اشخاص
علیرضا ماھینی
ہدیٰ موسوی
26 دورہ
علیرضا ماہینی (1981-1956)، "مرکزی ادارہ ڈاکٹر مصطفی چمران برائے جنگہائے نامنظم" میں جزوی کمانڈر اور "طریق القدس " آپریشن میں کمانڈر تھے اور آپریشن آبنائے چزابہ میں ان کی شہادت ہوئی۔
علیرضا ماهینی مارچ 1956 بوشہر بندرگاہ سے چھ کلومیٹر جنوب میں "جلالی" گاؤں میں پیدا ہوئے۔[1] اپنی ابتدایی تعلیم بوشہر کے ایک پرائمری اسکول میں اور میٹرک اخوت اسکول میں مکمل کی۔ انہوں نے بوشہر کے حاج جاسم بوشہری انسٹیٹیوٹ میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور الیکٹریکل ڈپلومہ حاصل کیا۔ [2] انہیں تہران یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں الیکٹرانکس کے شعبے میں داخلہ دیا گیا، لیکن ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، اور پھر انہوں نے ایران مہر یونیورسٹی میں الیکٹرانکس کے شعبے میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی، انہوں نے پہلوی حکومت کے خلاف سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں جن میں گوریلا ٹریننگ اور گروہی کوہ پیمائی شامل ہیں۔[3]
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد، انہوں نے تہران میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا، جو 198میں پہلوی حکومت کے خلاف عوام کی انقلابی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی تھا۔ اس وقت انہوں نے سیاسی مظاہروں اور امام خمینی رح کے اعلامیوں کی تقسیم میں حصہ لیا۔ [4] انقلاب کی فتح کے بعد، انہوں نے سعادت ہائی اسکول اور حاج جاسم بوشہری سکول میں کچھ عرصہ پڑھاتے رہے۔ [5]
1990 میں ایران کے خلاف عراق-ایران جنگ کے ابتدائی ایام میں، وہ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے "نا منظم جنگوں کے ہیڈکوارٹر" گروپ میں شامل ہوئے [6] اور اس ہیڈکوارٹر میں، وہ بوشهر صوبے میں رضاکار فورسز کو بھرتی کرنے کے انچارج کے طور رہے۔ [7] پھر جکد ہی ڈاکٹر مصطفی چمران ان کو ادارہ برائے جنگہائے نامنظم کی آپریشنل بٹالین کا کمانڈر بنا دیا۔[8]
5 جنوری 1981 کو، وہ اپنے فوجی دستوں کے ساتھ "کوہہ حمیدیہ" گاؤں سے "ہوویزہ" کی طرف نصر آپریشن کی کارروائی اور ہوویزہ کی آزادی کے لیے روانہ ہوئے لیکن ہوویزہ سے چالیس کلومیٹر دور "فرسیہ" میں گولہ بارود کی کمی اور دشمن کے بھاری حملے کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ [9]
خرادا کے آخر میں، ایک گروہ کے ساتھ دهلاویه آپریشنل ایریا کی شناخت کے لیے روانہ ہوئے[10] اسی سال 11 جون کو، ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے ادارے برائے جنگہائے نا منظم نے دریائے "کرخہ" کو عبور کرتے ہوئے، عراقی افواج پر حملہ کیا اور دهلاویه کے علاقے کو آزاد کرایا۔ لیکن وہ اس علاقے کو زیادہ دیر محفوظ نہ رکھ سکے اور دشمن کی بھاری کارروائی کے سبب، آخر کار ایرانی فضائیہ کی برگیڈ55 کی مدد سے پیچھے ہٹ گئے اور دهلاویه سے 300 میٹر کے فاصلے پر پڑاو ڈالا۔ [11]
21 جون 1981 کو ڈاکٹر مصطفیٰ چمران دهلاویه کے محاذ پر مارٹر گولے کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ [12] علی رضا ماہینی بھی پیٹ اور دائیں کندھے میں گولی لگنے سےزخمی ہوگئے [13] لیکن ہسپتال میں ایک دن داخل رہنے کے بعد دوبارہ محاذ پر لوٹ گئے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی شہادت کے بعد، ادارہ برائے جنگہائے نامنظم کے ایک حصے کی کمان علی رضا ماہینی کو سونپی گئی۔ [14]
