اسلحہ جات

توپخانہ(آرٹلری)

فاطمہ خادمی
22 دورہ

توپ خانہ زمینی جنگوں میں ایک موثر اور تزویراتی ہتھیاروں کا مجموعہ شمار ہوتا ہے کہ  عراق کی جانب سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کے دوران جنگی اہداف کو آگے بڑھانے اور آپریشنز کی مدد میں اس کا کردار بہت اہم تھا۔

توپخانہ ایک یونٹ یا گروہ ہے جس کے ذمہ انفرادی ہتھیاروں کی نسبت زیادہ وسیع تر آپریشنل دائرہ کار کے ساتھ زمینی جنگوں میں دشمن کی پوزیشنوں اور سازو سامان کو تباہ کرنا ہے۔ اس یونٹ کے ہتھیاروں کے مجموعے میں سیدھے یا کمان کی شکل میں توپ کے گولے اور میزائل پھینکنے والے لانچرز ہیں۔توپخانہ کلیبر(گولے کی پیمائش کرنے والا یونٹ) کی بنیاد پر ہلکے، متوسط، بھاری، اضافی بھاری توپخانے میں تقسیم ہوتے ہیں اور اس کی یونٹوں میں شامل سازوسان،  رسد (سپلائی)، گولہ بارود اور تربیت یافتہ افراد شامل ہیں۔  

پہلے توپ خانے کے ہتھیاروں کی تخلیق آٹھ سو سال قبل از مسیح کی طرف پلٹتی ہے کہ جن میں سے ایک منجنیق تھی۔ بارود کی دریافت کے ساتھ، اندلس کے مسلمانوں نے 1346ء میں فرانسیسی فوج کے خلاف اور 1453ء  میں قسطنطنیہ (استنبول) پر قبضہ کرنے کے لیے عثمانیوں نے آگ لگانے والے گولوں  کا استعمال کیا۔ شاہ عباس اول کے زمانے میں، 1642ء میں، اصفہان میں توپوں کے گولے کے کارخانے کے قیام کے ساتھ، توپ کے گولے ایرانی فوج میں داخل ہوئے۔

پہلی جنگ عظیم میں توپخانے میں کیمیکل گولوں اور گولیوں کا استعمال کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی جدید ترین توپ خانے کے استعمال سے میدان جنگ آگ کے میدان میں تبدیل ہو گیا۔ دونوں عالمی جنگوں میں ہونے والی 75 فیصد ہلاکتوں کو اِسی ہتھیار سے نسبت دیتے ہیں۔

1954ء  کے بعد ایرانی توپ خانے کو امریکی ہتھیاروں سے لیس کیا گیا اور آرٹلری یونٹ کو منظم کیا گیا اور اصفہان میں آرٹلری ٹریننگ سنٹر کو فعال کر دیا گیا۔

ترقی یافتہ ایئر ڈیفنس آرٹلری 1958ء میں قائم کی گئی اور افراد کو تربیتی اور سائٹ  کی تعمیر کے  کورسز کے لئے انگلینڈ اور امریکہ بھیجنا شروع کر دیا گیا۔

ایران پر عراق کے حملے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی زمینی فوج کی فیلڈ آرٹلری (نزاجا) 58 بٹالین کی شکل میں تقریباً ایک ہزار فیلڈ آرٹلری کے ساتھ دفاع میں شامل ہو گئی۔ عراقی فوج 68 بٹالین کی شکل میں  1160 فیلڈ آرٹلری ، 1200 طیارشکن توپوں اور اسکاڈ بی (Scud-B) زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی بٹالینز کے ساتھ جنگ میں داخل ہو گئی۔

