اشخاص
عباس کریمی
لیلا حیدری باطنی
20 دورہ
شہید عباس کریمی قہرودی (1984-1957) سپاہ پاسداران انقلاب کی، محمد رسول اللہ بریگیڈ 27 کے چوتھے کمانڈر تھے، جنہوں نے ایران کے خلاف عراقی جنگ میں مختلف آپریشنز میں حصہ لیا اور بدر آپریشن میں شہید ہوئے۔
عباس کریمی 1957 میں کاشان کے گاؤں قہرود میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے آبائی گاؤں میں ابتدائی اسکول کی تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے کاشان شہر اور پھر تہران چلے گئے اور تعلیمی مراحل مکمل کر کے کاشان واپس آگئے اور ٹیکسٹائل کی ڈگری کے ساتھ گریجویشن کیا اور پھر امام خمینی رح کی تحریک کی حمایت میں، انقلابی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے اور امام کے اعلانات کو تقسیم کرنے لگ گئے۔ تہران میں عباس آباد چھاؤنی میں اپنی فوجی خدمات کے دوران، وہ ایک سارجنٹ کے طور پر فوج کے انفارمیشن پروٹیکشن کے شعبے میں شامل ہو گئے لیکن فوجیوں میں امام کے اعلامیے تقسیم کرنے پر گرفتار ہو گئے۔ فوجیوں کے چھاؤنیوں سے بھاگنے پر مبنی امام خمینی رح کا پیغام سن کر عباس کریمی بھی چودہ ماہ سروس کے بعد بھاگ نکلے اور انقلاب کے حق کیے جانے والے عوامی مظاہروں میں شامل ہو گئے۔
1 فروری 1979 کو وہ امام خمینی رح کے لئے استقبالیہ کمیٹی کی پولیس فورس کے رکن بن گئے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور کاشان میں سپاہ پاسداران کی تشکیل کے بعد (5 جون 1979 میں)، عباس کریمی سپاہ میں شامل ہو گئے اور امام خمینی کے گھر کے داخلی اور خارجی دروازے کی حفاظت کے لیے ان کو قم بھیج دیا گیا۔ پھر، 1979 کے موسم سرما میں، سپاہ پاسداران کاشان کی طرف سے سیستان اور بلوچستان روانہ ہوئے جہاں ضد انقلاب عناصر (بائیں بازو کے گروہ، شرپسندوں اور خیانت کار گروہ) کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا، اور ان کا یہ سہ ماہی مشن ایک سرغنہ کے قتل کے ساتھ اختتام پذیر ہو[1]1۔ عباس کریمی نے لوگوں کو انقلاب کی طرف مایل کرنے کے لئے مقامی لباس پہنا اور جمعہ کی نماز اور کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے کر ان کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کیا اور دلوں میں جگہ بنائی۔
کردستان میں 14 فروری 1979 [2]سے شروع ہونے والے (ضد انقلابی، ڈیموکریٹک پارٹی، رزگاری اور کوملہ گروپس کے ) فسادات سے نمٹنے کے لئے شہید عباس کریمی 1981 میں سپاہ پاسداران کاشان کے ساتھ ایرانشہر کے علاقے سنندج چلے گئے، یہاں جانے کی وجہ ان کی مہارت اور تجربہ تھا جس کی بنیاد پر وہ ضد انقلابیوں کے فسادات پر قابو پانا بہتر طریقے سے جانتے تھے [3]اور پھر ایرانشہر کور (سپاہ پاسداران) میں آپریشنز انٹیلی جنس یونٹ کے ساتھ تعاون کرتے رہے اور تھوڑے عرصے بعد اس یونٹ کے انچارج بن گئے۔ [4] اس مشن کا مقصد سنندج کے محاصرے کو توڑنا تھا، نیز اس کے علاوہ (مئی 1980) اسّی دنوں کے اندر جاسوسی کرنا تھا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ عباس کریمی کے رویے سے متاثر ہو کر ڈیموکریٹک پارٹی کے نظریاتی بانی محمود آشتیانی نے نہ فقط خود ہتھیار ڈال دیے بلکہ اپنے ماتحت افراد کو بھی ساتھ لے کر آ گئے۔[5]
عباس کریمی نے مریوان کور کے کمانڈر احمد متوسلیان کے ذریعے مریوان کور آپریشنز انٹیلی جنس یونٹ کی ذمہ داری قبول کی۔ ستمبر 1980 میں ایران کے خلاف عراقی جارحانہ حملے اور جنگ کے آغاز کے بعد، کریمی نے، جو مسلسل ضد انقلابی محاذ پر تھے، عراقی افواج کی نقل و حرکت، تنصیبات اور پوزیشنوں کے بارے میں خبریں اور رپورٹس بھی تیار کرتے اور اپنے کمانڈر کو فراہم کرتے تھے۔ منفرد خصوصیت خوش اخلاقی اور ملنساری کی وجہ سے شہید عباس کریمی، مریوان کے لوگوں کا اعتماد حاصل کر کے، ایک پبلک انفارمیشن نیٹ ورک شروع کرنے میں کامیاب ہوگئے اور خطے میں مسلح گروپوں کے رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کر کے، عباس نے ان میں سے کئی کو سپاہ پاسداران کے حوالے کیا۔ [6]
