آثار
پرستار شب
زینب احمدی
2 Views
فلم "پرستار شب" سن 1987 میں محمد علی نجفی نے بنائی تھی۔ یہ ایک عیسائی خاتون کی کہانی بیان کرتی ہے جوعراق کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی جنگ کے زمانے میں ایک جنگی زخمی کی ہسپتال میں دیکھ بھال کرتی ہے۔
"پرستار شب" 84 منٹ کی فلم ہے جو ادارہ بنیاد مستضعفان کی سینمائی سرگرمیوں میں سے ہے، اور یہ پیشکش 20 ستمبر 1988 کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر محمد علی نجفی ہیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر عباس اردکانی، سکرین رائٹر کیوان رہگذار اور محمد علی نجفی، سنیماٹوگرافر محمدرضا شریفی، سیکرٹری پریسا دمندان، ایڈیٹر تورج منصوری، ساؤنڈ آفیسر ہادی ژورک اور فریدون ربیعی، اسپیشل ایفیکٹس آفیسر ایرج صفدری، میوزک کمپوزر فرہاد فخرالدینی، پروڈکشن مینیجر صادق جلالی، اور اداکار مہناز افضلی، علی بے غم، قاسم صیف، شہلا ریاحی، مینا صارمی، سارا نجفی، حسین خانی بیک، اندرہ اندرہ یاسیان، نرسی کرکیا، حسن احسانیان اور دیگران شامل ہیں۔
محمد علی نجفی نے یہ فلم منیرو روانی پور کی داستان "آب" سے اخذ کی ہے۔ تاہم فلم "پرستار شب" میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں جس پر منیرو روانی پور نے اعتراض کیا۔ ان کا اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کی سکرین پلے کو نرسوں اور جنگ زخمیوں کے پوسٹ کارڈز میں تبدیل کر دیا گیا، اور انہوں نے عوام سے معافی مانگی۔ محمد علی نجفی نے روانی پور کے اعتراض کے جواب میں کہا کہ "آب" کا سکرین پلے اچھا ہے لیکن "پرستار شب" اس سے بہت مختلف ہے، اس لیے یہ کسی دوسرے ڈائریکٹر کے ذریعے بنائی جا سکتی ہے۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک زخمی فوجی (علی بے غم) کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک عیسائی خاتون ماری (مہناز افضلی) کو سونپی جاتی ہے۔ نرس کو لگتا ہے کہ زخمی کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔ ماری جو ایران چھوڑنے کا ارادہ رکھتی تھی، نوجوان کو دیکھ کر اپنا اراداہ بدل دیتی ہے۔ زخمی کو 48 گھنٹے تک پانی پینے کی اجازت نہیں ، اور یہ بات اس کی شہادت کا باعث بن سکتی ہے۔ اس دوران نرس یہ یاد کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور دیتی ہے کہ اس نے اسے کہاں دیکھا ہے !؟ زخمی فوجی کے بیگ سے ملنے والے خطوط پڑھ کر ماری کو مزید قربت کا احسا ہوتا ہے، وہ یادوں میں کھو جاتی ہے اور روحانی دنیا کا خیالی سفر اسے ایک نئی زندگی سے آشنا کرواتا ہے، البتہ وہ فوجی شہید ہو جاتا ہے۔ ماری اس نتیجے تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ فوجی اس کے ایک جاننے والے کا پیغام لے کر آیا تھا جو محاذ جنگ پر شہید ہوا تھا۔[1]
سن 1988 میں، اس فلم نے 578,214 ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس نے 77,592,150 ریال کی کمائی کی۔[2]
فلم "پرستار شب" مجموعی طور پر 5 عناوین کے ساتھایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی اور 3 عناوین میں ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہی۔ محمدرضا شریفی بہترین سنیماٹوگرافی کے ا ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے، تورج منصوری بہترین ایڈیٹنگ کے ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے، فرہاد فخرالدینی نے بہترین فلم میوزک کا ایوارڈ جیتا، محسن ابراہیمی نے بہترین آرٹ ڈائریکشن اور کاسٹیوم ڈیزائن کا ایوارڈ جیتا، اور سعید جلالی نے اسی حوالے سے فلم "پرستار شب" کے لیے ایوارڈ جیتا۔[3]
