گروہ، ادارے، آرگنائزیشنز

فدائیان اسلام

اکرم عروجی
22 دورہ

فدائیان اسلام ایک عوامی گروہ کا نام ہے جو ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے بعد تشکیل دیا گیا تھا اور اس نے متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا تھا، جن میں "توکل" اور "ثامن الائمہ" شامل ہیں۔

سید مجتبیٰ ہاشمی کی سربراہی میں فدائیان اسلام اکتوبر 1980ء سے نومبر 1981 تک خرم شہر اور آبادان میں موجود رہے۔ سید مجتبیٰ ہاشمی کی جدوجہد کی تاریخ 5 جون 1963 سے شروع ہوتی ہے جب امام خمینی (رح) کی گرفتاری اور انہیں جلاوطن کرنے کے خلاف جدوجہد شروع کی گئی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ضلع 9 کی اسلامی انقلاب کمیٹی میں کام کرتے ہوئے انہوں نے منشیات کی روک تھام کے میدان میں آیت اللہ صادق خلخلی کے ساتھ بھی تعاون کیا اور اگست 1980 میں کردستان کی بغاوت کے آغاز کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے متعدد دوستوں کے ساتھ ضد انقلاب سے اس علاقے کو پاک کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا۔

مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے فورا بعد ، انہوں نے محاذ پر جاکر خرم شہر میں اور بعد میں آبادان میں فدائیان اسلام کے نام سے اور آیت اللہ خلخالی کے حکم سے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلی غیر منظم فوجی فورس قائم کی۔ یہ گروہ جمیعت فدائیان اسلام(1945-1955) سے مختلف ہے جس کی بنیاد سید مجتبیٰ نواب صفوی نے رکھی تھی۔ 

جنگ میں فدائیان اسلام کی موجودگی کے بارے میں سب سے پرانی دستاویز 3 اکتوبر 1980 کو سرپل زھاب کے علاقے میں فدائیان اسلام کے سربراہ سے ٹیلیوفونک رابطے سے متعلق ہے۔

22 ستمبر 1980 کو مہرآباد ہوائی اڈے پر بمباری کے فورا بعد سید مجتبیٰ ہاشمی اپنے 100 ساتھیوں کے ساتھ اہواز چلے گئے۔ خرم شہر کے مدافعین میں سے ایک حجت الاسلام ابوالحسن نوری نے اہواز میں سید مجتبیٰ کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے نوری سے کہا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ خرم شہر لے جائیں کیونکہ وار روم انہیں بھیجنے پر راضی نہیں تھا اس لئے نوری نے قبول کرلیا۔

خرم شہر میں داخل ہونے کے بعد فدائیان اسلام نے خرم شہر کسٹمز اور ہائے پولیس چھاونی کے ایک حصے کا انتظام سنبھال لیا۔ یکم اکتوبر 1980 کو شہر کا دفاع کرنے والی مرکزی فورسز کی تنظیم نو میں، 100 یونٹس کے محور کی ذمہ داری بھی بحری کمانڈوز کو تفویض کی گئی تھی تاکہ وہ فدائیان اسلام کی مدد سے اس محور کا دفاع کریں۔ 

26 اکتوبر 1980ء کو خرم شہر کے سقوط کے بعد فدائیان اسلام آبادان چلے گئے اور کاروان سرائے ہوٹل میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے بہت سارے گوریلا آپریشنز اور کارروائیوں میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مغربی علاقے میں بھی کچھ فدائیان موجود تھے۔ 17 فروری 1981 کو ریجاب اور دلاہو کے علاقوں میں فدائیان اسلام کی گوریلا کارروائیاں مغربی خطے میں اس گروہ کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ 

دریائے کارون کے مشرقی حصے پر غلبہ حاصل کرنے اور آبادان پر مکمل قبضہ کرنے کے مقصد سے عراقی فوج کی بہمنشیر کی طرف پیش قدمی کے ساتھ ہی ، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور فدائیان اسلام کی 9 نومبر 1980 کو عراقی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جن میں انہوں نے عراقی فورسز کو دریائے بہمنشیر سے چار کلومیٹر پیچھے دھکیل دیا۔