مریوان کور کے ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ میں ان کے اہم اقدامات میں، آپریشنز میں حصہ لینا، علاقوں کو صاف کرنا، آپریشنل علاقوں کی معلومات دینا، سرحدوں کے اندرونی اور بیرونی علاقوں اور عراقی افواج پر نظر رکھنا اور میپ ریڈنگ وغیرہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ، کریمی نے ضد انقلابی رہنماؤں کی شناخت اور ان کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ بھی رکھا تا کہ بات چیت کے ذریعے ان کو ہتھیار ڈالنے کے لئے قائل کیا جا سکے یا ان سے ان عناصر کی معلومات لی جائیں جنہوں نے انقلاب اسلامی کے خلاف جاسوسی اور مسلح محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ البتہ ان کے اہم کارناموں میں جاسوسی اور آزاد سازی کے شعبے میں 25 دسمبر 1980 کو دزلی کی چوٹیوں والے آپریشن میں کہ جس میں کردستان کے ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک سربراہ مارا گیا، 24 مارچ 1981 کو تتہ کی چوٹیوں کے آپریشن میں، 25 مئی 1981 کو ہی بانی نبوک عراق میں ایک چھاؤنی پر قبضہ کرنے میں، 26 مئی 1981 کو قوچ سلطان آپریشن میں، 7 اکتوبر 1981میں "اورمانات" کے علاقوں کو آزاد کرانے میں اور 4 جولائی 1982 میں کامیاران سرو آباد روڈ کو آزاد کرانا اور)[7]، آپریشنل علاقوں میں سپاہ کی افواج اور کرد طبقے کے مابین تناؤ اور کشیدگی میں لچک ایجاد کرنا، کردوں میں سے ہی ان کے خلاف جاسوس تیار کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔[8]
دزلی کی چوٹیوں کی آزادی کے بعد، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 27 اپریل 1980 کو سپریم کونسل آف ڈیفنس میں امام خمینی کے نمائندے کے طور پر مریوان علاقے کا سفر کیا۔ اس دورے میں کریمی، جو اس وقت سپاہ پاسداران میں انٹیلی جنس افسر تھے، نے مختلف مقامات کی معلومات اور ضروری تدارک سے آگاہ کیا۔ [9]دوسری طرف سے، 2 جنوری 1982 کو محمد رسول اللہ (ص) آپریشن میں فتح اور کامیابی [10]عباس کریمی کی انٹیلی جنس فورس کے طور پر درست شناخت اور آپریشن کی شناخت کی مرہون منت ہے۔ [11]محمد رسول اللہ بریگیڈ27 کی تشکیل کے وقت کریمی نے آپریشن انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر، ایک جنگی انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا [12]۔ اس کے بعد سے، انہوں نے ملک کے جنوبی علاقوں میں زیادہ تر کارروائیوں میں حصہ لیا ہے اور آپریشنل محوروں کی شناخت کا کام کیا ہے۔ آپریشن الفتح المبین سے پہلے، وہ اور کئی دوسرے لوگوں نے دفاعی لائن پر 20 کلومیٹر کی گہرائی میں عراقی آرٹلری سنٹر کی نشاندہی کی۔ اس اقدام کے نتیجے میں، 22 مارچ 1982[13]کو محمد رسول اللہ بریگیڈ، الفتح المبین آپریشن میں تقریباً سو توپوں اور مارٹر گولوں کو ضبط کرنے میں کامیاب ہوئی۔ [14] اسی آپریشن میں کریمی کی ٹانگ پر زخم آئے اور ستر دن تک تہران کے نجمیہ اسپتال میں داخل زیر علاج رہے۔
وہ 13 جولائی 1982 کو رمضان آپریشن اور ایک اکتوبر 1982 [15]کو مسلم ابن عقیل آپریشن میں آپریشنز اور جاسوسی مشن کے انچارج تھے[16]۔
عباس کریمی نے اکتوبر 1982 میں زہرا منصف سے شادی کی جس پر اللہ نے ان کو بیٹے سے نوازا جس کا نام انہوں نے داود رکھا [17]۔
