اسلحہ جات

جیٹ رینجر ہیلی کاپٹر

محسن شیر محمد
18 دورہ

دفاع مقدس کے دوران، جٹ رینجر ہیلی کاپٹر ایرانی فوجی دستوں کی فضائی معاونت اور سراغ رسانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔

ہیلی کاپٹر AB-206 (اگسٹا بیل 206) جٹ رینجر، اٹلی کی کمپنی  اگسٹا بیل کا تیارکردہ ہے جو امریکی بوئنگ کمپنی کے لائسنس ہولڈر ہے۔ اس ہیلی کاپٹر میں 5 افراد کی گنجائش، ایک انجن، زیادہ سے زیادہ رفتار 234 کلومیٹر فی گھنٹہ (سطح سمندر پر)، پرواز کا زیادہ سے زیادہ وقت دوگھنٹے پینتالیس منٹ ہے اور 1,500 پاؤنڈ تک کا باضافی سامان لے جا سکتا ہے۔[1] جٹ رینجر کو جاسوسی، کمانڈ اورکنٹرول، نگہبانی، توپخانے کی نشاندہی اور خطوط رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[2]  چھوٹی جسامت کی وجہ سے اس کی خصوصیات کافی زیادہ ہیں  جن میں سے ایک یہ ہے کہ  اسے پہاڑی علاقوں میں سراغ رسانی کے لیے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔[3]

جٹ رینجر سب سے پہلے 1968 میں ایرانی فضائیہ میں شامل کیا گیا۔[4] پھر 1969 میں 150 ہیلی کاپٹرز اٹلی کی کمپنی اگسٹا بیل  سے خریدے گئے۔[5] اور اسی دوران کئی افسران اور اہلکاروں کو اٹلی بھیجا گیا [6]تاکہ وہ اس ہیلی کاپٹر کی پرواز اور تکنیکی تربیت حاصل کریں۔ تربیت یافتہ اور ماہرایرانی خلبانوں کی واپسی کے بعد، اصفہان میں فضائیہ کے ہیلی کاپٹر اسکواڈرن میں پرواز کا  ایک تربیتی مرکز قائم کیا گیا جہاں نئے طلباء کو صرف جٹ رینجر 206 کی پرواز کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں فضائیہ، پولیس اور کونسٹیبلری فورس کے ہیلی کاپٹر پائلٹس کو بھی جٹ رینجر 206 کی تربیت دی جاتی تھی۔[7] 1975 میں یہ اسکول بند کر کے فضائیہ کا تربیتی مرکز قائم کیا گیا جہاں ہر طالب علم کو 110 گھنٹے جٹ رینجر 206 کی تربیتی پرواز کرنی ہوتی تھی۔[8] اس کے علاوہ، افسران اور اہلکاروں کے لیے جٹ رینجر 206 کی عمومی تکنیکی تربیت بھی دی جاتی تھی۔[9]

1973 میں فضائیہ کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے ماتحت یونٹس کا شیڈول منظور کیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ 1978 تک فضائیہ کے اڈے فعال ہو جائیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ 1982 کے  اوائل تک ملتوی ہو گیا۔[10] جٹ رینجر ہیلی کاپٹرز کو کرمانشاه، مسجد سلیمان، کرمان اور اصفہان کے عمومی معاونت کے اسکواڈرن میں تعینات کیا گیا۔[11]

1970 میں کونسٹیبلری فورس کے فضائیہ کے شعبے نے بھی جٹ رینجر کے 14 ہیلی کاپٹر حاصل کیے[12] اور انہیں تربیت یافتہ پائلٹس کے لیے استعمال کیا۔[13]

آخر کار 1980 تک آرمی ایوی ایشن کے پاس [14]204 اور ایئر فورس کے پاس 6 جٹ رینجر ہیلی کاپٹر موجود تھے۔[15]

22 ستمبر 1980 کو دشمن کے حملے کے بعد، کئی ہیلی کاپٹرز بشمول جٹ رینجر 206، اصفہان، کرمان اور مسجد سلیمان کے اڈوں سے خوزستان روانہ کیے گئے۔ جنگ کے پہلے سات دنوں میں دزفول اور شوش کے مغربی علاقوں میں جٹ رینجر اور دیگر آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے 835 گھنٹے آپریشنل پرواز کی۔ [16]جٹ رینجر ہیلی کاپٹرز علاقے میں دشمن کی پوزیشن معلوم کرنے اور بعض اوقات فوج کے کمانڈروں کو دشمن کی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔[17]

