اشخاص
کاظم نجفی رستگار
ناہید خدائی
26 دورہ
کاظم نجفی رستگار (1960-1984) ایران_ عراق جنگ کے دوران اسلامی انقلابی گارڈ کور کے ایک کمانڈر تھے۔ ان کو چونکہ اپنے جنگی ریکارڈ میں بٹالین اور بریگیڈ کی کمانڈ کرنے کا تجربہ تھا اس لئے خیبر آپریشن کے بعد آپ نے بعض کمانڈروں سے اختلاف کی وجہ سے کمان سے استعفیٰ دے دیا اور بدر آپریشن میں ایک سادہ دستے کے طور پر "جفیر" کے علاقے میں چلے گئے اور اس آپریشن میں شہید ہوئے۔
کاظم نجفی رستگار23 مارچ 1960کو اشرف آباد شہر رے میں پیدا ہوئے[1]۔ مڈل اسکول میں ان کے ایک جاننے والے نے ان کا تعارف آیت اللہ سید محمد حسینی بہشتی سے کرایا۔ آیت اللہ بہشتی کی کلاسوں اور مجالس میں شرکت کرکے وہ امام خمینی کی تحریک اور انقلابی قوتوں سے آشنا ہوئے اور انہی ایام سے اپنی انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کیا[2]۔ امام خمینی کی ایران واپسی کی تقریب کے دوران وہ علوی اسکول سے ہوائی اڈے کے راستے میں سیکیورٹی فورسز میں شامل تھے۔
انقلاب کی فتح کے بعد، وہ اسلامی انقلابی کمیٹی میں کچھ عرصے کے لیے سعدآباد محل کی حفاظت پر مامور تھے۔[3]1979 میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (سپاہ پاسداران اسلامی) کی تشکیل کے بعد، وہ ابھی ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہی ہوئے تھے تو سپاہ میں شمولیت اختیار کر لی اور شہر رے میں توحید چھاؤنی میں کام کرنا شروع کیا۔ مارچ 1980 میں، وہ اپنے دوستوں ناصر شیری، محمد ابوالقاسمی، اور داؤد فرخ زاد کے ساتھ سپاہ فیروزکوہ کی تشکیل اور اسے منظم کرنے کے لئے گئے اور رستگار نے ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس وقت فیروزکوہ میں کمیونسٹ، تودے اور منافق گروہ بہت سرگرم تھے۔ ان گروہوں کے ساتھ ایک عرصے تک جدوجہد اور کشمکش کے بعد، رستگار اور اس کے دوست فیروزکوہ میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے[4]۔ اسی سال، آقائے رستگار نے مصطفی چمران کے تحت نظارت ایک خصوصی رینجر کورس مکمل کیا، اور پھر ناصر شیری، چمران اور اس کے گروپ کے ساتھ کردستان کے علاقے سردشت چلے گئے تاکہ ضد انقلاب افراد سے نمٹ سکیں۔
کاظم رستگار اور ناصر شیری کردستان مشن کے خاتمے کے بعد اگست 1980 کے آخری دنوں تہران جا رہے تھے کہ کرمانشاہ میں ایران پر عراقی حملے کی خبر سنی اور وہیں سے قصرِ شیرین اور دشت ذہاب چلے گئے[5]۔وہ دشت ذہاب کے دائیں مورچے داربلوت محاذ پر توحید چھاؤنی میں کچھ دستوں کے ساتھ تعینات تھے۔ ان دنوں کاظم توحید چھاؤنی کی ایک کمپنی کے آپریشنز کے انچارج تھے جبکہ اس آپریشن کا کمانڈر محمود ثابت نیا تھے[6]۔
5 مارچ 1980 کو رستگار اور ثابت نیا کے دستوں نے عراقیوں سے پانچ سو میٹر دور 09 پہاڑیوں میں ایک محدود آپریشن شروع کیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے[7]۔ اس آپریشن کے بعد کاظم صاحب واپس تہران چلے گئے۔ نوروز کے دنوں میں وہ توحید چھاؤنی جاتے اور آپریشن یونٹ میں فورسز کی مدد کرتے[8]۔ چند مہینوں سے جب کاظم صاحب محاذ سے دور تھے، تو تہران میں کافی بدامنی تھی۔ منافقین خلق اور ضد انقلابی گروہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ ان کا پہلا سنجیدہ اقدام 20 جون 1981 کو فردوسی سٹریٹ سے انقلاب چوک تک مظاہرہ کرنا تھا۔ اس مظاہرے کے بعد جولایی 1981 میں انہوں نے کئی دہشت گردانہ کارروائیاں کیں جن سے تہران میں بد امنی پھیلی۔ منجملہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای (سپریم ڈیفنس کونسل میں امام خمینی کے نمائندے اور تہران کے خطیب جمعہ) پر قاتلانہ حملہ تھا اور ساتھ پارلیمنٹ عمارت میں بمب دھماکہ تھا جس میں آیت اللہ سید محمد بہشتی اور ان کے کئی ساتھیوں کی شہادت ہوئی۔ آئی آر جی سی کی آپریشنل فورسز نے، دو گروہوں میں یعنی جاسوسی اور آپریشن گشتی کے ذریعے ضد انقلاب کا مقابلہ کیا اور ان کی دیگر کئی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ آقاے رستگار بھی ڈے نائٹ آپریشنز یونٹ میں کام کرتے تھے[9] اسی دن ان کے نکاح کی تقریب ہونا تھی۔ انکی ہونے والی زوجہ کا نام اکرم ابوالقاسمی تھا جو ان کے ایک قریبی دوست محمد حاج ابوالقاسمی کی ہمشیرہ تھیں، لیکن بہشتی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے احترام میں ان کی تقریب ملتوی کر دی گئی[10]۔ کاظم صاحب 29 جون کو واپس محاذ پر چلے گئے اور شادی کی تقریب منعقد کرنے کے لیے اگست کے آخر میں تہران واپس آ گئے شادی کی تقریب 30 اگست کو ہونا تھی، لیکن محمد علی رجائی (اس وقت کے صدر) اور محمد جواد باہنر (اس وقت کے وزیر اعظم) کی شہادت کی وجہ سے یہ تقریب بھی منعقد نہ کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد، 1 اکتوبر 1981 کو، رستگار صاحب نے شادی کرلی اور یوں اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔[11]
مارچ 1982 میں، جب آپریشنل بٹالین آپریشن فتح المبین کے لیے تیاری کر رہی تھی، خبر آئی کہ عراقیوں نے چزابہ اور نبعہ میں چوٹیوں اور بستان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ کاظم رستگار، جو اس وقت کربلا25 بریگیڈ کی بٹالین امامحسین کے کمانڈرتھے، نے مذکورہ علاقوں کو آزاد کروانے کے لئے اپنے فوجی دستے روانہ کیے۔مولائے متقیان آپریشن میں، جو20 فروری کو شروع ہوا اور چودہ دن تک جاری رہا، رستگر اور اس کی افواج نے اہم کردار ادا کیا اور 48 گھنٹے کی مزاحمت کے ساتھ محاذ لائن کو محفوظ رکھا[12]۔ اس آپریشن کے بعد کاظم اور اس کے گروہ مختصر چھٹی پر گئے اور جلدی سے اہواز واپس آگئے۔ رستگار نے آپریشن کی تاریخ تک ہر روز اپنی افواج کو تربیت دی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آپریشن کے لیے تیار ہیں۔ آپریشن فتح المبین کا آغاز 22 مارچ 1982کو ہوا۔ اس آپریشن میں کاظم اور اس کی افواج رقابیہ کی پہاڑیوں میں تعینات تھے اور ریڈار سائٹ پر (علاقہ شوش کے مغرب میں) قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[13]
اس آپریشن کے بعد کاظم صاحب کا کربلا بریگیڈ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بریگیڈ27 میں ٹرانسفر ہو گیا اور اس بریگیڈ کے کمانڈر احمد متوسلیان کے پاس ان کی ڈیوٹی لگی۔اپریل 1982میں، بیت القدس آپریشن کے دوسرے مرحلے میں، ان کو میثم بٹالین کے کمانڈر کے طور پر آپریشن میں شامل کیا گیا، جس کے سابق کمانڈر عباس شعف تھے جو زخمی ہو گئے تھے۔[14] میثم بٹالین کی افواج عراقیوں کو واپس سرحدی باڑ کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوگئیں[15]۔ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں عباس شعف بھی ہسپتال سے فرار کر کے بٹالین واپس پہنچ گئے۔ میثم بٹالین رستگار اور شعف کی مشترکہ کمان میں آپریشن تیسرے مرحلے میں داخل ہوگیا اور عباس شعف اسی مرحلے میں شہید ہوئے[16]۔ چوتھے مرحلے میں رستگار کی کمان میں میثم بٹالین نے نہرخین کے علاقے میں عراقی فوج کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے 24 مئی کو خرمشہر کو آزاد کرایا گیا۔ آپریشن کے اس مرحلے میں اس بٹالین کے بہت سے ارکان شہید ہوئے تھے[17]۔
