مقامات
فتح المبین ٹنل
محسن شیر محمد
4 دورہ
فتحالمبین ٹنل یا "ہندلی سرنگ" اس سرنگ کا نام ہے جسے دزفول شہر کے مغرب میں "ہندلی خندق"کے علاقے میں حمزہ 21 ویں رجمنٹ نے1981 میں ایک ماہر شخص سے تیار کروایا جو یزدکے علاقے میبد کا رہایشی تھا ۔ اس سرنگ کو " یزدپروجیکٹ" کا نام دیا گیا[1] اور اس نے آپریشن فتحالمبین میں اہم کردار ادا کیا۔
کرخہ پل سے تین کلومیٹر آگے اور دریائےکرخہ کے ساتھ ایک نہر تھی جو سرنگ (ٹنل) کی مانند تھی اور ایران-عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں دشمن کے قبضے میں آگئی تھی۔ حمزہ 21 ویں رجمنٹ کی بریگیڈ-1 نے اس سرنگ کو واپس لینے کے لیے حملہ کیا، مگر بھاری جانی نقصان کے ساتھ، بریگیڈیئر ولیاللہ فلاحی (چیف آف آرمی اسٹاف) کے حکم پر عقب نشینی پر مجبور ہو گئی[2]۔ اس کے بعد، 21 ویں رجمنٹ کی بریگیڈ-1[3] کی 131 ویں بٹالین کا ایک فوجی دستہ کرخہ پل کے حسینآباد نامی علاقے کے قریب دفاعی پوزیشن پر تعینات ہوا، یہ علاقہ کرخہ پل سے تقریباً ایک کلومیٹر دور تھا۔ تقریباً 300 یا 400 میٹر آگے اس مذکورہ سرنگ نما نہر پر دشمن کا قبضہ تھا جو تین میٹرگہری تھی۔ دشمن اپنے محاذ کے پیچھے وسیع علاقے کو ٹینک کی براہِ راست گولہ باری سے نشانہ بنارہا تھا اور ایرانی گاڑیوں کی نقل و حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ ہندلی نہر کو واپس لینے کے لیے مختلف اوقات میں محدود نوعیت کے حملے کیے گئے جن میں 4 اپریل 1981ء کو کی گئی کارروائی بھی شامل تھی[4]۔ تاہم، دشمن نے راستے کو روکنے کے لیے بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے بھرا میدان تیار کر رکھا تھا،[5] اور حساسیت کی بنا پر تازہ دم فوجی دستوں اور مکمل طاقت کے ساتھ ایرانی فوج کو نہر پر قبضہ کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔[6]
ستمبر 1981ء میں، بریگیڈیئر ولیاللہ فلاحی (چیف آف آرمی اسٹاف)[7] اور بریگیڈیئر قاسمعلی ظهیرنژاد (بری فوج کے کمانڈر) نے اس علاقے کا دورہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس زیرِ زمین نہر (جس کو بارودی سرنگوں کے نیچے سے گزارا جانا تھا) کو کھودنے کا منصوبہ پیش کیا۔[8]
اگست [9]1981 کے اواخر میں حاج غلام حسین رعیت رکن آبادی حجتی (جو رکن آباد، میبد (یزد) کے رہائشی تھے اور "آپریشن رمضان" میں جامِ شہادت نوش کر گئےتھے) نے اس سرنگ کی کھدائی کا آغاز کیا۔ ان کے ساتھ یزد کے چند ماہر مزدور بھی شریک تھے، جنہیں آیت اللہ محمد صدوقی (امام جمعہ یزد) نے متعارف کرایا تھا۔ یہ افراد کنویں کھودنے میں مہارت رکھتے تھے؛[10] اس منصوبے میں کیپٹن محمدکاظم میرحسینی، جو 21 ویں رجمنٹ حمزہ کے توپ خانے سے وابستہ تھے، اور 15 رضاکار، سپاہی و فوجیوں کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا گیا۔ سرنگ دشمن کے انتہائی قریب کے علاقے سے کھودی گئی۔ اس کی اونچائی تقریباً 170 سینٹی میٹر، چوڑائی ایک میٹر، اور چھت کی موٹائی دو سے ڈھائی میٹر کے درمیان تھی۔
کھدائی سے نکالی گئی مٹی کو ریڑہیوں میں ڈال کر باہر منتقل کیا جاتا اور ایک مخصوص مقام پر جمع کیا جاتا اور پھر رات کے وقت اسے لوڈر کے ذریعے زمین کی سطح پر پھیلا دیا جاتا۔ یہ کام مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا، اور صرف وہی افراد اس سے آگاہ تھے جو براہِ راست اس میں شریک تھے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قریبی یونٹوں، حتیٰ کہ دزفول اور اندیمشک کے عام لوگوں تک بھی اس کی خبر پہونچ گئی ، اگرچہ سرنگ کی اصل جگہ کسی کو معلوم نہ ہو سکی۔ عوامی توجہ ہٹانے کے لیے علاقے میں موجود تمام فوجی دستوں کو سرنگ کھودنے کا حکم دیا گیا تاکہ دشمن اصل مقام تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔ یوں موجودہ بریگیڈ کی ہر بٹالین نے کم از کم ایک سرنگ ضرور کھودی تھی۔[11] سرنگ کی تعمیر کے آخری مہینوں میں، اس پر کام کرنے والے فوجی اہلکاروں کو چھٹی پر جانے کی اجازت نہ تھی تاکہ یہ راز فاش نہ ہو۔[12]
سرنگ کے اندر 18 کمرے مختلف سائز کے بنائے گئے،[13] جن کی لمبائی پانچ سے چھ میٹر تھی۔ ان کمروں میں اسلحہ رکھنے اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی سہولت موجود تھی۔ سرنگ کے اختتام پر اسے تین مختلف شاخوں میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ حملے کے وقت مجاہدین بھیڑ سے بچتے ہوئے دشمن پر چڑھائی کر سکیں۔[14]
