اشخاص
جمی کارٹر
فاطمہ دفتری
24 دورہ
جیمز ارل کارٹر (1924) ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 39 ویں صدر تھے جن کی صدارت کے زمانے میں ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا اورساتھ ہی ایران کے خلاف عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کا بھی آغاز ہو گیا ۔
جمی کارٹر 1924 میں امریکی ریاست جارجیا کے شہر "پلینز "میں پیدا ہوئے، فزکس کی تعلیم حاصل کی اور پھر بحریہ میں بھرتی ہوئے۔ 1962 میں وہ ریاست جارجیا سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1976 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر بنے اور 1981 تک اس عہدے پر فائز رہے[1]۔
پہلوی حکومت کے دوران ایران کا دفاع کارٹر کی پالیسیوں میں سے ایک تھا اور وہ اسے امریکی ترجیحات کا حصہ سمجھتے تھے[2]۔ اسی مقصد سے وہ ایران کی فوجی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے۔ اس سلسلے میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس نے 12 مئی 1977 کو تہران کا سفر کیا اور محمد رضا شاہ کی ایک سو ساٹھ ایف-16 طیارے فروخت کرنے کی درخواست پر کارٹر کے معاہدے کا اعلان کیا[3]۔ کارٹر نے بیس امریکی سینیٹرز کی مخالفت کے باوجود سات AWACS ہوائی ریڈار ایران کو فروخت کرنے پر بھی اتفاق کیا اور مخالفین کے جواب میں اس بات پر زور دیا کہ ایران کی مدد کرنا گویا امریکہ کی مدد کر نا ہے[4]۔
کارٹر کی یہ ایران نواز پالیسی، اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی ختم ہوگئی، اور امریکہ نے امریکی بینکوں میں موجود ایرانی نقدی اور سونا ضبط کر لیا[5]، جس کی رقم آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ تھی، اور، ایگزیکٹو آرڈر 12710 کے مطابق، ایران سے تیل کی درآمد کو روک دیا۔ انہوں نے امریکہ میں ایرانی املاک اور اثاثے بھی منجمد کر دیے، امریکی بینکوں میں ایرانی بینک اکاؤنٹس بند کر دیے، اور ایرانی بینکوں کے ساتھ امریکی ڈالر کے لین دین پر پابندی لگا دی[6]۔
4 نومبر 1979 کو ایران کے خلاف امریکی اقدامات اور محمد رضا شاہ پہلوی کے ہتھیار ڈالنے کے خلاف مزاحمت کے جواب میں، جسے امام خمینی کے پیروکار یونیورسٹیز کے طلباء، ایرانی حکام حوالے کرنا چاہتے تھے اور مقدمہ چلانا چاہتے تھے[7]- انہی طلباء نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور عملے کے تمام افرادکو گرفتار کرلیا[8]۔ امام خمینی نے بھی11 نومبر 1979 کو ایک تقریر میں کارٹر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "کارٹر! ہمیں جنگ سے مت ڈراؤ، ہم جنگ لڑنے والے لوگ ہیں، ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہماری عزت محفوظ رہے، بھلے ہم بھوکے رہیں"[9]۔ اور پھر دونوں ممالک میں کشیدگی بڑہنے پر سیاسی رابطے مکمل طور پر منقطع ہو گئے[10] ۔
ایران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ، کارٹر کے لیے بہت بڑی رسوائی بن گیا۔ اس نے بحران کو حل کرنے اور مغویوں کی بازیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اس کی تمام ترکوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں جن میں ایک نمایاں کوشش بلکہ سازش یہ بھی تھی کہ مئی1980 میں صحرائے طبس سے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے[11]۔
