آثار

بہ نام پدر (والد کے نام)

زینب احمدی
2 Views

فیچر فلم "بہ نام پدر" 2005ء میں ابراہیم حاتمی کیا نے بنائی جس کا موضوع ایک مجاہد کی بیٹی کے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے بعد بارودی سرنگ پر پاؤں آ جانے کے حوالے سے ہے۔

فلم کے ہدایتکار اور اسکرپٹ نویس ابراہیم حاتمی‌کیا ہیں۔ معاون ہدایتکار کے فرائض پیام پارسا‌فر اور غلامعباس امینی نے انجام دیے۔ فلمبرداری کی ذمہ داری حسن کریمی کے سپرد تھی۔ منظرنامہ کےمنشی منیر قیدی تھے۔ آواز ریکارڈ کرنے والے مهران ملکوتی تھے۔ خصوصی اثرات جواد شریفی‌راد نے فراہم کیے۔ تدوین (ایڈیٹنگ) سهراب خسروی نے کی۔ پس منظر موسیقی محمدرضا علیقلی نے ترتیب دی۔ فلم کی لیبارٹری سیمایِ جمہوری اسلامی ایران تھی۔ فوٹوگرافی گلاره کیازند نے کی۔ پروڈکشن مینیجر جواد نوروز‌بیگی تھے۔ منصوبے کے مجری محمد پیر‌هادی تھے۔ فلم کا پوسٹر بهزاد خورشیدی نے تیار کیا۔اداکاروں میں پرویز پرستویی، مهتاب نصیرپور، گلشیفته فراهانی، کامبیز دیر‌باز، مهرداد ضیایی، افشین هاشمی، کاظم هژیر‌آزاد، میرطاهر مظلومی، شبنم مقدمی، سلیمه رنگزن، بهمن عیوق، امیر لک، یوسف جوکار اور دیگر شامل ہیں ۔

یہ 100 منٹ طویل فلم 9 اگست 2006ء کو سینما قدس، ایران، فلسطین، جمہوری، کارون، بہمن وغیرہ میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

ناصر شفیعی (پرویز پرستویی) جو دفاعِ مقدس کے دوران جنوب کے میدانوں اور ٹیلوں پر لڑنے والے مجاہد تھے، اب معدنیات کی دریافت کا کام کر رہے ہیں۔ ان کےادارے والے انہیں معدنیات کی دریافت پر پانچ فیصد کم کمیشن دینے پر مصر ہیں اور ناصر کوشش کر رہے ہیں کہ کان کو اپنے نام رجسٹرڈ کروائیں۔ ان کی بیٹی (حبیبہ) جو آثارِ قدیمہ کی طالبہ ہے، ایک تحقیقی دورے کے دوران اس وقت زخمی ہو جاتی ہے جب اس کا پاؤں ایک بارودی سرنگ  پر آ جاتا ہے جو اس کے والد نے جنگی سالوں میں ایک ٹیلے پر نصب کی تھی۔ ناصر اور اس کی بیوی راحلہ (مہتاب نصیرپور) جو کچھ عرصے سے علیحدہ رہ رہے ہیں، حبیبہ سے ہسپتال میں ملتے ہیں۔ وہ حبیبہ کو تہران کے ایک ہسپتال منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز پر سوار ہونے سے قبل، ناصر اور اس کا پرانا دوست (مہرداد ضیائی) پولیس اہلکاروں اور ادارے کے نمائندوں کی موجودگی میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ناصر معدنیات کے متعلق دستاویزات حوالے کر دیتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ حبیبہ کا پاؤں کٹ چکا ہے۔[1]