سرنگ کے اندر اندھیرا، نمی اور ہوا کی کمی کے باعث سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔[15] اس مسئلے کے حل کے لیے کیپٹن میرحسینی (جو اس منصوبے کے نگران تھے) نے ایک جنریٹر نصب کر کے روشنی اور ہوا کی ترسیل کا بندوبست کیا۔[16] ابتدا میں سرنگ کی چوڑائی کم تھی، لیکن اسلحہ اور زخمیوں کی نقل و حمل کی سہولت کے لیے اسے وسیع کر دیا گیا[17]۔
22 مارچ [18]1982 کو، شام سات بجے کے قریب، حاج غلامحسین حجتی یزد سے سرنگ کے آخری حصے تک پہنچے اور ان خروجی راستوں کی کھدائی شروع کی جو اب تک بند تھے۔[19] فتح المبین آپریشن کے آغاز کے وقت [20]تمام ضم شدہ فوجی دستوں کوتین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔[21]دو گروپ سرنگ کے اندر سے، اور ایک گروپ سرنگ کے باہر سے حملے کے لیے روانہ ہوا۔
منصوبے کے مطابق، پہلا گروہ مغربی، اور دوسرا مشرقی راستے سے نکل کر مکمل خاموشی اور تیزی کے ساتھ دشمن کی مورچہ بندی تک پہنچ کر حملے کے لیے تیار تھا۔[22] دشمن علاقے میں حرکات و سکنات محسوس کر رہا تھا، اس لیے اندھا دھند فائرنگ کر رہا تھا، حالانکہ اس کی زیادہ تر فائرنگ دفاعی مورچوں پر تھی جبکہ ایرانی فوجی دشمن کے بالکل نیچے موجود تھے۔[23]
سرنگ سے تین خروجی راستے بنائے جانے تھے۔ جب دوسرا راستہ کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ دشمن کے مورچے سے صرف دس میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس صورت میں تیسرے راستے کا انتظار ممکن نہ رہا، اور حملے کا آغاز کر دیا گیا۔[24]
پہلا گروپ جو سرنگ سے باہر نکلا، دشمن کے دو مورچوں کے درمیان پہنچا، اور جب تک حملے کا حکم نہ دیا گیا، دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکا۔ جوں ہی دوسرے گروپ نے، جو مشرقی راستے سے نکلا تھا، اپنی تیاری ظاہر کی، حملے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ دشمن کی فوج اچانک حملے سے بوکھلا گئی اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔
حملے کے پہلے مرحلے میں تقریباً 130 سے 150 دشمن فوجی گرفتار کیے گئے۔ زمینی میدان میں بارودی سرنگوں کی وجہ سے ان قیدیوں کو اسی زیرِ زمین راستے سے گزارا گیا۔[25]
فتح المبین آپریشن سات روزہ جنگ کے بعد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس کے نتیجے میں 2200 مربع کلومیٹر پر مشتمل مقبوضہ علاقے، جیسے عین خوش، علی گرہ زد، ابو صلیبی خات، برقازہ، تینہ، ابو غریب اور شاوریہ کے تیل کے کنویں، آزاد کرا لیے گئے۔[26]
اس عظیم منصوبے پر سید جلال اشکذری کی ہدایت میں ایک دستاویزی فلم "اعزام محرمانہ" تیار کی گئی، جس میں اس سرنگ کی کھدائی اور اس میں شریک افراد کے انٹرویوز پیش کیے گئے ہیں۔
[1] جوادیپور، محمد و دیگران، ارتش در هشت سال دفاع مقدس، ج 1، نبردهای غرب دزفول، تهران، سازمان عقیدتی سیاسی ارتش،1993، ص 214
[2] مسلمی خطیر، جعفر، تونلی که کلید پیروزی عملیات فتحالمبین شد، وبسایت اطلاعات، 13 اپریل 2016، www.ettelaat.com/archives/195764
[3] سلیمانجاه، بهروز، سلیمانجاه: هفتاد سال خاطرات سرتیپ بهروز سلیمانجاه، تهران، ایران سبز،2014، ص 223.
[4] جعفری، مجتبی، اطلس نبردهای ماندگار، تهران، سوره سبز، چ پنجاهم 2019، ص 44؛ آرام، احمد، کانال هندلی، تهران، هیأت معارف جنگ شهید سپهبد علی صیاد شیرازی، 2009، ص 65.
[5] سلیمانجاه، بهروز، سابق ، ص 221.
[6] آرام، احمد، سابق ، ص 65.
[7] سابق ، ص 65
[8] سلیمانجاه، بهروز، سابق ، ص 222.
[9] سابق ، ص 223.
[10] «اعزام محرمانه»، فیلم مستند، کارگردان: سیدجلال اشکذری، صدا و سیمای مرکز یزد، زمستان 2018
[11] آرام، احمد، سابق ، ص 66.
[12] عباسنژاد، امیرمحمد، نامیِ ایران، تهران، بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش های دفاع مقدس،2017، ص 106.
[13] سابق ، ص 106.
[14] آرام، احمد، سابق ، ص 68.
[15] سابق ، ص 69.
[16] سابق ، ص 70.
[18] آرام، احمد، سابق ، ص 70.
[19] سابق ، ص 70 و 71.
[21] سابق.
[22] سابق ، ص 72.
[23] سابق.
[24] «حفر کانال هندلی»، ماهنامه صف، ش 407، مارچ 2015 اپریل 2015، ص 83 .
[25] آرام، احمد، سابق ، ص 72.
[26] جعفری، مجتبی، سابق، ص 74.