آپریشنز

ظفر آپریشن 6

سمانه تاجیک
16 دورہ

آپریشن ظفر 6 ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران ایک غیر منظم آپریشن ہے جو کہ 1987ء  میں عراق کے صوبہ کرکوک کے مشرق میں  اور علاقے کی چوٹیوں کو آزاد کرانے کے ہدف سے، رمضان کیمپ کے توسط سے تین سیکٹروں  میں انجام دیا گیا۔

1988ء کے ابتدائی دنوں میں والفجر 10 کے نام سے ایک آپریشن ڈیزائن کیا گیا جس کا ہدف عراق کے صوبہ سلیمانیہ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔ آپریشنل ایریے کی وسعت، اہداف کا ایک دوسرے سے الگ ہونا،  بیسز (Bases) کا ایک دوسرے فاصلہ اور ایک کیمپ کے ذریعے فورسز کی تمام  سیکٹروں میں راہنمائی کے امکان کے نہ ہونے  جیسے مسائل  وجوہات میں سے تھے جو اس بات کا باعث بنے کہ والفجر 10 آپریشن کرنےکےلئے چند  کیمپوں کو مخصوص کر دیا جائے اور یہ کیمپ غیر منظم آپریشنز کر کے والفجر 10 آپریشن کے اہداف  حاصل کرنے میں مدد کریں۔ رمضان کیمپ، جو کہ سپاہ پاسداران  کی غیر منظم کارروائیوں کا مرکز تھا،  اِس کی ذمہ داری تھی کہ والفجر 10 آپریشن کے دوران، عراق مخالف کرد گروہوں کے تعاون سے  عراق کے شہروں میں اہداف پر حملے، گھات لگا کر کاروائیاں کرنے  اور علاقے میں اندر جا کر عراقی یونٹوں کی نقل و حرکت کے راستوں کو غیر محفوظ بنانے جیسے اقدامات کرے۔ آپریشن ظفر 6 ان غیر منظم آپریشنز  میں سے ایک  تھا۔ ظفر آپریشنز سلسلے میں، ظفر آپریشن 5 ، 12 جنوری 1988ء کو عراق کے صوبہ دھوک میں رمضان کیمپ کی فورسز کے کردستان ڈیموکریٹک پارٹی   پیشمرگان عراق  تعاون سے انجام پایا اور دیرلوک شہر پر  مکمل  طور پر قبضہ ہو گیا اور عمادیہ روڈ بلاک ہو گیا۔

رمضان کیمپ کی کمان میں آپریشنل فورسز نے 24 فروری 1988ء کو عراقی فورسز  پر حملہ کیا اور شدید لڑائی کے بعد گردہ ناصر  ، گردہ مقبرہ، گردہ قالی، گردہ سو پہاڑیوں  اور چوٹی 606 پر قبضہ کر لیا۔  باصرہ کے اہم پل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد، ایرانی فورسز  نے پہلی کور کی آزاد میکانائزڈ انفنٹری بٹالین کی گیریژن ، 135ویں بٹالین اور 25ویں لائٹ  بٹالین کی گیریژن پر قبضہ کرنے کے علاوہ دشمن کے سو  فوجیوں کو ہلاک کر دیا جن میں 25ویں لائٹ  بٹالین کا کمانڈر بھی شامل  تھا اور بیس افراد کو قید کر لیا گیا۔ اِن قیدیوں میں ایک آرمرڈ کیپٹن اور 25ویں لائٹ  بٹالین کا نائب خارس عبدالکریم  تھا۔

سنگاو کے مشرقی سیکٹر میں بھی ایرانی فورسز نے عراقی ٹھکانوں اور مورچوں کو تباہ کر دیا جس میں ایک سو افراد ہلاک اور پندرہ افراد قید کر لیے گئے۔ عراق نے روشنی پھیلتے ہی جوابی حملے شروع کر دئیے لیکن اُنہیں سنگاو – چمچال روڈ پر زبردست گھات لگائے ایرانی فورسز کا سامنا کرنا پڑا  اور 150 ہلاکتیں  اور متعدد فوجی قید کرانے کے بعد اُنہوں نے عقب نشینی کر لی۔

آپریشن کے دوسرے دن عراقی فوج نے پیدل فوج کی چھ بٹالین اورمیکانائزڈ دستوں، مقامی کرائے کے فوجیوں، درجنوں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں، توپ خانے اور فضائیہ کی مدد سے چمچال-جیبافرہ  کے درمیانی علاقے میں شدید جوابی حملہ کیا اور پیش قدمی شروع کر دی۔ ایرانی فورسز کے بروقت ردعمل سے عراقی  جوابی حملہ ناکام بنا دیا گیا لیکن عراق نے اعلان کیا کہ ایران کی طرف سے آپریشن ظفر 6 ناکام ہو گیا ہے۔

آپریشن ظفر 6 کے دیگر نتائج میں باصرہ کےاہم پل اور متعدد دیہاتوں کو آزاد کرانا کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح اِس آپریشن کے کچھ دوسرے نتائج میں سنگاو-چمچال ، کرکوک-سنگاو، قادرکرم-کرکوک، سنگاو-قرہ داغ-سلیمانیہ کی مرکزی سڑکوں اور اِسی طرح سنگاو-دربندیخان کی ذیلی سڑکوں پر قبضہ شامل ہے۔

اس آپریشن میں  عراقی فوج کی  پہلی آزاد  میکانائزڈ انفنٹری بٹالین کے کمانڈر میجر جعفر عبد حسین بھی ہلاک ہو گیا۔

آپریشن ظفر 6 میں، فوج کی پہلی آزاد میکانائزڈ انفنٹری بٹالین کی گیریژن، 135ویں لائٹ  بٹالین اور 25ویں لائٹ  بٹالین کے قیام کی گیریژن اور علاقے میں عراقی چودہ اڈے، چھ ٹینک اور عملے کی گاڑیاں، دو طیارہ شکن بندوقیں، آٹھ 82 ایم ایم مارٹر، متعدد گولیاں اور گولہ بارود کے درجنوں گودام تباہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ، ایران اس آپریشن میں دو بکتر بند گاڑیوں، ساٹھ وائرلیس آلات، کئی مارٹر اور متعدد انفرادی ہتھیاروں کو غنیمت کے طور پر حاصل میں کامیاب ہوا۔

لندن کے فنانشل ٹائمز نے انٹیلی جنس سیٹلائٹ تصویروں  کی بنیاد پر شمالی عراق میں مسلم کرد فورسز کی پیش قدمی کی تصدیق کی اور آپریشن ظفر 6 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’’عراق کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کی فورسز نے گزشتہ ماہ ایرانی سرحد کے قریب ماووت کے علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے عراقی افواج کو زبردست شکست دی۔‘‘

13 مارچ 1988ء کو والفجر 10 آپریشن کے آغاز کے بعد، قدس کیمپ کی نقل و حرکت کے بارے میں دشمن کی حساسیت کو بڑھنے سے روکنے کےلئے اور اِس کیمپ کے ہدف کو ظاہر ہونے سے بچانے کے لئے، عراق کے صوبہ سلیمانیہ کے مشرق کے علاقے میں، قدس کیمپ کے سیکٹر میں اس آپریشن کا نام ظفر 7 رکھ دیا گیا۔ یہ آپریشن رمضان کیمپ اور عراقی کرد فورسز کے توسط سے انجام پایا۔