ستمبر 1980 میں مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ، کارٹر نے امید ظاہر کی کہ یہ جنگ امریکی یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گی[12]؛ لیکن دوسری طرف، وہ جنگ کو خطے میں امن و استحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی سمجھتے تھے[13]۔ 3 اکتوبر 1980 کو کارٹر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایران-عراق بحران میں امریکہ کے دو مقاصد ہیں: دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنا اور بحران میں روسی مداخلت کو روکنا[14]۔
کارٹر نے بظاہر اس بات پر زور دیا کہ وہ ایران یا عراق کی حمایت میں کوئی جھکاؤ نہیں رکھتے[15]، لیکن 8 اکتوبر 1980 کو، انہوں نے کہا: "اگر ایران اور عراق کے درمیان ثالثی بے اثر ہے، تو خلیج فارس میں امریکہ کے اتحادیوں کو عراق کا ساتھ دینا چاہیے اور مادی اور اخلاقی امداد سے دریغ نہیں کرنا چاہیے"[16]۔ اس تقریر کے مطابق اور ایران کو سہولیات اور گولہ بارود کی فروخت پر پابندی لگانے کے ساتھ ہی، انہوں نے عراقی حکومت کو فوجی سازوسامان فروخت کیا اور عراق کی عسکری صلاحیتوں کو مضبوط کیا[17]، اس سےجنگ کے دوران ضروری ساز و سامان اور جنگی اسلحہ فراہم کرنے میں ایران کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے [18]۔
امریکی صدارتی انتخابات میں کارٹر کے حریف رونالڈ ریگن نے خطے (مغربی ایشیا) میں کارٹر کی پالیسیوں پر سوال اٹھایا اور ایران-عراق جنگ کو ان کی خارجہ پالیسی میں فیصلہ کن صلاحیتوں کی کمی اور امریکی دفاعی صلاحیتوں کی کمزوری کا نتیجہ قرار دیا[19]۔
جمی کارٹر کو 4 نومبر 1980 کو صدارتی انتخاب میں رونالڈ ریگن نے شکست دے دی[20]۔
برسوں بعد، کارٹر، جنہوں نے خود ایران-عراق جنگ کے آغاز میں بڑا کردار ادا کیا، 21 اکتوبر 1987 کو ایک تقریر میں خلیج فارس میں ریگن کی پالیسیوں کی مذمت کی[21]۔
جمی کارٹر نے ریاستہائے متحدہ میں بارہ سالہ ریپبلکن انتظامیہ (رونلڈ ریگن کے تحت آٹھ سال اور جارج ہربرٹ واکر بش کے تحت چار سال) کے دوران سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی سے بل کلنٹن کی جیت کے ساتھ سیاست میں دوبارہ وارد ہوئے اور شمالی کوریا کے جوہری بحران اور ہیٹی کے بحران کو ختم کرنے میں موثر کردار ادا کیا[22]۔
[1] دانشنامه دانشگستر، ج12، تهران: مؤسسه علمی فرهنگی دانشگستر روز، 1979، ص546.
[2] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، تهران: مرکز اسناد و تاریخ دیپلماسی، 2000، ص245.
[3] سابق، ص241 و 242.
[4] سابق ، ص245 و 246.
[5] سابق ، ص295.
[6] واعظی، حسن، ایران و آمریکا، تهران: سروش، 2001، ص126؛ موسویان، سیدحسین، ایران و آمریکا، تهران: تیسا، 2014، ص83.
[7] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص294.
[8] طلوعی، محمود، صد سال صد چهره (تاریخ مصور قرن بیستم)، تهران: نشر علم، 1999، ص1023.
[9] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص295.
[10] طلوعی، محمود، صد سال صد چهره، ص1025.
[11] کارتر، جیمی، ایران در خاطرات جیمی کارتر، مترجمان: ابراهیم ایراننژاد و طیبه غفاری، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2011، ص154.
[12] روزشمار جنگ ایران و عراق، ج4، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ، چ دوم، 1996، ص84.
[13] سابق ، ص124.
[14] سابق ، ص278 و 279.
[15] سابق ، ص84.
[16] سابق ، ص344.
[17] حسینی، سیدیعقوب، تاریخ نظامی جنگ تحمیلی، زمینههای بروز جنگ، ج1، تهران: انتشارات سازمان عقیدتی سیاسی ارتش جمهوری اسلامی ایران، 2008، ص298.
[18] سابق ، ص342.
[19] روزشمار جنگ ایران و عراق، ج4، ص164 و 165.
[20] طلوعی، محمود، صد سال صد چهره، ص1025.
[21] طیرانی، بهروز، روزشمار روابط ایران و آمریکا، ص337.
[22] ساجدی، احمد، مشاهیر سیاسی قرن بیستم، تهران: محراب قلم، 1995، ص328.