اس آپریشن کے بعد کاظم رستگار کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لشکر27 سے کچھ دستوں کے ساتھ شام اور لبنان بھیجا گیا۔ آغاز میں اس گروپ کے کمانڈر احمد متوسلیان اور کاظم اس آپریشن کے انچارج تھے، لیکن متوسلیان کو فلانج کی افواج نے گرفتار کر لیا اور رستگار صاحب نے فورسز کی کمان سنبھال لی۔ شام اور لبنان میں اپنے چار ماہ کے قیام کے دوران ان کے اقدامات میں سے دو ایرانی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔[18] شام اور لبنان سے واپسی کے بعد، کاظم نے سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ10 کی تشکیل کے لیے علی موحد دانش کی درخواست پر مثبت جواب دیا اور اس بریگیڈ کی منصوبہ بندی اور آپریشن کی ذمہ داری سنبھالی۔ مسلم بن عقیل آپریشن کی کامیابی کے کچھ عرصہ بعد علی موحد دانش بریگیڈ کی کمان سے دستبردار ہو گئے اور کاظم رستگار علی موحد دانش کی تجویز پر اس بریگیڈ کے کمانڈر بن گئے۔ رستگار نے جوانوں کی تربیت کرنے کو ترجیح دی، یہاں تک کہ بریگیڈ کے فوجی دستے مختصر وقت کے بعد ابتدائی آپریشن والفجر میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو گئے۔ ابتدائی آپریشن والفجر، جس کی کمانڈ رستگار نے کی تھی، سات بٹالینز کے ساتھ، "یا اللہ" کے کوڈ کے ساتھ 17 بہمن سے 15 فروری 1983 تک فکہ کے علاقے میں کیا گیا۔ یہ آپریشن کچھ وجوہات کی بناء پر ناکام ہو گیا۔[19]
آپریشن والفجر1 ،حمرین کی بلندیوں کے شمال مغرب میں فکہ تک10 اپریل 1983کو شروع ہوا۔ رستگار کی کمان میں سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ10 کو اس آپریشن میں ایک موثر یونٹ سمجھا جاتا تھا۔[20]10 جولایی 1983کو حاج عمران کی بلندیوں میں آپریشن والفجر 2 میں سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ 10 نے ایک بار پھر کامیاب قدم اٹھایا ۔[21] کاظم رستگار اور اس کی افواج کانی مانگا کی بلندیوں میں آپریشن والفجر 4 میں ایک بار پھر موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئیں، جو 19 اکتوبر 1983کو شروع ہوا تھا۔[22]
سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ10 کی تشکیل سے پہلے، کاظم رستگار کی اہلیہ نے کاظم کو اپنے ساتھ رہنے کے لیے دزفول منتقل ہونے پر راضی کرنے پر اصرار کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد، وہ اسلام آباد میں اللہ اکبر چھاؤنی کے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے۔[23]
والفجر 4 آپریشن کے بعد کاظم اپنی اہلیہ کو لے کر تہران چلے گئے۔ اس مختصر سفر کے دوران، وہ امام خمینی رح سے ملاقات کرنے اور والفجر 4 آپریشن کی رپورٹنگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔[24]