جنگ کے آغاز کے بعد سے ہی عراقی فوجی صنعتی مراکز، جیسے بصرہ پیٹرو کیمیکل تنصیبات کو ایرانی توپ خانے سے نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ زمینی سرحد سے ایرانی افواج کی دوری اور عراقی سرزمین  میں داخلے کے امکان کا نہ ہونا تھا۔ اس کے علاوہ، ٹارپیڈو منصوبے(تجارتی بحری جہازوں اور آئل ٹینکرز کی نقل وحمل میں مدد) میں فوج کی بحریہ کی مدد کرنے کے لیےدریائے اروند  کے دہانے کے قریب عراقی ایگزاسٹ اینٹی شپ میزائل پوزیشنوں پر توپ خانے سے فائر کیے گئے۔

1980ء میں، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے توپ خانے نے آپریشنز کی مدد کی ذمہ داری سنبھال لی۔ جن میں 17 نومبر کو سوسنگرد کی آزادی میں، 19 نومبر سومار (عاشورا) میں،  19 دسمبر  کو سرپل ذہاب (پہلے مرحلے) میں کلینہ اور سید صادق، 4 جنوری کو تنگحاجیان (گیلان غرب) میں، 5 جنوری کو نصر (کرخہ کور۔ھویزہ) میں، 9 جنوری کو میمک (خوارزم) میں، 6 مارچ سرپل ذھاب میں آفندی کلینہ اور سیدصادق (مرحلہ دوم) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1981ء مارچ سے ستمبر تک،  22 اپریل 1981ء کو بازی دراز 1، 21 مئی کو خیبر (امام علیؑ)، 2 ستمبر کو بازی دراز  2 (رجائی اور باہنر) اور ملک کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں 2 ستمبر کو اللہ اکبر کی پہاڑیوں (نصر) کے آپریشنز معاونت کی ذمہ داری بھی تھی۔

سال  1981ء کے دوسرے نصف میں، 27 ستمبر کو ثامن الائمہ آپریشن، فیلڈ آرٹلری اور فضائی دفاعی یونٹوں کی مدد سے آبادا ن محاصرے  کی شکست پر ختم ہوا اور 29 نومبر کو طریق القدس آپریشن میں بستان کو بھی آزاد کرا لیا گیا۔ اسی طرح چند ماہ بعد، 22 مارچ 1982ء کو فتح المبین آپریشن میں فوج کے توپخانے کی گولہ باری کی مدد سے ایران کے جنوب میں ایک وسیع علاقے کو آزاد کرایا گیا۔

فتح المبین آپریشن کے بعدسپاہ کے چیف کمانڈر  نے حسن تہرانی مقدم کو سپاہ کے توپ خانے کا کوآرڈینیٹر  مقرر کیا۔ پہلا توپ خانہ 1982 کے موسم خزاں میں تہرانی مقدم کے ذریعے 61 ویں محرم گروپ کے نام سے تشکیل پایا۔

کارون کے مغرب میں 29 ویں فیلڈ آرٹلری بٹالین اور 8ویں ایئر ڈیفنس آرٹلری بٹالین کی گولہ باری   24 مئی 1982 کو خرمشہر کی آزادی کا باعث بنی۔

بیت المقدس  آپریشن کے بعد سپاہ  کا توپ خانہ قائم کرنے کا حکم جاری کیا گیا اور یہ توپ خانہ تشکیل دیا گیا۔ نیزدارخوین کے علاقے میں شہید صدوقی گیریژن میں سپاہ کے آرٹلری یونٹ کا خصوصی تربیتی مرکز بھی شروع کیا گیا۔

13 جولائی 1982ء کو سرحد پر دشمن کی افواج کو تباہ کرنے کے لیے رمضان آپریشن کے دوران فوج اور سپاہ  کے توپ خانے کا سپورٹ فائر، کوشک سے دریائے اروند تک تین مرحلوں میں کیا گیا، اور ہر قسم کی فیلڈ گنز، اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور توپخانے کا گولہ بارود غنیمت میں ہاتھ آیا۔

