اشخاص
سید محمد رضا دستوارہ
شہرزاد محمدی
15 دورہ
سید محمد رضا دستوارہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے 27ویں ڈویژن کے ڈپٹی کمانڈر تھے اور 4 جولائی 1986 کو مہران کے علاقے میں شہید ہوئے۔
سید محمد رضا دستواریہ 9 مارچ 1960 کو تہران میں (جنوبی ٹرمینل کے مشرقی جانب اور شوش چوک کے قریب) محلہ گود مرادی میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کے والد نمک کے کارخانے میں ملازم تھے۔ 1973 میں، مالی مسائل کی وجہ سے، انہوں نے مڈل اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا اور تہران کے بازار میں ٹیلرنگ ورکشاپ میں کام کرنے لگے، لیکن تعلیم میں دلچسپی کی وجہ سے وہ ایک سال بعد پہلوی ہائی اسکول حالیہ شہید عابد اسکول) چلے گئے[1]
1978 کے شروع میں وہ امام خمینی کی تحریک سے واقف ہوئے اور پہلوی حکومت کے خلاف جد و جہد کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے خرداد میں معاشیات کا ڈپلومہ 1979میں حاصل کیا۔ 26 اکتوبر 1978 کو انہیں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کیا گیا لیکن پوچھ گچھ کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، سید محمد اور ان کے دوستوں نے پہلوی حکومت کے حامیوں اور بائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں کے درمیان افراتفری اور سڑکوں پر جھڑپوں کو روکنے کے لیے اس علاقے میں شہری تحفظ کمیٹی قائم کی۔ نومبر 1979 میں، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں شمولیت اختیار کی اورچھاونی امام حسین علیہ السلام اور چھاونی ولی عصر عج میں تربیت حاصل کی۔ اسی سال دسمبر میں، انہیں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے وہاں منتقل کر دیا گیا، جس پر حال ہی میں امام کے چاہنے والے طلباء نے قبضہ کرلیا تھا[2]۔
جنوری 1980 میں سید محمد رضا دستوارہ کو تیس افراد کے ایک گروپ کے ساتھ ملک کے مغرب میں ضد انقلابی گروہوں کا مقابلہ کرنے روانسر شہر بھیجا گیا تاکہ اور تین ماہ تک وہاں رہے۔ مارچ 1980 میں، وہ پاوہ گئے اور پاوہ گارڈ کے کمانڈر حاج احمد متوسلیان اور پاوہ کے گورنر ناصر کاظمی کے ساتھ مل کر خطے میں ضد انقلاب ٹولے کے خلاف لڑے[3]۔ جون 1980میں، وہ مریوان گئے اور شہر کے آزاد ہونے کے بعد، انہوں نے مریوان گارڈ کے اہلکاروں کی ذمہ داری سنبھالی[4]۔ ان کو متوسلیان نے لوگوں کو ضروری سامان مہیا کرنے اور ان کو فراہم کرنے کا کام سونپا تھا[5]۔ 29 مئی، 1981 کو، انہوں نے نوسود کو صاف کرنے کے لیے آپریشن کاوہ زہرا میں حصہ لیا[6]۔ اس آپریشن میں وہ زخمی ہوگئے۔ صحت یاب ہونے میں تقریباً سات ماہ گزارنے کے بعد وہ مغربی حصہ کی طرف لوٹ آئے۔ وہاں سے، وہ احمد متوسلیان اور دیگر افواج کے ساتھ ایک جنگی بریگیڈ بنانے کے لیے جنوب کی طرف روانہ ہو گئے۔ فروری 1981 میں، 27 ویں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریگیڈ کی تشکیل کے بعد، انہوں نے اس بریگیڈ کے پرسنل یونٹ کی ذمہ داری سنبھالی اور اسی پوزیشن پر فتح المبین اور بیت المقدس آپریشنز میں حصہ لیا۔
1983میں، انہوں نے 27ویں محمد رسول اللہ (ص) بریگیڈ کے کمانڈر احمد متوسلیان کے ساتھ شام اور لبنان کا سفر کیا[7]۔ ایران واپس آنے کے بعد، انہوں نے آپریشن رمضان اور آپریشن مسلم بن عقیل میں حصہ لیا، اور نومبر 1982 کے آخر میں 27ویں محمد رسول اللہ (ص) بریگیڈ کو ایک ڈویژن میں تبدیل کرنے کے بعد، انہوں نے ڈویژن کے تیسرے ابوذر بریگیڈ کی کمان سنبھالی[8]۔
مارچ 1982 کے آخر میں، امام خمینی نے ان کا نکاح عذرا رستمی کے ساتھ پڑھایا اور 25 اپریل 1983 کو، وہ اندیمشک کے شہید کلانتری ہسپتال کے ایک کوارٹر میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا[9]۔