3 مارچ 1984 کو خیبر آپریشن شروع ہوا [25]اس وقت تک، سید الشہداء علیہ السلام بریگیڈ کو پہاڑی علاقوں میں زیادہ تجربہ حاصل تھا اور اب اسے میدانی اور سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنا تھا۔ اس وجہ سے، رستگار نے آپریشن میں اپنی بریگیڈ کی شرکت کے بارے میں مثبت رائے نہیں دی۔ تاہم، اعلیٰ حکام کی صوابدید پر، انہوں نے یہ مشن قبول کر لیا ۔[26] تقریباً سولہ دن تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں بڑی تعداد میں سپاہی شہید ہوئے اور سید الشہداء بریگیڈ کو شدید دھچکا لگا، لیکن آخر کار "جزائر مجنون" کو بچا لیا گیا۔[27] اس آپریشن میں رستگار کے بہت سے ساتھیوں خصوصاً محمد ابراہیم ہمت کی شہادت سے رستگار کے دل کو ٹھیس پہنچی۔
خیبر آپریشن کے بعد کاظم رستگار کو سید الشہداء بریگیڈ10 کی کمان سے ہٹا دیا گیا اور ایک بسیجی کے طور پر وہ امام حسین علیہ السلام چھاؤنی میں آ گئے اور ناصر شیری کے ساتھ مل کر تربیتی اور تعلیمی نوٹس تیار کرنے میں لگ گئے۔ وہ کئی بار شیری کے ساتھ مختلف مغربی اور جنوبی محاذوں پر بھی گئے۔[28]
بدر آپریشن سے چند دن پہلے (10 مارچ سے 16 مارچ 1984) کاظم رستگار اس آپریشن میں حصہ لینے کے لیے ناصر شیری کے ساتھ محاذ پر گئے اور عاشورہ بریگیڈ31 کے ساتھ اس آپریشن میں حصہ لیا جس کی کمانڈ ان کے دوست مہدی باکری نے کی۔ کاظم رستگار کو 16 مارچ 1985 کو حسن بہمنی اور ناصر شیری کے ساتھ بصرہ کے مشرق میں جفیر کے علاقے میں بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی لاش تیرہ سال تک اس علاقے میں رہی اور 20 اکتوبر 1988 کو جب لاش ملی تو تہران میں بہشت زہرا قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹی محدثہ ہے، جس کی عمر بابا کی شہادت کے وقت چالیس دن تھی۔[29]
کاظم نجفی رستگار
مکمل نام : کاظم نجفی رستگار
تاریخ ولادت: 23 مارچ 1960
ولادت کی جگہ:گاؤں اشرفآباد، شهر ری
شادی کی تاریخ:1 اکتوبر 1981
اولاد: 1 بیٹی، نام: محدثه
فوجی عہدہ: کمانڈر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی
تاریخ شهادت: 16 مارچ 1985
شهادت کی جگہ: جفیر کا علاقہ۔
علّت شهادت: اصابت ترکش
تاریخ تدفین:20 اکتوبر 1997
آرامگاه: قبرستان بهشت زهرا(س) تهران۔
پتہ: تهران، خیابان سمیه، نرسیده به خیابان حافظ، حوزه هنری، طبقه سوم، دانشنامه الکترونیکی دفاع مقدس
تلفن: 84172365
[1] آقامیرزایی، محمدعلی، رستگاری در جزیره، تهران: سازمان بنیاد شهید و امور ایثارگران، معاونت فرهنگی و امور اجتماعی، نشر شاهد2018. ص13
[2] سابق، ص18ـ16
[3] سابق، ص22
[4] سابق، ص28ـ24
[5] سابق، ص34 و 35
[6] سابق، ص 39
[7] سابق، ص43
[8] سابق، ص48
[9] سابق، ص70
[10] علویزاده، سهیلا، انتظار: خاطرات همسر شهید حاجکاظم رستگار فرمانده لشکر 10 سیدالشهدا. تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزشهای دفاع مقدس، نشر صریر، 2006، ص22.
[11] ]. آقامیرزایی، محمدعلی، رستگاری در جزیره، ص62 و 63.
[12] سابق، ص74 و 76 و 80.
[13] سابق، ص93 و 102 و 103.
[14] ]. سابق، ص114 و 115
[15] سابق، ص125 و 126 و 134.
[16] سابق، ص143 و 144
[17] سابق، ص152 و 159 و 160.
[18] سابق، ص172؛ علویزاده، سهیلا، انتظار، ص54-52
[19] آقامیرزایی، محمدعلی، رستگاری در جزیره، ص192 و 203 و 204 و 210 و 221 و 222.
[20] سابق، ص231 و 232.
[21] سابق، ص249.
[22] . سابق، ص285.
[23] علویزاده، سهیلا، انتظار، ص68 و 82.
[24] آقامیرزایی، محمدعلی، رستگاری در جزیره، ص292 و 294.
[25] سابق، ص302
[26] سابق، ص299.
[27] سابق، ص304 و 310.
[28] سابق، ص386.
[29] سابق، ص383 و 390 و 397.