آپریشنز
آپریشن کربلا 7
ندا اربع
3 دورہ
فروری-مارچ 1987ء میں جمہوری اسلامی ایران کی فوج نے عراقی سرزمین پر حاج عمران کے عمومی علاقے میں آپریشن کربلا 7 انجام دیا اور قبضہ کرنے اور اہداف کی آزادی پر ختم ہوا۔
کربلا 7 کا جارحانہ آپریشن، عراقی فورسز کو نقصان پہنچانے، کربلا 5 اور کربلا 6 کے آپریشنل علاقے سے دباؤ کم کروانے، بعد میں رمضان کیمپ کی جانب سے انجام دینے والی کاروائیوں کے لئے زمینہ ہموار کرنے، ایرانی شہروں پر بمباری میں ہونے والے شہداء کے خون کے انتقام، 2519 کی حساس پہاڑیوں، شہداء اور گردمند پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے اور حاج عمران-چومان مصطفی-گلالہ کے سیکٹر پر قبضہ کرنے کے اہداف سے انجام دیا گیا۔
کرنل غضنفر آذرفر کی کمان میں 64ویں ارومیہ ڈویژن کی فورسز نے جمہوری اسلامی کی فوج کی فضائیہ کی مدد سے اس آپریشن کو یا مولا متقیان ؑ مدد کے کوڈ سے 4 مارچ 1987ء بدھ ٹھیک رات بارہ بجے، پیرانشہر کے مغربی علاقے اور حاج عمران کے عمومی علاقے میں اور عراقی سرزمین میں بیس کلومیٹر کی گہرائی میں شروع کیا ۔ڈویژن کے مجاہدین نے چوبیس گھنٹے برف کے درمیان پیدل چل کر عراقی فورسز کو بے خبری میں جا لیا۔
یہ آپریشن تنہا نیم پھیلا ہوا(Semi-wide) آپریشن شمار ہوتا ہے۔ اِس آپریشن کے علاقوں میں حاج عمران کا علاقہ، آبنائے دربند، گردمند کی پہاڑیاں، سرخی پہاڑی، کلہ اسبی چوٹی اور گردیکو پہاڑیوں کی جنوبی ڈھلوان جو شہداء پہاڑی کے نام سے مشہور ہے، شامل تھے۔ حاج عمران کا علاقہ پہاڑی، دشوار گزار اور کھائیوں سے بھرپور ہے۔ حاج عمران کے علاقے میں 2519 پہاڑی، واراس، شہداء،نصر اور گردمند پہاڑیوں کے ساتھ، چومان مصطفی، ممی خلان، ناوپردان، شہدا پہاڑی، نصر اور صدر کی پہاڑیوں کے علاقوں پر مکمل تسلط کی وجہ سے جس سے ایرانی فورسز میں ہلاکتیں اور نقصان کم ہوتا تھا، اِن کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ ایرانی فورسز کا سیدکان پہاڑیوں پر قبضہ عراق و ایران کے درمیان اکلوتے سیکٹر یعنی پیرانشہر –رواندوز روڈ کے لئے خطرے کا باعث تھا۔ 2519 چوٹی اور اِس کے ساتھ اِسی بلندی پر دوسری چوٹیوں پر قدم جمانے سے شیورش کے دیہاتوں اور قصبوں، حاج عمران، زینو، میوتان، رایات، دربند، نوپوردان، گلالہ، چومان مصطفی اور حاج عمران گیریژن ایرانی فورسز کی براہ راست نظروں میں آجاتا اور عراقی فورسز کے لئے علاقہ ناامن اوراس علاقے میں عراقی سرزمین پر پیش قدمی کو آگے بڑھانا آسان ہو سکتا تھا۔
آپریشن کے ابتدائی لمحات میں 64ویں ارومیہ ڈویژن کی فورسز اور کمانڈوز نے عراقی پوزیشنوں کی جانب پیش قدمی کی۔ اِس یونٹ نے تقریباً ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ بعد اعلان کیا کہ فورسز جنگی تنظیم کے ساتھ عراقی پویشنوں کےنزدیک رکی ہوئی ہیں جبکہ انجینئرنگ ٹیم اور ماہرین راستہ بنانے، مائنز کو بے اثر کرنے اور خاردار تاروں کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔
کمانڈوز بٹالین دو دن کی زبردست لڑائی کے بعد اور بعض موقعوں پر دو بدو لڑائی میں جنہیں توپخانے کے یونٹوں کی گولہ باری اور ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل تھی، مقررہ اہداف پر قبضہ کرنے، دشمن کے جوابی حملوں کو دبانے اور قبضہ کیےگئے اہداف پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