فلم "بہ نام پدر" نے فیسٹیولِ فجر کی چوبیسویں تقریب میں کل چار عناوین کے تحت ایوارڈ کی حقدار قرار پاتی ہے اور پانچ اعزازات اسے حاصل ہوتے ہیں۔ ابراہیم حاتمی کیا بہترین ہدایت کار ، کامبیز دیرباز بہترین معاون اداکار ، محمدرضا علیقلی بہترین پسِ منظر کی موسیقی اور سہراب خسروی بہترین تدوین کے اعزاز کے لیے نامزد ہوئے۔ ابراہیم حاتمی کیا نے بہترین فلم کا اعزاز جیتا، پرویز پرستویی کو بہترین مرکزی اداکار کا اعزاز ملا، مہتاب نصیرپور نے بہترین معاون اداکارہ ہونے پر اعزاز پایا، مہرداد میرکیانی نے بہترین چہرہ سازی  اور ابراہیم حاتمی کیا نے بہترین فلم بنانے کا اعزاز جیتا۔

ماہرین کے نزدیک فلم "بہ نام پدر" ساخت (فارم)، سکرپٹ اور ماحول کے لحاظ سے حاتمی کیا کی دیگر تخلیقات سے مشابہت رکھتی ہے۔ متعدد اشاریوں کے مطابق، فلم "بہ نام پدر" سے متعلقہ تخلیقات یہ ہیں: فلم "دریاچہ ماہی"، فلم "اشنوگل"، فلم "امروز"، فلم "باغِ آلوچہ" اور فلم "پاپیتال"۔[2]

بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ "بہ نام پدر" ایک جنگ مخالف اور سطحی فلم ہے؛[3] حاتمی کیا نے اس فلم میں وہ "خودآگہی" جو ان کی سابقہ فلموں میں تھی، سے فاصلہ اختیار کیا ہے اور ان فلموں کی جو "آژانس شیشہ ای" سے پہلے اور بعد میں بنی ہیں، کے درمیان ایک سرحدنظر آتی ہے۔ وہ "بہ نام پدر" اور "ارتفاعِ پست" جیسی فلمیں بنا کر اپنے لیے ایک نیا کردار و ماہیت تخلیق کرنا چاہتے ہیں؛ گویا کہ وہ اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے اپنا ماضی بھلا چکے ہیں۔[4]

اس فلم میں حاتمی کیا ہمیشہ کی طرح اپنی بات علامتوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ فلم کا آغاز ہی  اس سے ہوتا ہے کہ باپ زمین کھود رہا ہوتا ہے، اور بیٹی کا کام بھی زمین کھودنے اور کریدنے کا ہے۔ باپ پہاڑ یا ٹیلے میں سرنگ دباتا  ہے اور بیٹی کے پاؤں  تلے آ کر بھی ایک بارودی سرنگ پھٹتی ہے۔ بیٹی زمین کے نیچے سے گذشتہ ادوار کے آثار دریافت کرنے والی ہے اور باپ پہاڑ کے اندر سے خزانے اور معدنیات دریافت کر رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق، یہ حاتمی کیا ہی ہے جو اپنے بیان کردہ کرداروں کی زبان سے اپنی بات کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں  ااور بیانات ایسے ہیں جنہیں حاتمی کیا،حبیبہ اور اس کے والد ناصر کی زبان سے جاری کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں باپ اور بیٹی (حبیبہ) ایک دوسرے سے ملتے ہیں، بیٹی باپ سے کہتی ہے: "مجھے ایک بات کرنی ہے، کس نے کہا کہ جنگ ختم ہو گئی؟" باپ جواب میں کہتا ہے: "جنگ، امن، انسانیت، تہذیب۔۔۔ ان  سب کا تمہارے پاؤں سے کیا تعلق ہے؟" بیٹی: "آپ کو یاد ہے آپ کہا کرتے تھے: جو باپ لڑتا ہے وہ اپنے بچوں کی طرف سے بھی فیصلے کرتا ہے؟ کیا آپ نے نہیں کہاتھا کہ جنگ بندی ہی جنگ کا اختتام ہے؟! میں تولڑنےنہیں گئی تھی ۔۔۔ کسی نے بھی میری رائے نہیں پوچھی"۔ یہ مکالمے اس جنگ کے خلاف احتجاج کی بو رکھتے ہیں جس کے اثرات اب ناصر کی بیٹی کے پاؤں تک پہنچ چکے ہیں؛ اور اس سے حاتمی کیا کا اصل مقصد کیا ہے، واضح نہیں؟ کیا ان کا مقصد جنگ کی نوعیت پر اعتراض ہے یا ان کا ارادہ کچھ اور ہے! اس فلم میں جنگ کی حقانیت یا اس کے تسلسل پر بحث کرداروں کی زبان سے بیان کی گئی ہے۔ آیا  حاتمی کیا،ناصر کے کردار  میں جنگ کا نظریاتی بوجھ ایک محدود خاندانی صورتِ حال میں سمیٹ رہے ہیں اور جنگ میں جانے یا نہ جانے کو اپنی بیٹی کے پاؤں کی حالت سے جوڑ کر معنی دے رہے ہیں؟[5]