1 اکتوبر 1982 کو مسلم بن عقیل آپریشن کیا گیا جس کا مقصد سومار کے مغرب سے دشمن کو پیچھے دھکیلنا، سرحدی چوٹیوں کو آزاد کرانا اور عراقی شہر مندلی کی طرف پیش قدمی کرنا تھا،  جو فوج اور سپاہ کے توپخانے کی مدد سے انجام پایا۔

رمضان آپریشن کے بعد، 1 نومبر 1982ء  کو محرم آپریشن کیا گیا  تاکہ تاکہ توپخانے کی مدد سے عراقی سرزمین پر حمرین کی چوٹیوں میں اہداف حاصل کیے جا سکیں اور اس طرح عراق میں زبیدات اور تیل کی تنصیبات سمیت بڑے علاقے کو آزاد کرا لیا گیا۔

مریوان میں 19 اکتوبر 1982 کو والفجر 4 آپریشن میں فیلڈ آرٹلری اور ایئر ڈیفنس کے سپورٹ فائر سے دشمن کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اُنہیں پسپائی پر مجبور کر دیا گیا۔

23 ویں بٹالین کے ساتھ فیلڈ آرٹلری نے 22 فروری 1983ء کو ہور العظیم کے مشرقی کنارے پر خیبر آپریشن میں اور تین بٹالین کے ساتھ  10 مارچ 1985ء کو جزایر مجنون میں بدر آپریشن کی مدد کی۔

فاؤ کے علاقے اور اس کے گردونواح میں 9 فروری1986ء  کو والفجر 8 آپریشن کے دوران، سپاہ اور فوج کے دو آپریشنل کیمپوں میں آرٹلری یونٹس نے زیادہ سے زیادہ گولہ باری کرتے ہوئے فورسز کا ساتھ دیا۔دفاع مقدس کے دوران علاقے کے سخت حالات میں مناسب انفراسٹرکچر کے ساتھ توپ خانے کی پوزیشنوں کی تعمیر اس آپریشن کی اختراعات میں سے ہے۔

9 جنوری 1987ء کو شلمچہ میں کربلا5 آپریشن میں اس آپریشن کی حمایت کے لیے مضبوط اور بڑے پیمانے پر فائر کی ضرورت کے پیش نظر، محدود گولہ بارود اور دور دراز کے علاقوں سے توپخانے کی منتقلی کے لئے وقت کی کمی  کی وجہ سے، فوج کے آرٹلری یونٹس کے کچھ حصے کو شلمچہ میں ہی تیار کیا گیا۔ توپ خانے نے اس آپریشن کی فتح اور بصرہ کے مشرقی دروازوں کو توڑنے میں موثر اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالوں میں جمہوری اسلامی ایران کے پانچ آرٹلری گروپوں کی رینج میں شمال مغرب میں 11 واں گروپ، مغرب میں 44 واں گروپ اور جنوب میں 33 واں، 55 واں اور 22 واں گروپ شامل تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی زمینی فوج کے آرٹلری ڈویژن نے 1978ء سے 1988ء سالوں کے دوران انقلاب  کی فتح کے اوائل  میں علیحدگی پسند بغاوتوں کے خلاف سکیورٹی کے قیام اور مسلط کردہ جنگ میں بہت اہم اور موثر کردار ادا کیا اور آٹھ سال دفاع مقدس میں تقریباً پچاس ملین گولے فائر کیے۔فوج کے توپخانے کے شہداء کی تعداد 1450  افراد ہے۔

مسلط کردہ جنگ کے بعد، سپاہ کی زمینی فوج کے توپ خانے کے پاس 60  ماہر  منظم بٹالینز کی شکل میں بہت  موثر طاقت تھی۔ سپاہ کے توپ خانے نے بھی ملک کو 1500 شہداء  پیش کیے ہیں۔  اس ادارے  نے 1989ء میں اپنی فوجی طاقت کو زمینی، ہوائی، سمندری، بسیج، قدس  فوج، ڈویژنوں اور بریگیڈز میں تقسیم کر کے اپنی تعمیر نو کا آغاز کیا۔