تنقید نگاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، اس فلم میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ فلم ساز کے رواحانی خیالات کا سفر ہے جو وہ ناظرین پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ زخمی فوجی کے بیگ سے ملنے والی صلیب اس کے ہم مذہب ہونے کی علامت ہے جو ماری کے ساتھ ہمدردی اور قربت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اس دوران نرس کو پتہ چلتا ہے کہ فوجی(علی) کی تصویر حضرت عیسیٰ کے تصور سے ملتی جلتی ہے۔
فلم کے واقعات کا وقت ناظرین کے لیے نامعلوم ہے، اور یہ سنیما میں وقت کی غیر موجودگی کے منطق سے مختلف ہے، جبکہ وقت کی غیر موجودگی کی اپنی ایک خاص منطق ہونی چاہیے جسے ڈائریکٹر نے اس فلم میں ظاہر نہیں کیا ہے۔ شاید ڈائریکٹر کی غیرافسانوی سنیما میں دلچسپی کی وجہ سے ہے کہ وہ واقعات کی ترتیب کو درہم برہم کر کے اپنی کہانی کے واقعات کو اس قسم کے سنیما کے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ناظرین واقعات کے درمیان منطقی تعلق قائم نہیں کر پاتے کیونکہ ڈائریکٹر اس تعلق کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کر سکا۔[4]
اس فلم میں ڈائریکٹر کا مقصد ایک رومانی، صوفیانہ اور شاعرانہ تخلیق بنانا تھا لیکن وہ اس میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ فلم نہیں ہے بلکہ زیادہ تر شکل و صورت میں الجھی ہوئی ہے اور سمجھ سے مناظر دکھا کر وہ ماری کے تبدیلی کے تصور کو بتدریج ناظرین میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ ناظرین ان خوبصورت لیکن مبہم مناظر کے ساتھ تعلق نہیں قائم کر پاتے۔ اس کی ایک وجہ ڈائریکٹر کا پیچیدہ غیر افسانوی سنیما پر عبور حاصل نہ کرنا ہے۔
اس فلم کا ڈائریکٹر کوشش کر رہا ہے کہ اپنی فلم کے کرداروں کی زندگیوں سے اعتقادی، سماجی اور ثقافتی سرحدوں کو ہٹا دے اور تنہا اور خون آلود گھوڑے (واقعہ کربلا کی علامت) اور صلیب (حضرت عیسیٰ سے منسوب علامت) اور کئی دوسرے اشاروں کی تصاویر لا کر مذہبی تفریق کو ختم کرے اور انسانیت پر توجہ مرکوز کرے (انسان کو ایک الہی وجود کے طور پر پیش کرے)، لیکن فلم "پرستار شب" موضوع (جنگ، تصوف و روحانیت، محبت وغیرہ) پیش کرنے میں بھی ناکام رہتی ہے اور گہرے اور فلسفیانہ مواد کو بیان کرنے کے لیے مناسب شکل ڈھونڈنے میں بھی نتیجہ نہیں دے پاتی۔ اس کے باوجود، "پرستار شب" میں بہت سی بصری خوبیاں ہیں جن میں خوبصورت کمپوزیشن، تخلیقی لائٹنگ، مختلف فضا اور روشنی اور رنگ پر عبور شامل ہے۔ ڈائریکٹر کی اپنے مذہبی خیالات کو ان دلکش تصاویر کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ، اسے اپنے موضوع کے لیے ایک مناسب زبان اور اظہار کا طریقہ نہیں ملا اور بکھری ہوئی باتوں سے وہ اپنے ناظرین کو الجھا دیتا ہے۔[5]
[1] بہارلو، عباس، فلم شناخت، تہران، قطرہ، 2011، صفحہ 147 اور 148
[2] ایرانی فلم اور سنیما کی سالانہ شماریاتی سالانہ رپورٹ، سن 1988، صفحہ 8
[3] سنیما ویب سائٹ منظوم https://www.manzoom.ir
[4] "فلم "پرستار شب" پر تنقیدی جائزہ "، ، 27 اکتوبر 1988، صفحہ 1
[5] - امید، جمال، ایرانی سنیما کی تاریخ، تہران، روزنہ، 2004، صفحہ 629-633