30 نومبر 1981 کو "طریق القدس" آپریشن شروع ہوا۔ علی رضا ماہینی اس آپریشن میں ایک محاذ کے کمانڈر تھے [15] [16] اور دریائے سابلہ کی جانب سے سے دشمن کی طرف پیش قدمی کی[17]۔ اس آپریشن میں ماہینی کا پاؤں زخمی ہو گیا ۔[18]
آپریشن طریق القدس کے بعد، مذکورہ "ادارہ برائے جنگہائے نا منظم" کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کی افواج اور سہولیات کو اسلامی انقلابی گارڈ کور کو منتقل کر دیا گیا۔ [19]علی رضا ماہینی نے مرکزی رضا کار ادارہ بوشھر کی مدد سے محاذ پر جانے کا اقدام کیا۔ فوجی دستوں وں کو بوشہر سے شہید دستغیب کازرون کے تربیتی کیمپ میں بھیجا گیا۔ 20 روزہ تربیتی کورس کے بعد، علی ضا ماہینی، کچھ فوجی دستوں کے ساتھ، شہید بہشتی چھاونی گئے، جو اہواز کے جنوب میں واقع تھی ۔[20]
عراقی فوج نے 5 فروری 1982 کو آبنائے چزابہ میں ایک بھاری حملہ کیا۔[21] عراقی فوج کے اس اقدام کے مقابلے میں 6 فروری 1982 [22]کو چزابہ ایر ڈیفنس سسٹم نے سپاہ پاسداران اور ایرانی مسلح افواج کی مدد سے جوابی کارروائی کا آغاز کیا [23] ۔ اسی کارروائی میں 12 فروری 1982 کو وہ سر میں چھرے لگنے سے شہید ہو گئے ۔[24] ان کا پیکر خاکی بوشہر منتقل کیا گیا، اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد وہیں دفن کیا گیا۔
ان کی شہادت نے بوشہر افواج کے درمیان ایک نئی تحریک کو جنم دیا اور ان کی آخری رسومات کے بعد بوشہر سے فوجیوں کی دو سے زیادہ بٹالین کو محاذ جنگ کی جانب روانہ کیا گیا۔ [25]
[1] دفتر پژوهشهای فرهنگی بنیاد شهید و امور ایثارگران، فرهنگ اعلام شهدای استان بوشهر، ج3، تهران: شاهد، 2014، ص197.
[2] ماهینی، اسماعیل، شهید دکتر چمران و مالک اشتر، قم: امیرالعلم، 2014، ص42.
[3] بختیاری دانشور، داوود، بچهمحله جلالی، تهران: سوره مهر، 2007، ص20.
[4] هیئت رزمندگان اسلام شهرستان بوشهر، غروب چزابه، ستاد برگزاری یادواره سردار جنگهای نامنظم شهید علیرضا ماهینی، تهران: ستاد برگزاری یادواره، 1996، ص14؛ شکوهی، جمشید، با پای خسته رفتن، بوشهر: شروع، 2003، ص11.
[5] شکوهی، جمشید، با پای خسته رفتن، ص11 و 12.
[6] هیئت رزمندگان اسلام شهرستان بوشهر، غروب چزابه، ص15.
[7] ماهینی، اسماعیل، پیشتازان فتح، ج1، قم: امیرالعلم، 2013، ص95.
[8] ماهینی، اسماعیل، شهید دکتر چمران و مالکاشتر، ص45ـ43.
[9] شکوهی، جمشید، با پای خسته رفتن، ص36 و37.
[10] سابق، ص87ـ58.
[11] جعفری، مجتبی، اطلس نبردهای ماندگار، تهران: سوره سبز، چ سیوپنجم، 2011، ص58.
[12] علایی، حسین، روند جنگ ایران و عراق، ج1، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 2013، ص315.
[13] اهینی، اسماعیل، شهید دکتر چمران و مالک اشتر، ص87ـ58.
[14] ختیاری دانشور، داوود، بچهمحله جلالی، ص10 و 11.
[15] ماهینی، اسماعیل، شهید دکتر چمران و مالک اشتر، ص66.
[16] بختیاری دانشور، داوود، بچهمحله جلالی، ص30.
[17] ماهینی، اسماعیل، شهید دکتر چمران و مالک اشتر، ص68.
[18] هیئت رزمندگان اسلام شهرستان بوشهر، غروب چزابه، ص144 و 145.
[19] نبی، کریمی و بهروزی، فرهاد، تقویم تاریخ دفاع مقدس، ج18: نبرد چزابه، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2006، ص416.
[20] شکوهی، جمشید، با پای خسته رفتن، ص74.
[21] علایی، حسین، روند جنگ ایران و عراق، ص394.
[22] جعفری، مجتبی، اطلس نبردهای ماندگار، ص70.
[23] سابق، ص72.
[24] دفتر پژوهشهای فرهنگی بنیاد شهید و امور ایثارگران، فرهنگ اعلام شهدای استان بوشهر، ص197.
[25] شکوهی، جمشید، با پای خسته رفتن، ص77 و 78.