اشخاص

منصور ستاری

سمیہ ربیعی
5 دورہ

منصور ستاری (1948-1994) 1986 سے 1994 تک اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر تھے ۔ وہ 1994 میں ہوائی جہاز کے حادثے میں شہید ہوئے تھے۔

منصور ستاری 21 اگست 1948 کو ورامین شہر کے گاوں  ولی آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حاج حسن ایک ممتاز شاعر تھے[1]۔ انہوں نے اپنی پرائمری تعلیم ولی آباد میں مکمل کی، تین سال جونیئر ہائی اسکول پوینک، باقرآباد کے گاؤں میں، اور ہائی اسکول کے  تین سال  ورامین  ہائی اسکول میں مکمل کیے[2]۔

ستاری نے 1966 میں کیڈٹ کالج میں داخلہ لیا اور 1969 میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے کے ساتھ ائیر فورس میں آ گئے[3]۔ انکی شادی اپنے ماموں کی بیٹی سے  ہوئی[4]۔

1971 میں انہیں ریڈار کنٹرول کا عملی کورس مکمل کرنے کے لیے امریکہ بھیجا گیا۔ 1972 میں، وہ ایران واپس آئے اور پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کے لیے،  انہیں بابلسر ریڈار اسٹیشن کی فضائی دفاعی کمان میں منتقل کر دیا گیا اور مختلف فضائی دفاعی یونٹوں میں فائٹر کنٹرول آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں[5]۔ انہوں نے فضائیہ کے میگزین میں کچھ ثقافتی ذمہ داریاں بھی نبھائیں[6]۔

1975 میں انہیں تہران یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس میں داخلہ دیا گیا لیکن 1978 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو خیرباد کہہ دیا[7]۔

1980 میں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ میں بری-فضائی دفاعی نظام کے آپریشنز مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ جب اسی سال ستمبر میں ایران کے خلاف عراقی جنگ شروع ہوئی تو وہ ہمدان، دزفول اور سربندر ریڈار اسٹیشنوں پر فائٹر کنٹرول آفیسر تھے۔

1983میں، وہ ایئر فورس ڈیفنس کمانڈ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز مقرر ہوئے۔

آپریشن خیبر (مارچ 1983) اور بعد ازاں 1984 میں انٹرسیپٹر لڑاکا طیاروں کو کنٹرول کرنے اور ان کی راہنمائی میں شہید  منصور ستاری کے اقدام کے نتیجے میں میزایل سایٹ "ہاوک" جو  زمین سے ہوا میں  حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور،  "پیروزی سائٹ" کے نام سے مشہورتھی، نے اہم کامیابی حاصل کی اور پہلی بار، ریڈار اینٹینا کو خطے میں موجود  اینٹی ریڈار میزائلوں سے محفوظ رکھا[8]۔ ستاری آپریشن والفجر 8 میں جنرل اسٹاف کے فضائی دفاع کے انچارج تھے اور  اپنی بے مثال ذہانت کی وجہ سے اس آپریشن میں  بہترین  کارکردگی کے جوہر دکھائے اور دشمن کے ستر لڑاکا طیاروں کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے[9]۔

شہید ستاری کو 1985 میں فضائیہ کے پلاننگ اور پروگرامنگ کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا اور فروری 1986 میں کرنل عباس بابائی کی تجویز اور صدر مملکت اور سپریم ڈیفنس کونسل کے   چیئرمین آیت اللہ خامنہ ای کی تائید  اور امام خمینی کی منظوری سے انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا[10]۔

1987 میں، ستاری کے تعاون سے، "پرستو" ہوائی جہاز (پہلا ہلکا ٹرانسپورٹ طیارہ) ایران میں بنایا گیا تھا[11]۔ اس کے علاوہ، ان کے فیصلے اور تعاون سے ایچ-43 ہیلی کاپٹراورٹی-33  طیاروں کو مقامی سطح  پر دوبارہ بنایا گیا[12] ۔ اور سی-130  طیاروں کی مرمت کے لیے جو پرزے درکار تھے، وہ ایئر فورس لاجسٹک کمانڈ کے خصوصی دستوں کے ذریعے ملک میں تیار کیے گئے[13]۔

