آپریشنز

آپریشن نصر

سعید علامیان
16 دورہ

آپریشن نصر 5 جنوری 1981ء کوجمہوری  اسلامی کی فوج کی کمان میں اور سپاہ پاسداران انقلاب، بسیج اورغیرمنظم جنگوں کے ہیڈکوارٹر کی فورسز  کے ساتھ مل کر ھویزہ  اور کرخہ کور کے جنوبی علاقے اور اھواز کے جنوب میں فارسیات کے علاقے میں شروع ہوا۔ یہ آپریشن جو ابتدا میں انتہائی کامیاب رہا تھا، عراقی فوج کے جوابی  حملوں  کی وجہ سے ناکام ہوا اور بالآخر 9 جنوری کو ایرانی مجاہدین کی پسپائی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

17 نومبر 1980ء کو سوسنگرد کی آزادی کے آپریشن کے بعد عوام، حکام اور مذہبی رہنما عراق کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنا چاہتے تھے اور لوگوں کی یہ خواہش جو  میڈیا، تقریروں اور نماز جمعہ کے خطبوں میں پیش کی جا رہی تھی، اِسے فیصلہ سازی کے مراکز بشمول دفاع کی سپریم کونسل میں پیش کیا گیا۔  اس کے بعد، اُس وقت کے صدر اور کمانڈر انچیف ابوالحسن بنی صدر نے 17 دسمبر 1980ء کو فوج کی زمینی افواج کی کمانڈ کو ایک جارحانہ کاروائی کے منصوبے سے متعلق حکم دیا گیا۔ ’’ جمہوری اسلامی ایران کی زمینی افواج کی فورسز کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ دفاع کی سپریم کونسل کی جانب سے منظور شدہ پلان کے مطابق  فوراً اھواز کے عمومی علاقے میں جارحانہ آپریشن کی قیادت کرے اور  کرخہ کور-دب حردان کے علاقے میں دشمن کو تباہ کر ے اور  اس فورس کے منظم کرنے کے منصوبوں، باڈر لائن کی مرمت  اور دستور کے مطابق جارحانہ آپریشن کو دشمن کے علاقے میں لے جانے کے لئے تیار ہو جائے  تاکہ مذکورہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ یعنی یہ حملہ ایک ہفتے کے اندرہونا چاہیے۔   

نصر کا آپریشنل کا علاقہ مغرب سے سوسنگرد-ھویزہ روڈ، مشرق سے دریائے کارون، شمال سے حمیدیہ-سوسنگرد روڈ  اور جنوب میں اہواز سے چالیس کلومیٹر جنوب میں حمید گیریژن روڈ تک محدود تھا۔ دریائے کرخہ کور اس علاقے کے مرکز میں واقع ہے اور اس کے شمالی کنارے کے ایک حصے پر عراقیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ حمید گیریژن ، جو کہ اصل ہدف تھی، اس علاقے کے جنوب مشرق میں واقع تھی۔

نصر آپریشن میں زمینی فوج کی فورسزکا مشن کرخہ کور اور اھواز کے جنوب مغربی علاقے میں عراقی فورسز کو تباہ کرنا تھا۔  اس مشن میں 92ویں اور 16ویں آرمرڈ ڈویژن، 148ویں انفنٹری بٹالین اور 77ویں ڈویژن  کی 291ویں آرمرڈ بٹالین، سپاہ کے مجاہدین اور غیرمنظم  جنگوں کےمصطفی چمران   ہیڈ کوارٹر کے کچھ ارکان نے حصہ لیا۔

زمینی فوج کی فورس کے فرنٹ کیمپ کے انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق جنوب میں ایرانی مجاہدین کے مقابلے میں دو مکمل اور مضبوط عراقی ڈویژن موجود تھے اور مجموعی طور پر اُن کی فزیکل جنگی طاقت ایرانی فوج سے دوگنی تھی۔

ہفتہ 3 جنوری 1981ء کوسپاہ کے  حمیدیہ، سوسنگرد، ھویزہ کے کمانڈروں، آپریشن اور انٹیلی جنس عہدیدار وضاحت اور ہم آہنگی کے لئے 16ویں آرمرڈ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر گئے۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سپاہ سازو سامان  کے ساتھ دو کمپنیاں ہمدان کی تیسری بریگیڈ کے  اور پانچ کمپنیاں  16ویں قزوین ڈویژن کی پہلی بریگیڈ کے اختیار میں دے گا  اور علاقے کی شناخت کے لئے ہر بکتر بند گاڑی کے ساتھ دو محافظ  موجود رہیں گے۔ اس کے علاوہ سپاہ خراسان کی فورسز بھی سیکنڈ دزفول بریگیڈ کے ساتھ تھی۔

منصوبے کے مطابق فارسیات کا علاقہ 92 ویں ڈویژن کےسپرد کیا گیا ۔یہ طے تھا کہ  92 ویں ڈویژن کی پہلی بریگیڈ اہواز کے سامنے دفاع کرے گی اور  آرمرڈ کیولری  بٹالین، کارون کو عبور کرنے کے بعد سڑک پر تین کلومیٹر آگے بڑھ  جائیں اور اھواز-خرمشہر روڈ کے لئے خطرہ پیدا کر سکیں اور دوسرے مرحلے میں حمید گیریژن پر قبضے میں مدد کریں۔

