آپریشنز
آپریشن فتح 10
اعظمسادات حسینی
13 دورہ
آپریشن فتح 10، اگست/ستمبر 1987ء میں عراق کے صوبہ اربیل کے شمال مشرق میں کیا گیا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رمضان کیمپ کے تحت کمانڈروں اور فورسز نے اس گوریلا آپریشن کی منصوبہ بندی کی اور عملی جامہ پہنایا۔
آپریشن میں سپاہ کی زمینی افواج کی 58ویں مالک اشتر بریگیڈ کی فورسز، انقلاب اسلامی عراق کی سپریم مجلس کے مجاہدین اور عراقی کرد حزب اللہ پیشمرگہ (کرد مسلح گروہ) کے کے دستے شامل تھے۔ اس آپریشن کے انجام دینے کا مقصد عراق کی جانب سے ایرانی شہری مراکز پر بمباری اور کردوں کے دیہاتوں پر گولہ باری کا جواب دینا تھا۔ شمالی محاذ میں کئی اہداف سامنے رکھے گئے تھے جن میں سے ایک حصہ سرحدوں کو محفوظ بنانا تھا۔ شمالی محاذ کے دوسرے اہداف میں انقلاب مخالف قوتوں اور دراندازی کرنے والے عناصر کے راستوں کو بلاک کرنا شامل تھا۔ سرحدی گزرگاہوں کو بند کر کے دشمن کی کسی بھی غیر منظم کارروائی کو محدود کر دیا گیا۔ گھات لگانے، قتل و غارت، اغوا، بم اور بارودی سرنگیں بچھانے کے واقعات بہت کم ہو گئے۔ اس کے علاوہ کرکوک، اربیل اور سلیمانیہ میں عراق کے اقتصادی وسائل اور تنصیبات کی موجودگی اس محاذ کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اربیل میں آپریشن سے بحیرہ روم میں ترکی کے ساحلوں پر عراقی تیل کی منتقلی کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی اور سلیمانیہ پر قبضہ کرکوک کی جانب ایک قدم ہونے کے ساتھ ساتھ کرد مخالفین کا عراقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا باعث بن گیا۔
1985ء کے موسم خزاں کے بعد سے، عراق مخالف کردوں کی ایرانی مسلح افواج کے ساتھ تعاون کے لیے سنجیدہ تیاری کے اعلان کے ساتھ، سپاہ پاسداران نے رمضان کیمپ قائم کیا تاکہ غیر منظم جنگوں کی راہ ہموار کی جاسکے اور شمالی محاذ پر جارحانہ قوت کے تعقب کی اسٹریٹجی بنائی جاسکے۔ اِس طرح آپریشن کے لئے وقت کی محدودیت سے صرف نظر کیا گیا اور ایرانی مسلح فورسز نے کوششیں شروع کردیں تاکہ سردیوں میں بھی شمالی محاذ کو زندہ رکھا جا سکے۔ عراقی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی(بارزانی) میں مخالف قوتیں کہ صوبہ اربیل کا علاقہ اُن کے زیر اثر شمار ہوتا تھا، اِس سیکٹر میں جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ تعاون میں سب سے زیادہ حصہ رکھتی تھیں اور رمضان کیمپ کی کمان میں سپاہ اور اِس کیمپ کی کمانڈو یونٹوں کے ساتھ کئی کاروائیوں میں حصہ لیا۔ پیٹریاٹک یونین کردستان عراق(طالبان) نے رمضان کیمپ کی کمان میں سلیمانیہ اور کرکوک سیکٹروں میں ہونے والی کاروائیوں میں زیادہ حصہ لیا۔
گوریلا آپریشن فتح 10 بروز جمعہ4 ستمبر 1987ء کو صبح 1:45 یا ابا عبداللہ الحسین ؑ کے کوڈ سے شروع ہوا۔ یہ آپریشن بھی فتح کے دوسرے سلسلے کی طرح عراق کے شمالی محاذ کی گہرائی میں اور کردنشین صوبے اربیل کے شمال مشرقی سیکٹر میں سیدکان کے عمومی علاقے میں کیا گیا۔ آپریشن کے ابتدائی گھنٹوں میں ایرانی فورسز نے اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں اور کوڈ کے اعلان کے ساتھ ہی، چھپنے اور دشمن کو غافل کرنے کے اصول کو اپناتے ہوئے عراقی سرزمین میں داخل ہو گئے۔ ایرانی فورسز کی کارروائی کی رفتار کے ساتھ گوریلا جنگ کی جدید حکمت عملی اس آپریشن کا کامیاب آغاز تھا۔ اِس اچانک غافل کرنے دینے والے حملے میں اِس علاقے کی چوٹیوں 1636، 1962، 1185، 1198 اور 1096 میں 36 سیکیورٹی اڈے اور لائٹ بٹالین کا کمانڈ ہیڈکوارٹر ایرانی فورسز کے مکمل کنٹرول میں آگئے۔ اس کے علاوہ 15 فوجی گاڑیوں اور کئی عراقی ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کو آگ لگا دی گئی اور پانچ سو سے زیادہ عراقی فوجی ہلاک، زخمی اور گرفتار کرلئے گئے۔ عراقی فوج کی 5ویں کور کے 33ویں ڈویژن کے ڈپٹی آرٹلری تھرڈ لیفٹیننٹ عبدالعزیز نفل کو بھی ایرانی فورسز نے قیدی بنالیا۔ عراقی فوج کے 45ویں ڈویژن کی کمان میں لائٹ بٹالین کے ہیڈ کوارٹر کی مکمل تباہی، جس کے ذمہ آپریشنل علاقے کی کمانڈ تھی، فتح 10 آپریشن کی دیگر کامیابیوں میں سے ہے۔ اس کارروائی میں ایرانی فورسز پندرہ ہلکی اور بھاری گاڑیوں، چار انجینئرنگ گاڑیوں، گولہ بارود کے تین بڑے گوداموں، متعدد انفرادی ہتھیاروں، اور عراقی ٹیلی کمیونیکیشن کے آلات کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور سازوسامان کی ایک بڑی مقدار جن میں درجنوں کاریں، انفرادی ہتھیار، گولہ بارود اور متعدد طیارہ شکن توپیں شامل ہیں، غنیمت کے طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