28 اپریل  1987 کو، ستاری کو بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی[14]۔ انہوں نے فضائیہ کے ماہرین کو تربیت دینے کے لیے یونیورسٹی آف ایوی ایشن سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی، اور ستمبر 1988 میں، طلباء کا پہلا گروپ  اس یونیورسٹی میں داخل ہوا[15]۔

منصور ستاری کے اہم ترین اقدامات میں ایرو اسپیس یونیورسٹی اور نرسنگ  کالج کا قیام، چھ سو بستروں پر مشتمل "نہاجا" اسپتال کی تکمیل ، ایئر فورس میں  پیتھالوجی ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر کا قیام، ایئر ٹریننگ سسٹم کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے لیبر اینڈ نالج کنزرویٹری کا قیام، ملک کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے لیبر اینڈ نالج کنزرویٹری کا قیام  اور  پائلٹ طلباء کی پرواز کی ابتدائی تربیت کے لیے جدید تکنیکی اور صنعتی اداروں کا قیام  شامل ہیں ۔ شہید ستاری نے "اوج" نامی پروجیکٹ بھی پیش کیا  جس کے تحت گوداموں میں موجود  انجنوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوائی جہاز کی تعمیر اور ریسرچ، انویسٹی گیشن اینڈ ٹریننگ سینٹر  کے قیام تھا، اس سے  فورس کی دیکھ بھال کی صلاحیت کو مضبوط کیا اور اس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ کیا۔

4 فروری 1990 کو، ستاری کو کمانڈر انچیف، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے فتح اور کامیابی کا اعزازی تمغہ حاصل  کیا[16]۔

"سہا "ایئر لائنز (اسلامی جمہوریہ ایران آرمی ایوی ایشن آرگنائزیشن)  بھی منصور ستاری نے قائم کی تھی[17]۔

فضائیہ کے اہلکاروں کے حوصلے اور بہبود کے لیے منصور ستاری کی فکر ایئر فورس  چین اسٹورز  کے قیام کا باعث بنی جس کے تحت ملک بھر فضائیہ کے یوٹیلٹی سٹورز قائم کیے گئے[18]

5 جنوری 1995 کو "کیش" میں منعقدہ ائیر ڈیفنس کمانڈرز کونسل کے اجلاس میں تقریر کرنے کے بعد ستاری اصفہان سے "شہید بابائی بیس"  کا دورہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ دورے کے بعد، تہران جاتے ہوئے، طیارہ اصفہان کے شہید بہشتی بین الاقوامی ایرپورٹ  کے قریب گر کر تباہ ہو گیا، جس میں منصور ستاری اور  ان کے ساتھی شہید ہو گئے[19]۔

ان کو  بہشت زہرا قبرستان میں دفنایا گیا،  قبرستان کے حصہ 29، ردیف نمبر 16میں ان کی قبر  واقع ہے[20]۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے[21]۔

 

 

 

[1] نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، تهران: ایران سبز، 2011، ص45 و 46؛ نوایی لواسانی، حمید، مرد ابرپوش، قصه فرماندهان 16، تهران: سوره مهر، 2007، ص8 و 9.

[2] اکبر، علی، پاکباز عرصه عشق، تهران: عقیدتی سیاسی نیروی هوایی ارتش، 1997، ص4 و 31.

[3] نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، ص46.

[4] ماهنامه شاهد یاران، ش122، آذر 2016، ص18.

[5] اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، تهران: شاهد، 2002، ص67 و 68؛ نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، ص47.

[6] نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، ص47.

 

[7] اکبر، علی، پاکباز عرصه عشق، ص4.

[8] سابق، ص4؛ نمکی، علی‌رضا، نیروی هوایی در دفاع مقدس، ص47 و 48.

[9] شاهد یاران، ش122، ص64.

[10] اسفندیاری، خلیل، اسطوره‌ها، ص68؛ شاهد یاران، ش122، ص64 و 85.

[11] اکبر، علی، پاکباز عرصه عشق، ص88ـ85.

[12] سابق ، ص93.

[13] سابق ، ص136.

[14] شاهد یاران، ش122، ص85.

[15] شاهد یاران، ش122، ص6 و 22 و 23.

[16] سابق،  ص6 و 85.

[17] سابق ، ص7.

[18] شاهد یاران، ش122، ص79.

[19] سابق ، ص32.

[20] دانشنامه شهدا و ایثارگران جمهوری اسلامی ایران: https://mazareshahid.ir/1549

[21] شاهد یاران، ش122، ص19.