خوزستان کی آزادی کی کارروائیوں کے آغاز پر، آرمی ایوی ایشن دیگر فوجی اور سپاہ پاسداران کے یونٹس کے ساتھ علاقے میں موجود تھی۔  اکتوبر1981  میں ثامن الائمہ آپریشن اور آبادان کے محاصرہ توڑنےمیں 46 ہیلی کاپٹرز بشمول دو جٹ رینجرز نے 600 گھنٹے پرواز کر کے جنگجوؤں کی معاونت کی۔[18]

دسمبر 1981 کی طریق القدس آپریشن میں 40 ہیلی کاپٹرز بشمول مسجد سلیمان اور اصفہان کے ایک ایک جٹ رینجر نے 1483 گھنٹے پرواز کی اور 4862 فوجیوں کو منتقل کیا۔[19]

 اپریل1982 میں فتح المبین آپریشن اور بستان کی آزادی کی کارروائیوں میں کرمان چھاونی ، مسجد سلیمان چھاونی  اور اصفہان چھاونی  چار چار یعنی مجموعی طور پر 12 جٹ رینجرز نے 3500 پروازیں کر کے 2840 سپاہیوں کو منتقل کیا۔[20] مئی اور جون 1982 میں بیت المقدس آپریشن، جس میں خرمشہر آزاد ہوا، میں  آرمی ایوی ایشن کے  95 ہیلی کاپٹرز بشمول اصفہان  کےپانچ، مسجدسلیمان کے دو  اور کرمان کے  چھے جٹ رینجرز ہیلی کاپٹروں نے 5180 گھنٹے پرواز کی۔[21]

مارچ 1984 آرمی ایوی ایشن نے خیبرآپریشن کے دوران ہورالعظیم کے علاقے میں  "جزایر مجنون"  کے قبضے کے لیے موجود تھی اور بیک سپورٹ فراہم کر رہی تھی۔ [22]اس آپریشن میں آرمی ایوی ایشن کے 98 ہیلی کاپٹرز[23] جن میں کرمان بیس کے 2 جیٹ رینجرز، مسجدسلیمان بیس کے 2 جیٹ رینجرز اور اصفہان بیس کے 2 جیٹ رینجرز [24]شامل تھے، نے 1291 گھنٹے پرواز کرتے ہوئے  آرمی اور سپاہ پاسداران  19,400 فوجی جوانوں کو جزایر مجنون کے علاقے میں منتقل کیا۔[25]

مارچ 1985 میں بدر آپریشن  (جزائر مجنون کے علاقے) میں اصفہان  بیس کے دو جٹ رینجر ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے تھے۔[26]

آپریشن والفجر-8 کی کارروائی میں جس میں سپاہ پاسداران کا مرکزی کردار تھا اور "فاو" کو آزاد کرایا ، آرمی ایوی ایشن کے 80 ہیلی کاپٹرز بشمول اصفہان (1)، کرمان (2) اور مسجد سلیمان (2) کے جٹ رینجرز کے ساتھ 3938 گھنٹے پرواز کی۔[27]

دفاع مقدس میں جٹ رینجر کی آخری تعیناتی اگست 1988 میں تھی، جب کرمانشاه کے چار جٹ رینجرز نے 425 گھنٹے پرواز کر کے 3360  سپاہیوں کو منتقل  کیا۔[28]

سپاہ پاسداران کی فضائی یونٹ نے بھی 1982میں دو عدد جٹ رینجر ہیلی کاپٹر حاصل کیے۔ اسی سال، جب دو ہیلی کاپٹرز کو پشت پناہی اور تعمیر نو کی صنعتوں میں اور دو کو سپاہ کی فضائی یونٹ میں (سپاہ کے ماہرین کے ذریعے) مرمت اور بحال کیا گیا، تو سپاہ پاسداران کی فضائی یونٹ میں ان ہیلی کاپٹرز کی تعداد چھ تک پہنچ گئی اور انہوں نے اپنی پہلی مہم میں آپریشن خیبر کے دوران سراغ رسانی کی پروازوں میں شرکت کی[29]۔ 1983 سے  پہلی پائلٹ ٹریننگ کورس مکمل ہونے اور آپریشن خیبر کے بعد، سپاہ پاسداران کی ہیلی کاپٹر یونٹ کی سروس کا باقاعدہ آغاز ہوا اور جنگِ مسلط شدہ جنگ کے اختتام تک تربیتی اور عملیاتی دونوں  ذمہ داریوں کو جٹ رینجر ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انجام دیا گیا۔ [30]