کرمانشاہ ہوائی اڈے نے پسوہ گیریژن میں مستقر گولہ برسانے والی تین ٹیموں کے ذریعے بنکرز اورعراقی فورسز کی بکتر بند سامان کی دسیوں مشینیں تباہ کردیں۔ 407ویں انجینئرنگ بٹالین اور جہاد سازندگی قم نے بھی قبضہ شدہ اہداف کو مستحکم اور مضبوط کرنے میں سڑک تعمیر کر کے آپریشن کی کامیابیوں کی حفاظت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
اس آپریشن میں حصہ لینے والی ایرانی فورسز میں 64ویں ارومیہ ڈویژن کی یونٹ، کمانڈوز بٹالین، 103ویں انفنٹری بٹالین، 115ویں انفنٹری بٹالین، 132ویں انفنٹری بٹالین، 198ویں انفنٹری بٹالین، 167ویں انفنٹری بٹالین، 120ملی میٹر مارٹر ٹیم اور حملوں اور ریزرو بٹالین کے دیگر جنگی ہتھیار، متعلقہ پوزیشنوں پر تعینات سیکنڈ بریگیڈ کے زیر کنٹرول آرمی آرٹلری اور جنگی بٹالینز اور کرمانشاہ ایئر فورس کی تین فائر ٹیمیں شامل تھیں۔
7 مارچ 1987ء کو 6ویں عراقی ڈویژن کی 108ویں اور 606ویں بریگیڈ ماضی کی شکستوں کا ازالہ کرنے کے لیے حاج عمران کے آپریشنل علاقے میں گئیں جہاں انہیں ایرانی فوج کی گولہ باری سے بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ 1987ء مارچ کی 8 تاریخ کو عراقی فورسز نے خراب موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی حملہ کیا جسے ایرانی افواج کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد ہلاک، زخمی، قیدی اور جلے ہوئے سامان چھوڑ کر وہ عقب نشینی کر گئے۔
64ویں ارومیہ ڈویژن کی فورسز پانچ دن تک دشمن کےحملوں کا مقابلہ کرنے کے بعد علاقے میں حاصل کردہ اہداف کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
ایرانی افواج نے 2519 کی بلندیوں، گردمند، سرخی پہاڑی، کلہ اسبی چوٹیوں اور عراقی علاقے کے تقریباً 50 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرلیا اور حاج عمران گیریژن کو عراقی فوج کے ہاتھوں سے چھین لیا اور چومان مصطفی سمیت عراقی شہروں اور آبادیوں پر تسلط قائم کرلیا۔ اس کے علاوہ، اس علاقے میں ضد انقلابی تحریکوں پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا گیا۔ کھوئی ہوئی پوزیشنوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے نو عراقی بھاری جوابی حملے بھی ناکام ہوگئے۔
اس آپریشن میں فوج کے ایک کمانڈر میجر جنرل ناصر یارقلی شہید ہوگئے۔ تقریباً تین ہزار عراقی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور 272 قید ہوگئے۔ اس کے علاوہ عراقی فورسز کے تین ٹینک اور درجنوں گاڑیاں، گولہ بارود کے پانچ ڈپو اور درجنوں مارٹر تباہ ہو گئے اور پانچ ٹینک، درجنوں گاڑیاں، تین عملہ بردار گاڑیاں، کافی تعداد میں انفرادی اور گروہی ہتھیار اور بڑی مقدار میں گولہ بارود قبضے میں لے لیا گیا۔
آپریشن کے چھٹے اور آخری دن 10 مارچ 1987ء کو جمہوری اسلامی ایران فوج کی فورسز نے عراقی فوج کا کام تمام کرنے کے لیے دوپہر تین بجے دشمن پر شدید حملہ کیا اور 23 ویں ڈویژن کی باقی ماندہ 96ویں بریگیڈ کو بھاری نقصان پہنچایا اور اُن کےٹھکانے کو آگ لگا دی۔
جنگی نشر و اشاعت کے ہیڈکوارٹر کی دعوت پر دنیا بھر سے ذرائع ابلاغ کے صحافیوں نے ایران کا سفر کیا اور ایرانی مجاہدین کی فتوحات پر ویڈیوز، رپورٹس اور تصاویر بنائیں اور اِس آپریشن میں ایران کی فتح کا اعتراف کیا۔