نصر آپریشن پندرہ منٹ تک ابتدائی فائر (اصلی حملہ شروع کرنے سے پہلے کیا جانے والا فائر)  کے بعد 5 جنوری 1981ء کو صبح دس بجے شروع ہوا۔ سب سے پہلے ہمدان کی تیسری بریگیڈ نے تیزی سے ابوحمیظہ-سوسنگرد کے سیکٹر میں حرکت شروع کی اور دوپہر بارہ بجے کے قریب عراقی انفنٹری فورسز کو بے خبر رکھتے ہوئے کامیابی سے کرخہ کور کو عبور کر لیا۔ قزوین کی پہلی بریگیڈ  نے بھی، جس کے لئے طے تھا کہ ھویزہ سے چلنا شروع کریں گے، تیزی کے ساتھ کرخہ کور کے جنوب میں پیش قدمی کر لی۔ فارسیات کے سیکٹر میں بیس منٹ لیٹ یعنی 10 بج کے 20 منٹ پر آپریشن شروع ہوا۔ یہ دیر نقصان کا باعث بنی۔ لیکن داخلی فورسز کم جانی نقصان کے ساتھ تقریباً تیس کلومیٹر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اِس دن عراقیوں کو جنگ لڑنے کی فرصت نہیں ملی  اور عراقی قیدیوں کی تعداد زیادہ رہی۔ تقریباً آٹھ سو افراد جن کے ساتھ بہت زیادہ غنیمت بھی ہاتھ لگی، اس طرح  آپریشن کا پہلا دن فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ بنی صدر نے امام خمینی کے نام ایک پیغام میں انہیں ھویزہ  کے کامیاب آپریشن سے آگاہ کیا۔ اس کے جواب میں امام خمینی نے بھی مسلح افواج اور مجاہدین  کی کارکردگی کی تعریف کی اور انہیں اس فتح پر مبارکباد دی۔

آپریشنل پلان کے مطابق حملے کا دوسرا مرحلہ 6 جنوری 1981ء کو صبح 8 بجے شروع ہوا۔ آپریشن کے اس مرحلے میں بکتر بند اور پیدل دستوں نے حمید  اور جوفیر کی طرف پیش قدمی کی۔سپاہ کے دستے ان سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے تھے۔ لیکن ایک گھنٹے بعد عراقیوں کی  گولہ باری تیز ہوگئی اورمجاہدین  کی پیش قدمی رک گئی۔ اگرچہ شام چار بجے تک جاری ہونے والے احکامات میں مزاحمت پر زور دیا گیا تھا، لیکن  پھر بھی بکتر بند فورسز  پیچھے ہٹ گئیں۔ لیکن سپاہ  کی پیدل  فورسز ، جو اُن سے آگے تھیں اور انہیں پسپائی کا علم نہیں تھا، عراقیوں  کے محاصرے  میں آ گئیں۔ اس دن  امام  خمینی  کے نقش قدم  پر چلنے والے طلباء ، بسیجی رضاکار فورسز اور مجاہدین کے 140 افراد شہید ہوئے۔اِن شہید ہونے والوں میں  سپاہ کے کمانڈروں میں سے ایک  حسین علم الہدی تھے۔

7 جنوری کو بھی ایران کی دوسری آرمرڈ بریگیڈ  عراقی شدید حملوں کی زد میں آ گئی اور اُسے شدید نقصان پہنچا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور ایرانی مجاہدین کی مزاحمت اور پیش قدمی کی زبردست کوششوں کے باوجود  بالآخر 9 جنوری کو مجبوراً  مکمل طور پر  پیچھے ہٹنا پڑا  اور اُنہوں نے  کم از کم 88 ٹینک گنوا دئیے۔ اِس دن نصر آپریشن 22 دن کی فضائی اور پانچ دن زمینی لڑائی کے بعد، بغیر کسی ظاہری کامیابی اور مقررہ اہداف کے حصول کے ختم ہوا۔

عراقی فورسز  کی پیش قدمی کے ساتھ ھویزہ محاصرے میں آ گیا  اور 17 جنوری 1981ء کو وہ قبضے میں چلا گیا اور سولہ ماہ بعد 8 مئی 1982ء کو  بیت المقدس آپریشن میں آزاد ہوا۔

نصر آپریشن کا آغاز دو بکتر بند فورسز کے تصادم سے ہوا اور اسے اکتوبر کی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے وسیع جنگ کہا گیا۔ (اکتوبر 1973/مہر 1352 میں عرب اسرائیل جنگ، جو عربوں کی شکست پر ختم ہوئی)۔  ہویزا پر قبضے کے بعد محاذوں پر جمود طاری ہو گیا۔ دن کے وقت بکتر بند حملے اور منظم جنگ کے طریقوں  سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ایران کے لئے زیادہ جانی نقصان اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نئے سازو سامان کو تبدیل کرنے  کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بکتر بند جنگ ممکن نہیں تھی۔  دوسری طرف عراق مالی اور سیاسی پابندیوں کے بغیر جدید آلات اور ہتھیار خرید کر سکتا تھا اور استعمال کر سکتا تھا۔دونوں فوجوں کے درمیان   بکتر بند ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے منظم جنگ کے تکرار کا مطلب عراقی برتری اور شکست کو قبول کرنا تھا۔ یہ آپریشن اس بات کا باعث بنا کہ انقلابی فورسز بتدریج سپاہ اور بسیج کی شکل میں منظم ہوں اورعوامی جنگی حکمت عملی نے رضاکار فورسز کے ایمان اور عزم پر بھروسہ کرتے ہوئے سازوسامان کی کمی اور منظم  بکتر بند جنگ پر قابو پالیا۔