلی کاپٹر پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ [7] وہ پہلے پائلٹ تھے جنہوں نے پہلی بار اکیلے ہیلی کاپٹر اڑایا۔ 1974 کے موسم گرما میں، انہیں پیدل دستوں کے شش ماہی ابتدائی تربیتی کورس کے لیے شیراز بھیجا گیا۔[8] رنگین کاغذ سے شہید کشوری نے ایک ہیلی کاپٹر ڈیزائن کیا اور اسے شیراز ایئر فورس بیس کی دیوار پر لگا دیا، جو بعد میں فضائیہ کا لوگو اور علامت بن گیا۔[9] 1974 کے موسم سرما کے وسط میں، اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد، وہ تہران واپس آئے اور ان کو کرمانشاہ جنگی گروپ میں کام کرنے کے لیے آرڈر آف ایئر فورس ہیڈ کوارٹر کے ذریعے اصفہان بھیجا گیا، لیکن کرمانشاہ چھاؤنی میں تعمیراتی کی وجہ سے وہ اصفہان میں ہی قیام پذیر ہوئے اور وہیں کوبرا ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت حاصل کی۔[10]
1975 کے آخر میں، شہید کشوری نے کرمانشاہ ایئر فورس بیس [11] میں شفٹ ہوئے اور 8 مئی 1975 کو تھرڈ لیفٹیننٹ کے عہدے کے ساتھ کوبرا پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ [12] فضائیہ کے مخیر افراد کے تعاون سے، انہوں نے خفیہ طور پر کرمانشاہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے ایک عطیہ فنڈ قائم کیا۔[13] 1976 میں، وہ کرمانشاہ سنگل بیس کمپنی [14]کے کمانڈر کے طور پر مقرر ہوئے اور چھاؤنی میں سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ فوجی چھاؤنیوں میں کتابچے تقسیم کرنے پر ان کو کئی بار تفتیش کا سامنا کرنا پڑا۔ [15]مارچ 1977 میں اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی کی۔ [16] اور خدا نے ایک بیٹی، مریم اور ایک بیٹے، علی سے نوازا۔[17]
1977 میں، کرمانشاہ ایئر بیس پر پائلٹوں اور تکنیکی عملے کا انچارج تھے [18]۔ انقلاب اسلامی کے دوران کرمانشاہ ایئر بیس میں قرآن کریم کی تدریس کا انعقاد ان کا پہلا قدم تھا۔[19] 11 فروری 1979 کے بعد، کردستان میں جب بدامنی پھیلی تو، شہید کشوری نے سنندج چھاؤنی کا محاصرہ توڑنے اور سقز، بانہ، مریوان اور سردشت کی چھاؤنیوں کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ [20]28 مارچ 1979میں، سنندج چھاؤنی میں بد امنی، فسادات اور لوٹ مار کو کنٹرول کرنے کے لئے چھاؤنی میں آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن امام خمینی رح کے اس بیان کے بعد انجام دینا طے پایا جس میں انہوں ملک میں موجود شرپسند گروہوں کو خبردار کیا۔[21]۔ [22]۔ وہ اس آپریشن میں زخمی ہوئے اور کرمان شاہ لوٹ گئے ۔[23]
23 مارچ 1979 کو وہ فوجی دستوں کو کرمانشاہ منتقل کرنے کے لیے دوبارہ سنندج چھاؤنی گئے۔ [24] 1979 کے موسم بہار میں، وہ "گہوارہ" اور مغربی اسلام آباد کی بلندیوں کے سرچ آپریشن کے انچارج تھے۔[25] 8 اگست 1979 کو جب ضد انقلاب گروہ نے پاوہ شہر اور چھاؤنی کو محاصرے میں لے لیا اور شہر ان کے قبضے میں جا رہا تھا، تو فوج کے مشترکہ ہیڈ کمانڈر، جنرل آفیسر ولی اللہ فلاحی کے حکم پر آپریشن کے لیے پاویہ روانہ ہو گئے۔ [26] پائلٹ سارجنٹ سٹاف جہاں شہید کشوری نے بطور پائلٹ خدمات انجام دیں، وہاں ان کو "مجاہدین کا کیپٹن" کہا جاتا تھا۔ [27] فضائیہ کی ٹیم کے ساتھ مل کر شہید کشوری،(کردستان چھاؤنی میں نا منظم جنگوں کے ادارے کے سربراہ) ڈاکٹر مصطفی چمران، اور ولی اللہ فلاحی نے ستمبر 1979 کو پاوہ شہر سے ضد انقلاب گروہ کو ختم کر دیا۔ [28] شہید کشوری نے کردستان شہر اور بانہ چھاؤنی سے ضد انقلابیوں کا صفایا کرنے کے لیے فضائیہ ٹیم آپریشن کی قیادت بھی کی، اور اسی آپریشن میں زخمی ہو گئے۔ [29]سقز-گردنہ خان محور سے بانہ تک آپریشن میں، انہوں نے بری فوج لشکر16 آپریشن میں مدد کے لیے مسلح ہیلی کاپٹروں کی قیادت کی، اور مغربی آپریشنز کے کمانڈر اور پائلٹ علی اکبر علی صیاد شیرازی اور پائلٹ علی اکبر شیرودی کی مدد سے اس درے کو کلیئر کیا[30]۔
