آپریشنز

ظفر آپریشن 1

زینب احمدی
20 دورہ

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی فورس  نے عراقی کرد پیشمرگان (کرد مسلحہ گروہ)  کے ساتھ مل کر کانیماسی شہر میں صدام کی فوج کے فوجی مراکز کو تباہ کرنے کے مقصد کے پیش نظر آپریشن ظفر انجام دیا۔

اس آپریشن کا پہلا مرحلہ 14 ستمبر 1987ء کو دھوک اور سلیمانیہ صوبوں  کے شمال مشرق میں، عراقی کردستان کے ایک صوبے میں اور عراق کی ترکی کے ساتھ سرحدی علاقے میں، عراقی سرزمین پر دو سو کلومیٹر اندر، رمضان کیمپ کی کمان اور راہنمائی میں انجام دیا گیا۔

یہ آپریشن عراق کی عمادیہ گورنری کے تحت کانی ماسی شہر کے اردگرد 30 مربع کلومیٹر کے علاقے میں کیا گیا۔عراقی پیشمرگہ کی قیادت مسعود بارزانی  کے کندھوں پر تھی۔

آپریشن کے پہلے چند گھنٹوں میں ایرانی فورسز ،کرد پیشمرگان کے ساتھ مل کر کانیماسی  کے گرد  سکیورٹی اڈے اور علاقے کی بٹالین ، بیگاوہ بریگیڈ (38ویں ڈویژن کے ماتحت) اور تین مقامی بٹالین کے مراکز پر  قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

آپریشنل فورسز نے شہر کے اہم مراکز پر قبضہ کرنے کے بعد تقریباً تیس مربع کلومیٹر کے علاقے کو کلیئر کرلیا۔ اس آپریشن میں کانیماسی کی بٹالین کے کمانڈر میجر سبیہ ابوش اور لائٹ بٹالین کے دو کمانڈر جن کا نام صادق عمر اور محمد نظیف تھا، گرفتار ہوئے۔

آپریشن کو آگے بڑھاتے ہوئے آپریشنل فورسز نے کانیماسی  جانے والی چھ کلومیٹر سڑک کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا اور عراقی فوج کے 60 ٹھکانوں کو آگ لگا دی۔ بعثی فورسز کے پانچ سو افراد کو ہلاک اور زخمی کرنے کے علاوہ  ایک بڑی تعداد  کو قید کر لیا گیا۔  اس کے علاوہ صوبہ سلیمانیہ میں واقع  گیلہ زردہ  کی پہاڑیوں  پر حملے کے دوران علاقے کے ٹھکانوں کو آزاد کرا لیا گیا اور عراق کی 19ویں لائٹ  بٹالین کے ٹھکانے  کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ اس حملے میں عراقی فوج کے متعدد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے اور بھاری مقدار میں اسلحے اور بکتر بند سامان کو آگ لگا دی گئی۔

آپریشن کی دوسری رات آپریشنل فورسز نے عراقی کیمپوں، پلوں اور ٹھکانوں  پر حملہ کیا اور کانیماسی روڈ سے باتوفہ جانے والے تقریباً 35 کلومیٹر روڈ کو عراقی کنٹرول سے لے لیا۔ اور باتوفہ –زاخو روڈ کے کچھ حصے پر ٹھہر گئے۔ 15 ستمبر کو عراقی فورسز نے بڑی تعداد میں ٹینکوں، طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور خصوصی دستوں کی مدد سے کھوئے ہوئے علاقوں کی بازیابی کے لیے کارروائی کی لیکن ایرانی فورسز اور عراقی  کرد پیشمرگان   کی شدید مزاحمت کی وجہ سے وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔

اس آپریشن میں عراقی کرد پیشمرگان  نے مختلف علاقوں اور سڑکوں پر گھات لگا کر حملہ کیا اور کئی عراقی  گاڑیوں اور فورسز کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ عراقی فورسز کے  چھ افراد نے اپنے سازوسامان سمیت خود کو عراقی کرد پیشمرگان کے حوالے کر دیا، ان میں 15ویں بٹالین کے کمانڈر حاجی رستم اور کمپنی  کمانڈر نوری صالح  اہم تھے۔عراقی حکومت نے عراقی کردستان کے مقامی پیشمرگان  کو ختم کرنے کے لئے شمالی عراق کے کئی دیہاتوں پر بار بار بمباری کی اور   اُنہیں خاک  و خون کا ڈھیر بنا دیا۔

اس آپریشن کا دوسرا مرحلہ 18 ستمبر 1987ء کو کانیماسی میں رمضان کیمپ کی کمان میں فورسز کی شرکت سے شروع ہوا۔ اس مرحلے پر آپریشنل  فورسز نے باطوفہ سے زاخو روڈ  کی طرف پیش قدمی کی اور دشمن سے چھینے گئے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے عراقی فوج کے 38ویں ڈویژن کے بیگاوہ بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا اور اسے شدید گولہ باری کے ذریعے تباہ کر دیا۔  عراقی فوج نے بھی انتقامی کاروائی کے لئے  جوابی حملے کی کوشش کی لیکن اُسے کرد پیشمرگان  کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

آپریشن کے اس مرحلے پر آپریشنل فورسز میجر پائلٹ جمال مسعود سلمان کو مارنے میں کامیاب ہو گئیں جو سردشت میں  کیمیائی بم حملوں  کا ذمہ دار تھا۔

انڈیپنڈنٹ اخبار نے اس آپریشن میں عراقی کرد فورسز کی کارکردگی کے بارے میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا: کانیماسی شہر پر کردوں کا قبضہ انہیں اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ ترکی اور عراق کے درمیان بین الاقوامی سڑک اور عراق کی بحیرہ روم تک برآمد ہونے والے تیل کی پائپ لائن کے لئے خطرہ بن سکیں  اور کرکوک کی آئل فیلڈز پر حملہ کرنے کے لئے بہتر پوزیشن حاصل کر سکیں۔

اس آپریشن میں عراقی فوج کے تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور تقریباً 500 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