کریمی کو اپریل 1983 میں سپاہ پاسداران 11 کے انٹیلی جنس افسر کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ [18] کچھ عرصے بعد، ان کو لشکر محمد رسول اللہ ڈویژن 27 کی سیکنڈ بریگیڈ سلمان کا سربراہ مقرر کیا گیا، اور 10 اپریل 1983 کو عراق میں جبل فوقی میں آپریشن والفجر 1 [19] اور 19 اکتوبر 1983 کو مریوان محور میں آپریشن والفجر 4 میں اس بریگیڈ کے کمانڈر بھی تھے[20]۔ 22 فروری 1984 کو خیبر آپریشن میں، لشکر محمد رسول اللہ 27 کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے کمانڈر کے طور پر تعیینات تھے اور اسکے ساتھ، "ھور العظیم" کے علاقے میں بھیس بدل کر جاسوسی کے لیے گئے اور اہم اقدامات انجام دیے۔[21]7 مارچ 1974 کو لشکر27 محمد رسول اللہ کے کمانڈر محمد ابراہیم ہمت کی شہادت کے بعد ان کو کمانڈر بنا دیا گیا [22]۔
27 ویں محمد رسول اللہ بریگیڈ کی کمانڈ کے ایک سالہ دورانیے میں عباس کریمی نے دوکوھہ چھاؤنی کی امام بارگاہ کا نام حاج ہمت کے نام پر رکھ دیا اور نیول یونٹ کو تشکیل دیا اور ضروری لوازمات کی فراہمی کے بعد بڑی اور بحری تربیت بھی شروع کر دی۔[23]
ایک کمانڈر کے طور پر، وہ نجف کیمپ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے، اور آپریشن خیبر اور بدر کے دوران اہم آپریشنل منصوبوں کے بارے میں ملاقاتیں کیں، اور نتائج سے کیمپ کو آگاہ کرتے رہے۔[24]
عباس کریمی 14 مارچ 1985 میں دوپہر تین بجے "ھور الھویزہ" کے علاقے آپریشن بدر کے دوران مارٹر گولہ لگنے سے شہید ہوئے۔ 18 مارچ کو ان کا پیکر خاکی نماز جنازہ کے لیے مسجد امام خمینی تہران لے جایا گیا اور پھر بہشت زہرا قبرستان میں حسہ نمبر 24 میں ان کو دفن کیا گیا۔ شہید کی وصیت تھی کہ ان کو ان کے جنگی شہید ساتھیوں کے ساتھ دفنایا جائے جس پر عمل درآمد کیا گیا۔[25]
[1] صمدیان، مریم، زیر سایه عباس، کاشان: مرسل، 2005، ص23؛ داوودآبادی، حمید، دجله در انتظار عباس، تهران: کنگره بزرگداشت سرداران شهید سپاه و 36 هزار شهید استان تهران، 2000، ص25ـ13.
[2] امیرنظمی افشار، منوچهر، حاجیلو، اسفندیار، تاریخ معاصر آذربایجان، ج1: نفی پادشاهی مشق جمهوری، تهران: سوره سبز، 2017، ص13.
[3] داوودآبادی، حمید، دجله در انتظار عباس، ص24
[4] صمدی، محمدعلی، یادگار سرداران، تهران: حوزه هنری، 1998، ص84.
[5] صمدیان، مریم، زیر سایه عباس، ص26 و 27 و 31؛ صمدی، محمدعلی، یادگار سرداران، ص84.
[6] کاکاوندی جقاسفید، مراد، اسوه شجاعت و استقامت، تهران: مرکز باقرالعلوم(ع) سپاه، 2013، ص19-17.
[7] صادقی، رضا، اطلس راهنما9: کردستان در جنگ ضد شورشگری و دفاع مقدس، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1390، ص84 و 92 و 128 و 130 و 134.
8 شاهد یاران، ش119، شهریور 1394، ص3و25و43ـ41و93.
[9] سابق، ص45
[10] دری، حسن، اطلس راهنما7: کرمانشاه در جنگ، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2006، ص68.
[11] شاهد یاران، ص11.
[12] سابق، ص7.
[13] فرودی، قاسم، اطلس مناطق عملیاتی غرب و جنوب غرب، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزشهای دفاع مقدس، 2017، ص48.
[14] کاکاوندی جقاسفید، مراد، اسوه شجاعت و استقامت، ص19؛ شاهد یاران، ص68.
[15] رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، چ سوم، 2014، ص68؛ دری، حسن، اطلس راهنما7، ص124
[16] شاهد یاران، ص14
[17] کاکاوندی جقاسفید، مراد، اسوه شجاعت و استقامت، ص20؛ صمدی، محمدعلی، یادگار سرداران، ص84
[18] شاهد یاران، ص45.
[19] فرودی، قاسم، اطلس مناطق عملیاتی غرب و جنوب غرب، ص94
[20] شاهد یاران، ص9.
[21] سابق، ص49-21.
[22] صمدی، محمدعلی، یادگار سرداران، ص85؛ شاهد یاران، ص52؛ بهزاد، حسین، بابایی، گلعلی، همپای صاعقه، تهران: حوزه هنری و لشکر 27 محمد رسولالله(ص)، 2001، ص805
[23] شاهد یاران، ص52
[24] سابق، ص59
[25] شاهد یاران، ص53؛ صمدیان، مریم، زیر سایه عباس، ص14.