فروری 1984 میں، 27ویں ڈویژن کے کمانڈر محمد ابراہیم ہمت کی شہادت اور عباس کریمی کو کمانڈ کی منتقلی کے بعد، دستوارہ کو اس ڈویژن کا نائب کمانڈر مقرر کیا گیا۔ اپریل 1984 میں ان کے بیٹے سید مہدی کی ولادت ہوئی۔ اس سال کے موسم خزاں میں ان کو خانہ خدا کی زیارت کا شرف نصیب ہوا[10]۔ فروری 1985میں، بدر آپریشن میں عباس کریمی کے شہید ہونے کے بعد، انہیں کچھ عرصے کے لیے محمد رسول اللہ (ص) 27ویں ڈویژن کی قیادت سونپی گئی۔ ستمبر 1985 میں، محمد کوثری کو ڈویژن کمانڈر مقرر کرنے کے بعد، انہوں نے آپریشن والفجر 8 میں ڈویژن کمانڈر کے طور پر حصہ لیا[11]۔
سید محمد رضا دستوارہ شہید ہونے تک گیارہ بار زخمی ہوئے لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری اور متعدد آپریشنز میں حصہ لیا جیسے زین العابدین، ابتدائی آپریشن والفجر، آپریشن والفجر 1، آپریشن والفجر 3، آپریشن والفجر 4، خیبر اور بدر۔ جنگی مسائل کا تجزیہ کرنا، فوری فیصلے کرنا اور سپاہیوں کو حوصلہ دینا ان کی خصوصیات میں شامل تھا۔ 4 جولائی 1986 کو آپریشن کربلا 1 میں محمد رسول اللہ (ص) 27ویں ڈویژن کے ڈویژن کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے مہران فرنٹ لائن پر شہید ہوئے۔ ان کے بھائی حسین بھی ان کی شہادت اور آپریشن کربلا سے دس دن پہلے شہید ہوئے تھے[12] ۔
شہید سید محمد رضا دستوارہ کا جسد خاکی تہران میں بہشت زہرا قبرستان قطعہ 26 میں ان کے بھائی حسین کے پہلو میں دفن ہے[13]۔ محمد رضا کی شہادت کے چند ماہ بعد، 10 جنوری 1987 کو، ان کے چھوٹے بھائی محمد کو کربلا 5 آپریشن میں شہید کر دیا گیا اور اپنے دو دیگر بھائیوں کے ساتھ دفن کیا گیا[14]۔
جنرل شہید سید محمد رضا دستواریہ کی یادگار قلاویزان میں ان کی شہادت کے مقام پر بنائی گئی ہے اور راہ نور کے قافلے اسے دیکھنے آتے ہیں[15]۔
دستوارہ شہداء کے والدین نے اپنا گھر "شہداء دستوارہ امام بارگاہ" کے نام پر وقف کر دیا ہے، جسے ثقافتی اور قرآنی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے[16]۔
[1] بابایی، گلعلی، قصه ما همین بود، تهران: صاعقه، 2014، ص19ـ17؛ شاهد یاران، ش116، جون 2015، ص54
[2] بابایی، گلعلی، قصه ما همین بود، ص22ـ20.
[3] سابق، ص22 و 23؛ رهیافتگان وصال: معرفی اسوههای ایثار، سرداران شهید سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، تهران: مرکز فرهنگی سپاه، 1994، ص100؛ بینا، کردستان، مردم و پاسدار شهید ناصر کاظمی، بیجا: دفتر سیاسی سپاه و پاسدران انقلاب اسلامی کردستان، 1983، ص12.
[4] بهزاد، حسین، بابایی، گلعلی، همپای صاعقه، تهران: سوره مهر، 2000، ص808.
[5] رهیافتگان وصال: معرفی اسوههای ایثار، سرداران شهید سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، ص192.
[6] دری، حسن، اطلس راهنما7: کرمانشاه در جنگ، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2005، ص64.
[7] سابق، ص49ـ27؛ بهزاد، حسین، بابایی، گلعلی، همپای صاعقه، ص808.
[8] کاوندی، عینالله، بیکرانهها: زندگینامه سرداران شهید استان تهران، تهران: کنگره بزرگداشت سرداران شهید سپاه و 36 هزار شهید استان تهران، 1997، ص134؛ بابایی، گلعلی، ماه همراه بچههاست، تهران: صاعقه، 2012، ص122.
[9] بابایی، گلعلی، قصه ما همین بود، ص58 و 59.
[10] سابق، ص73ـ69.
[11] سابق، ص77ـ74
[12] سابق، ص84 و 112؛ بیکرانهها: زندگینامه سرداران شهید استان تهران، ص135.
[13] بابایی، گلعلی، قصه ما همین بود، ص114.
[14] https://www.golzar.info/164768/2
[15] روزنامه کیهان، ش19877، 11 مارچ 2011، ص13.
[16] بایگانی الکترونیکی دانشنامه دفاع مقدس، سند شماره 8-99-1367