آثار
پرچم دار
زینب احمدی
2 Views
فلم "پرچمدار" جو شہریار بحرانی نے 1363 میں بنائی تھی، کا موضوع دشمن کے نرغے سے ایک مجاہد کی رہائی اور پھر منافقین کے ساتھ جنگی تصادم ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر شہریار بحرانی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد حسنی مقدم، ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی عباس سلیمانی، اسسٹنٹ کیمرہ مین ناصر عرفانیان، سیکرٹری آف سیٹ عباس ناصری، ڈبنگ انچارج سعید مظفری، اسپیشل ایفیکٹس محمود پیراستہ، ایڈیٹر عباس سلیمانی، موسیقی حسین فرہاد پور اور علی شکوہی، شعر حجت اللہ گودرزی، ترانہ علی شکوہی، مینیجر آف لوجسٹکس بیژن خوش خرام، پروڈکشن مینیجر روح اللہ برادری، پراجیکٹ ایگزیکٹو ٹیلی ویژن گروپ شاہد اور اداکار عباس ناصری، احمد میرعلائی، رضا آقاربی، ناصر عرفانیان، حجت اللہ گودرزی، حسین فرخی، حسین بزرگمہر، مسعود توتونچیان، احمد بہمنی، ابراہیم بیات، ابوالفضل شاہ کرم، احمد حسنی مقدم اور دیگر شامل ہیں۔
یہ 95 منٹ کی فلم سینما گروپ شاہد کی پیشکش ہے جو 25 اردیبہشت 1364 کو آستارا، لالہ، یورپ، تہران، سایہ، سروش، استقلال، جمہوری، تیسفون اور دیگر سینما گھروں میں عوام کے لیے ریلیز ہوئی۔
علی نامی ایک مجاہد دشمن کے قبضے میں ہے۔ احمد کی قیادت میں پاسداران کا ایک گروپ بھیس بدل کر دشمن کے اڈے پر حملہ آور ہوتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں کو مار بھگانے کے بعد علی کو بچا لیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد علی اور احمد دارالحکومت میں شہری گشت کے لیے تعینات ہو جاتے ہیں۔ ایک بینک ڈکیتی کے دوران مجاہدین خلق کے اراکین کا ایک گروہ ان کی گشت پارٹی کے سامنے آتا ہے اور احمد کو شہید کر دیتا ہے۔ احمد کی شہادت علی پر گہرا صدمہ طاری کرتی ہے، لیکن علی آہستہ آہستہ اپنی چھوٹی بیٹی کی باتوں سے اپنا توازن واپس پا لیتا ہے اور پاسداران کے ایک کمانڈر کے ناکام قتل کی کارروائی کے دوران منافقین کو بھاری نقصان پہنچاتا ہے۔ [1]
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نے اس فلم میں گینگسٹر پولیس سینما کا ماڈل پیش نظر رکھا ہے اور معمولی اور سطحی فلم کے ساتھ جنگ اور مجاہدین خلق کی داستان بیان کی ہے۔ اس فلم میں اصل موضوع پولیس اور گینگسٹر سینما کے ماڈل کے استعمال کے باعث پس منظر میں چلا گیا ہے اور ناظرین جعلی تعاقب و گریز کے پرجوش اور شوروغل والے مناظر دیکھتے ہیں۔ مجاہدین خلق کی روایت کا طریقہ کار بھی ابتدائی اور سطحی ہے۔ مثال کے طور پر، جمہوری اسلامی کا ریڈیو سننے کی پاداش میں منافقین کے ایک فرد کی پٹائی، یا منافقین کے سردار کی بیوی کا عہدے اور درجے کے پیچھے بھاگنا وغیرہ، فلم کے آخری نتیجے، یعنی گرفتاری کے بعد منافقین کے موقف میں تبدیلی اور ہمت ہار کر surrender کرنے کے مقابلے میں یک طرفہ اور سطحی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ فلم کی روایت یکساں نہیں ہے اور اس کے پلاٹ میں وحدت اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ مثال کے طور پر، علی کے کردار کی شہادت کے لیے عدم تیاری اور اس کی چھوٹی بیٹی کی باتوں سے اس میں تبدیلی کو درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا ہے اور یہ بے ڈھنگی اور بےترتیب ہے، جس کی وجہ سے ناظرین کہانی کے بارے میں الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، فلم میں ناظرین کے ساتھ آسانی سے تعلق قائم کرنے کے لیے ایک صاف ستھری اور سیدھی سادی کہانی نہیں ہے۔ فلم میں ایک کے بعد ایک پیش ہونے والے واقعات ایک منطم، مربوط اور با مقصد کلیت میں ایک پرکشش اور دلچسپ اور ساتھ ہی گہرائی اور بامعنی پیغام رکھنے والی کہانی تخلیق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فلم ساز نے منافقین کی تنظیم کے معاملے کو بہت ابتدائی طور پر پیش کیا ہے اور اس کے treatment کا طریقہ کار بھی عجلت میں تیار کیا گیا ہے۔
بعض نقادوں کے مطابق ڈائریکٹر کا تعاقب و گریز کے مناظر پر انحصار کرتے ہوئے اتار چڑھاؤ پیدا کرنے پر زور بھی سینمائی میڈیم میں قابل ذکر کشش اور ایکشن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں سپاہ کے کمانڈر کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس قتل کا منظر جاندار اور پرجوش نہیں ہے، حالانکہ یہ فلم کے اہم اور اثر انگیز مناظر میں سے ایک ہونا تھا۔ کمانڈر بھی اپنے اداکاری کے ذریعے اس لمحے کے جذبات کو اجاگر نہیں کر سکا۔ ناظر دیکھتا ہے کہ کمانڈر اپنے گھر کے دروازے پر تردد اور شک کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی بیوی گھر میں مصنوعی اداکاری کر رہی ہے، حالانکہ اسے اپنی بیوی سے ملن کی خواہش کو ظاہر کرنا تھا، لیکن وہ دروازے پر رک کر کھڑی ہے۔ جس لمحے کمانڈر گھر میں داخل ہوتا ہے، اس کی طرف ایک گولی چلتی ہے ، اب گولی چلانے والا اور گولی کی سمت دونوں مبہم ہیں۔ مجموعی طور پر منظر درست اور قابل فہم طریقے سے پیش نہیں کیا گیا ہے اور ناظر فلم کے ماحول میں جذباتی طور پر شامل نہیں ہو پاتا۔ فلم میں اس قسم کے وہ مناظر جو ناظرین پر جذباتی اثر ڈالنے والے تھے، ضائع ہو گئے ہیں۔
اگرچہ فلم میں خامیاں ہیں، لیکن بعض کا خیال ہے کہ فلم میں کشش اور لمحہ بہ لمحہ جوش و خروش پیدا کرنے والے مناظر موجود ہیں جو کامیاب رہے ہیں، جیسے وہ منظر جس میں منافقین کی اسٹیشن ویگن ایک پیدل چلنے والے شخص کی کمر سے ٹکراتی ہے، یا وہ منظر جس میں اسٹیشن ویگن میں دھماکہ ہوتا ہے۔ [2]
بعض ناقدین کے مطابق فلم کا موضوع (اسیری) فلم ساز کے اس سے برتاؤ اور treatment کے ساتھ مکمل طور پر متضاد ہے اور اس پواری محنت کے نتیجے کودفاع مقدس کی عکاس فلم نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ فلم ساز کو اسیری اور تشدد کی حقیقی نوعیت کی کوئی سمجھ یا معلومات نہیں ہے اور محض کچھ فلمیں دیکھ کر اور اپنے ذہنی خیالات کی بنیادفلم بنا ڈالی ہے۔ فلم کے زیادہ تر مناظر جو واقعات میں لوگوں کی تفتیش اور تعاقب و گریز کے بارے میں ہیں، 60 کی دہائی کے فرسودہ نمونوں سے ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عراقی کے انٹرویو کا منظر انقلاب کی کامیابی کے بعد بننے والی فلموں کے ساواک کے انٹرویو لینے والوں سے ملتا جلتا ہے، اور حقیقی زندگی کے ماڈلز کے مطابق مناظر کی نمائندگی میں تخلیقی صلاحیت اور کوشش فلم میں کم نظر آتی ہے۔ [3]
[1] بہارلو، عباس، فلم شناخت ایران- فلم شناسی سینمای ایران (1993-1979)، تہران، قطرہ، 2013، ص 72
[2] ماہنامہ فلم، شمارہ 28، سال سوم، جون1985، ص 32
[3] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلم ہای جنگ و دفاع ایران1980-2012، تہران، ساقی، 2013، ص 77 اور 78