27 مئی 1980 کو شہید کشوری سقز اور بانہ میں آپریشن کے لیے گئے جہاں ایک گولی ان کے ہیلی کاپٹر کو لگی جس سے کشوری زخمی ہو گئے۔[31] 22 ستمبر 1980 کو جب انہوں نے ایران پر عراقی حملے کی خبر سنی تو وہ تہران آرمی ہسپتال سے نکل کر کرمانشاہ ایئر فورس بیس پہنچ گئے۔[32] وہاں، فضائیہ کی طرف سے دو فائر ٹیموں کا انتخاب کیا گیا، ایک سرپلذهاب میں ابو ذر چھاؤنی لیے، جس کے سربراہ شیرودی تھے، اور دوسری قوچ علی چھاؤنی لیے ( جو آبنائے قوچ علی میں واقع تھی اور) شہید کشوری کے تحت نظارت تھی۔ [33] اگلے دن، ایلام کی سرحد پر کشوری کی کمان میں ایک جنگی آپریشن شروع ہوا۔ اس آپریشن میں سرپلذهاب کی طرف گیلان غرب محور پر عراقی ٹینکوں کا گروہ جو اسلام آباد کی طرف بڑھنے والا تھا، تباہ کر دیا گیا۔ [34] اسی طرح خطے میں ان کے فضائی حملوں نے "میمک" کی اسٹریٹجک بلندیوں کو بھی آزاد کردیا۔[35]
جنگ کے آغاز میں، کشوری نے "بکاو و بکش" کے نام سے ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔ ان کا کام دشمن کی فوجوں کو تلاش کرنا اور مارنا تھا۔ کشوری فضائی کارروائیوں میں حملہ آور ٹیموں کے کمانڈر تھے۔ [36] عراقی افواج کو پسپا کرنے کے مشن میں، جنہوں نے قصر شیریں سے سرِپل ذهاب تکپیش قدمی کر لی تھی، کشوری کےحکم کے مطابق، پائلٹ ٹیم علاقے میں گئی اور عراقی فوجیوں کے پہلے اور آخری دستوں کو مار کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا[37]۔ پہلے دن سے وہ ایلام کے آپریشنل علاقے میں داخل ہوئے، تو اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ لے کر گئے اور گورنر ہاوس میں رہائش اختیار کی [38]۔
کشوری کو 6 دسمبر 1980 کو میمک ریجن میں آپریشن کے لیے بھیجا گیا۔ صبح دس بج کر پچیس منٹ پر، ان کے ہیلی کاپٹر پر دو عراقی لڑاکا طیاروں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ان کا ہیلی کاپٹر "آبنائے بینا" میں گر کر تباہ ہو گیا [39]۔ ہیلی کاپٹر کے زمین پر گرتے ہی آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نتیجتا کشوری جل کر شہید ہو گئے۔[40]
شہید احمد کشوری کے تابوت کو ایلام، کرمانشاہ اور تہران لایا گیا اور پھر نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد 9 دسمبر 1980 کو تہران کے بہشت زہرا قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا[41]۔ اس شہید والا مقام کے اعزاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج نے 6 دسمبر کو "روز فضائیہ" کے نام سے موسوم کیا کمانڈر ولی اللہ فلاحی نے شہید کشوری کو "کردستان کا نجات دہندہ" کا لقب عطا کیا[42]۔
1993 میں، حسین قاسمی جامی کی ہدایات میں ڈرامہ سیریل "سیمرغ" بنایا گیا جس کے مرکزی کردار شہید پائلٹ کشوری اور شیرودی تھے۔ دسمبر 2012 میں، کیاکلا شہر کا نام بدل کر "سیمرغ" رکھ دیا گیا، جو سیمرغ ڈرامے سے لیا گیا تھا۔[43]
شہید کشوری کے ہیلی کاپٹر کی جائے حادثہ پر شہید احمد کشوری اور میمک کے شہداء کی یاد تعمیر کی گئی ہے۔
[1] شاهمحمدی، حجت، معصومی، سیدامیر، سیمرغ، تهران: هفت، 1999، ص11 و 12.
