آثار
پلاک
زینب احمدی
2 Views
فلم "پلاک" کو ابراہیم قاضی زادہ نے 1985 میں بنایا تھا اور اس کا موضوع عراقی مقبوضہ علاقے میں آٹھ کمانڈوز کے داخلے کے بارے میں ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر اور ایڈیٹر ابراہیم قاضی زادہ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد سید صالحی اور منصور حاجیان، سکرین رائٹر مجتبی متولی اور ابراہیم قاضی زادہ، سنیماٹوگرافر رجب علی عبادی، اسسٹنٹ سنیماٹوگرافر شیر مراد گودرزی، ناظر نغمہ نگاران ایرج رضائی، میوزک مجید انتظامی، پوسٹر ڈیزائنر محمد علی حدت، پروڈیوسر ہادی مشکوہ اور اداکار حسین گیل، مصطفی تاری، آرش تاج تہرانی، عباس نوذری، حسین معلومی، رضا صفائی پور، نعمت افشاریان، عباس مختاری، رضا راد، لقمان نظیری، احمد بهروزی، رضا خرسندی، علی بیات، محمد آزادی، یوسف آذری، فریدون بخشایش، علی نظری، سید جلال طباطبائی، ناہید ظفر، رحیم دلجو اور دیگران شامل ہیں۔
یہ 98 منٹ کی فلم "فرہنگ فلم" کی پیشکش ہے جو 19 ستمبر 1986 کو لالہ، استقلال، ایشیا، صحرا، توسکا، سایہ، آستارا اور دیگر سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور اس نے 11,214,000 ریال کا بزنس کیا۔ [1] اس فلم نے فلم فیسٹیول میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔
کیپٹن ہاشمی کی کمان میں آٹھ کمانڈوز پر مشتمل ایک گروپ کو دشمن کے مقبوضہ علاقے میں داخل ہو کر، مورچوں اور بچھائی گئی بارودی سرنگوں والے علاقوں کا نقشہ تیار کرنے کا کام سونپا جاتا ہے۔ مشن مکمل ہونے کے بعد گروپ کے تمام ارکان، ان کے کمانڈر (حسین گیل) کے علاوہ، دشمن کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہو جاتے ہیں، اور کمانڈر جو اپنے ساتھیوں میں سے ایک کی لاش اٹھائے ہوئے ہے، تیار کردہ نقشوں کے ساتھ اپنے بیس کی طرف چل پڑتا ہے۔ [2]
اس فلم کی ابتدائی سکرین پلے مجتبی متولی نے "خورشید در شب" کے عنوان سے لکھی تھی، لیکن جو چیز بعد میں "پلاک" کے نام سے بنائی گئی، اس کا خاکے کے علاوہ اصل سکرین پلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فلم قتل و غارت اور جنگی لڑائیوں کا ایک مجموعہ ہے، جیسے مغربی ایکشن فلموں کے مناظر۔ یہ فلم ابراہیم قاضی زادہ کی پہلی اور اب تک کی آخری فلم ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ فلم ان مجاہدین کی کوششوں اور جانفشانی کی کہانی ہے جنہیں ایک پرکشش موضوع کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، لیکن اس میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ ان کمزوریوں میں فلم کے کرداروں کے درمیان مبہم تعلق شامل ہے۔ ڈائریکٹر ایک کردار کی ابتدائی تعریف میں ایک بات کہتا ہے اور بعد کے مناظر میں اسی کردار سے متعلق کچھ اور دکھاتا ہے جو اس کی پچھلی بات کی نفی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، وہ پہلے کمانڈو چنگیزی کو ایک رحمدل اور شاعرانہ مزاج انسان کے طور پر متعارف کرواتا ہے، لیکن بعد کے مناظر میں یہی کردار آسانی سے ایک خرگوش کی کھال کھینچ لیتا ہے اور ناظرین اس تضاد کو سمجھ نہیں پاتے۔ یا فلم میں بسیجی کردار کا رویہ ان بسیجیوں سے مماثلت نہیں رکھتا جنہیں ہم نے حقیقی دنیا میں دیکھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فلم اپنی بیان کاری میں مغربی فلموں جیسے ریمبو فلموں کی تقلید کرنا چاہتی ہے، لیکن یہ تقلید بہت کمزور ہے اور کرداروں کے جسمانی پہلو تک محدود رہ جاتی ہے، یعنی اس فلم میں ہیرو کی تعریف مغربی فلموں کے ہیروز جیسی ہے؛ ایسے ہیرو جو محض جسمانی صلاحیتوں کی بنا پر دوسروں سے برتر ہیں۔ جب کہ دفاع مقدس کے ہیروز ایک مختلف زاویے سے ہیرو کا لقب حاصل کرتے ہیں۔ ان ہیروز کی ایسی اقدار اور خصوصیات ہیں جو ہم مغربی جنگی فلموں کے ہیروز میں نہیں دیکھتے۔ شہادت پر یقین، مذہبی اصولوں کی پابندی، افراد کے درمیان اتحاد، اجتماعی اقدامات پر یقین؛ (نہ کہ انفرادی بہادری وغیرہ ) اور یہی خصوصیات انہیں مغربی فلموں کے جنگجوؤں سے ممتاز کرتی ہیں۔
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نے کمانڈوز کی بہت زیادہ جسمانی طاقت کو ان کے ہیرو ہونے کی وجہ کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے، گویا ناظرین ان کی غیر معمولی جنگ کا مشاہدہ کررہے ہوں ؛ مثال کے طور پر شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی اٹھا لیتے ہیں۔ البتہ، فلم "پلاک" دفاع مقدس کی بعض دیگر فلموں کی طرح محاذ اور جنگ کے منفی پہلو پیش نہیں کرتی بلکہ اسے قبول کرتی ہے، لیکن مسئلہ اسے یک طرفہ طور پر پیش کرنے میں ہے۔
یہ تمام مسائل ڈائریکٹر کے ایران کے محاذوں کے ماحول اور مجاہدین کے کردار اور حوصلوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر ڈائریکٹر فلم بنانے سے پہلے جنگ کے تصور اور محاذوں کے ماحول کے مختلف پہلوؤں سے کچھ آشنائی حاصل کر لیتا اور پھر اپنی کہانی کو پیش کرتا تو بہتر ہوتا ۔ [3]
[1] سالنامہ آماری فروش و سینمای ایران، 1990، 2016، صفحہ 13
[2] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران ـفیلم شناسی سینمای ایران 2004ـ2011، تہران، قطرہ، 1393، صفحات 100 اور 101
[3] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران 1979ـ1990، تہران، روزنہ، 2004 صفحات 424-426؛ ماہنامہ فلم، شمارہ 42اکتوبر 1986، صفحہ 50