حاتمی کیا کے کرداروں نے 1990 کی دہائی کے بعد سے باطنی رجحان کو چھوڑ کر  ایک طرح سے سطی اور ظاہری لگاو اختیار کر لیا۔ سینما میں میلوڈرامہ کے ذریعے بات کرنا آسان ہوتا ہے اور حاتمی کیا جانتے ہیں کہ اس صنف کے انتخاب اور اپنے کرداروں کو مشکل صورت حال میں ڈال کر وہ انہیں ظاہر پرست بنا دیتے ہیں۔ اس فلم میں بھی کردار نعرے بازی کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، اپنا  غم وغصہ ناظرین تک منتقل کرتے ہیں اور اپنی تکالیف کا رونا روتے ہیں۔ کیا حاتمی کیا کا ارادہ اس فلم میں جنگ کے بعد کی نسل کو جنگ سے پہلے کی نسل کا شکار ثابت کرنا ہے؟ کیونکہ لڑکی کا پاؤں اسی بارودی سرنگ پر پڑتا ہے جسے اس کے والد نے جنگ کے دوران نصب کیا تھا! یہ فیصلہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ حاتمی کیا علامتوں اور اپنی فلموں کے اصل مقصد کے بارے میں بات نہیں کرتے۔[6]

اس سانحہ (بارودی سرنگ کے پھٹنے اور حبیبہ کے جان سے جانے کے خطرہ) کے مقابلے میں فلم کا واحد کردار جو مزاحمت کرتا ہے اور تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ اس کی ماں (مہتاب نصیرپور) ہے۔ ماں اس فلم میں بہت زیادہ اللہ پر بھروسہ رکھتی ہے اور باپ کے مقابلے میں کم شکایت  کرتی ہے۔

یہ فلم ایک عمدہ ساخت کا حامل میلو ڈرامہ ہے جو بعض سینمائی اقدار سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ناظرین کو اپنے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔ دو نسلوں کے درمیان کشیدگی اور تضاد نے اس فلم میں ایک پرکشش میلوڈرامہ کی بنیاد فرایم کی ہے۔[7]

 

[1] بہارلو، عباس، فیلم شناختِ ایران، (فلم شناسی سینمای ایران 2004-2011)، تہران، قطرہ، 2014، صفحہ 89-90

[2] https://www.manzoom.ir/

[3] فراستی، مسعود، فرهنگِ فلم ہای جنگ و دفاعِ ایران، تہران، ساقی، 2013، صفحہ 70

[4] اہنامہ تحلیلی سورہ، شمارہ 28، اکتوبر 2006، صفحہ 53- 55

[5] ماہنامہ فلم نگار، شمارہ 48، سال پنجم، ستمبر 2006، صفحہ 32-33

[6] سابق، شمارہ 52، سال پنجم، دسمبر 2006، صفحہ 68

[7] پندرہ روزہ فلم و سینما، شمارہ 169، 2006 کے اگست کا آخری اور ستمبر کا پہلا ہفتہ، صفحہ 27