[2] فلاح، ایرج، آبآذری، مسعود، خانهای کوچک با گردسوزی روشن، تهران: یازهرا(س)، 2011، ص33 و 34.
[3] آبآذری، مسعود، چای آخر، تهران: آجا، 2010، ص40.
[4] معصومی، سیدامیر، صحیفه پرواز، تهران: حوزه هنری، 1990، ص233.
[5] شاهد یاران، ش114 و 115، فروردین و اردیبهشت 2015، ص1.
[6] آبآذری، مسعود، چای آخر، ص40 و 41.
[7] سابق، ص42 و 168.
[8] سابق، ص44 و 45.
[9] سابق، ص7.
[10]سابق، ص75.
[11] شاهد یاران، ص1.
[12] آبآذری، مسعود، چای آخر، ص167.
[13] شاهمحمدی، حجت، معصومی، سیدامیر، سیمرغ، ص13.
[14] شاهد یاران، ص16.
[15] توکلی، یعقوب، فرهنگنامه جاودانههای تاریخ، تهران: شاهد، 2003، ص329.
[16] آبآذری، مسعود، چای آخر، ص51 و 55.
[17] فلاح، ایرج، آبآذری، مسعود، خانهای کوچک با گردسوزی روشن، ص75.
[18] شاهد یاران، ص17.
[19] سابق، ص65.
[20] . سابق، ص1.
[21] . قضات، رحمان، آنها خودی نبودند، تهران: اطلاعات، 2010، ص65.
[22] شاهد یاران، ص19.
[23] قضات، رحمان، آنها خودی نبودند، ص69 و 70.
[24] . شاهد یاران، ص19.
[25] مؤذنجامی، عبدالحمید، بر بالهای سیمرغ، تهران: آجا، 2006، ص20.
[26] شاهد یاران، ص9.
[27] قضات، رحمان، آنها خودی نبودند، ص328.
[28] سابق، ص345.
[29] سابق، ص233 و 234.
[30] سابق، ص233.
[31] سابق، ص239 و 242 و 231.
[32] شاهد یاران، ص10 و 11 و 21 و 22.
[33] . سابق، ص25 و 69 و 72.
[34] سابق، ص10 و 11 و 21 و 22.
[35] سابق، ص 21 و 22 و 23.
[36] آبآذری، مسعود، عبور از نهایت، تهران: سازمان حفظ و نشر ارزشهای دفاع مقدس ارتش جمهوری اسلامی ایران، 2007، ص47.
[37] سجادیانصاری، علی، حسیناحمدی، علی، فرماندهان دفاع مقدس: نبوغ نظامی و خلاقیت، تهران: آجا، 2010، ص118 و 119.
[38] شاهد یاران، ص46.
[39] بهروزی، فرهاد، تقویم تاریخ دفاع مقدس، ج4؛ تثبیت متجاوز، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2006، ص344 و 345
[40] شاهد یاران، ص11.
[41] فلاح، ایرج، آبآذری، مسعود، خانهای کوچک با گردسوزی روشن، ص26 و 36.
[42] . شاهد یاران، ص1 و 8.
[43] سابق، ص55 و 39.