گوریلا جنگ فدائیان اسلام کے جنگی اصولوں میں سے ایک تھا، کیونکہ سید مجتبیٰ ہاشمی کا خیال تھا کہ دشمن کو بار بار حملوں کے ساتھ دوبارہ متحد ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ یقینا، فدائیان اسلام کی کچھ نگرانی، جیسے "آپریشن دوقلوھا" (7 دسمبر، 1980)، اعلیٰ افسروں کے ساتھ ہماہنگی کے بغیر انجام دی گئیں، جس سے فدائیان اور اعلیٰ فوجی افسروں کے مابین اختلافات کی راہ ہموار ہوئی۔

فدائیان 10 جنوری 1981 کو کئے گئے توکل جارحانہ آپریشن میں بھی موجود تھے۔ آپریشن کامیاب نہ ہوسکا اور سید مجتبیٰ ہاشمی ہاتھ میں زخمی ہو گئے۔

فروری اور مارچ 1981 میں خوزستان محاذ کے نسبتا پرسکون ہونے کے باوجود، 6، 8 اور 12 مارچ کو، بہمنشیر، ذوالفقاریہ محاذ اور آبادان میں فدائیان اور عراقی افواج کے مابین کامیاب جھڑپوں کا ذکر بھی ہوا ہے۔

اسی دوران اعلیٰ فوجی افسروں نے فیصلہ کیا کہ مشہد کی 77 ویں انفنٹری ڈویژن جنوبی خطے کی کمان سنبھالے گی۔ یہ ہدایت 18 مارچ 1981 کو جاری کی گئی اور فدائیان اسلام کو اس ڈویژن کے کنٹرول میں رکھا گیا۔ ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق 5 اپریل 1981 کو کوئے ذوالفقاری، آبادان اور کوتِ شیخ خرم شہر میں فدائیان افواج کی تعداد 560 تھی۔

اس ڈویژن کا پہلا محدود جارحانہ آپریشن 15 مئی 1981 کو بہمنشیر اور آبادان کی تیر چورنگی کے شمال میں کیا گیا تھا جس میں فدائیان اسلام بھی موجود تھے۔

11 جون 1981ء کو آپریشن دارخوین کیا گیا اور اس کی کامیابی کے بعد فدائیان اسلام جو فیاضیہ اور ذوالفقاریہ کے علاقوں میں اس آپریشن میں حصہ لینے والی افواج میں شامل تھے، نے یہ محسوس کیا کہ عراقی افواج کا کام تمام ہوچکا ہے اور فوج کے ساتھ ہماہنگی کیے بغیر بڑے پیمانے پر شب خون مارا اور اپنی ہی فورسز کو جانی نقصان پہنچایا۔

آخری اہم آپریشن جس میں فدائیان اسلام رسمی طور پر موجود تھے آپریشن ثامن الائمہ تھا ، جو 27 ستمبر 1981 کو آبادان کے محاصرے کو توڑنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رح) نے ایک پیغام بھیجا جس میں اس آپریشن میں حصہ لینے والی تمام قوتوں بشمول فدائیان اسلام کا شکریہ ادا کیا گیا۔

اس وقت کے بعد سے، اور جنوبی محاذ پر تعینات فدائیان، فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے، اور فدائیان کی جانب سے دیگر فورسز سے ہماہنگی نہ کئے جانے کی وجہ سے، آبادان کی اسلامی انقلابی عدالت نے 18 نومبر 1981 کو ایک حکم جاری کیا ، جس میں فدائیان اسلام کو آبادان چھوڑنے کا پابند کیا گیا اور ان کی مسلسل سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا، اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔

اس سزا کے اجراء کے بعد مجتبیٰ ہاشمی تہران واپس آ گئے اور دو مرتبہ رضاکار کی حیثیت سے محاذ پر جانے کے بعد مئی 1985ء کو تہران میں منافقین کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