مجموعی طور پر، جٹ رینجر ہیلی کاپٹرز نے دفاع مقدس کے دوران ۱۱ ہزار گھنٹے کی پرواز کی۔ [31]

1988 میں، آرگنائزیشن آف ڈیفنس انڈسٹریز نے امریکہ کی بل ٹکسٹرون کمپنی کی  آدھے تکمیل شدہ فیکٹری کو مکمل کر کے ایران کے ہیلی کاپٹرز کی تیاری اور فراہمی کو یقینی بنایا، اور آج بھی یہ ادارہ دو شعبوں، یعنی فکسڈ ونگ اور ہیلی کاپٹر فین بنانے کے ساتھ ساتھ، ہیلی کاپٹرز، طیاروں اور ان کے پرزہ جات (جن میں جٹ رینجر بھی شامل ہے) کی تیاری میں  بھی سرگرم عمل ہے۔ [32]اسی طرح، ایران کی ہیلی کاپٹروں کی پشت پناہی اور تعمیر نو کی کمپنی جو وزارت دفاع سے منسلک ہے، جٹ رینجر ہیلی کاپٹرز کی وسیع پیمانے پر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ [33]

دفاع مقدس کے بعد، سن 2002 میں، شَاهد 278 ہیلی کاپٹر سپاہ پاسداران کے دفاعی شعبے میں جٹ رینجر کی بنیاد پر بطور پہلا ایرانی ہیلی کاپٹر ڈیزائن اور تیار کیا گیا، جسے تربیتی، فضائی امداد اور پولیس گشت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ [34]

اب پنہا کمپنی (پشت پناہی اور جدت) میں بل ۲۰۶ ہیلی کاپٹر کا ڈھانچہ اور دیگر پرزے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔[35]

 

 

 

 

[1] یاری، هوشنگ، هوانیروز نگاهی به گذشته، حال و آینده، سوره سبز،22014، ص 84 و 85.

[2] اردشیرزاده، کریم، حماسه‌‌های ماندگار هوانیروز در دفاع مقدس، تهران، نودید طراحان، 2010، ص 256.

[3] پوربزرگ وافی، علی‌رضا، سجیل آتش، ج 1، سازمان عقیدتی سیاسی ارتش،2002، ص 63.

[4] نیروی هوایی در دفاع مقدس، تهران، ایران سبز، چ اول، 2011، ص 19.

[5] معارف جنگ، تهران، انتشارات ایران سبز، 2015، ص 256.

[6] سابق، ص 256.

[7] یاری، هوشنگ، سابق ، ص 168.

[8] سابق، ص 169.

[9] سابق، ص 170.

[10] معارف جنگ، ص 256.

[11] سابق، ص 258 و 259.

[12] شاه‌محمدی، حجت، تاریخچه هوانیروز از پیدایش تا تکامل، تهران، نشر شهید سعید محبی، 2004، ص167 تا 169.

[13] قائم‌مقامی، جهانگیر، تاریخ ژاندارمری ایران، تهران، ژاندارمری، 1977، ص 432.

[14] درویشی، فرهاد، تجزیه ‌و تحلیل جنگ ایران و عراق، ج 1: ریشه‌های تهاجم، تهران، مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ، 2000، ص 95.

[15] زینلی، نصرالله، آماد و پشتیبانی هوایی در دفاع مقدس، تهران، مرکز انتشارات راهبردی نهاجا، 2016، ص 266.

[16] اردشیرزاده، کریم، سابق، ص 25.

[17] یاری، هوشنگ، سابق، ص 106.

[18] اردشیرزاده، کریم، سابق، ص 51 و 54

[19] سابق، ص 55 و 56.

[20] سابق ص 64 و 65.

[21] ص 67 و 71.

[22] یاری، هوشنگ، سابق ، ص 122.

[23] اردشیرزاده، کریم، سابق ، ص 101.

[24] سابق، ص 96.

[25] سابق ، ص 101.

[26] سابق، ص 103.

[27] سابق، ص 111 و 115.

[28] سابق ، ص 167

[29] «دیدار آسمانی نیروی هوایی سپاه تیر 82»، معاونت فرهنگی نیروی هوایی سپاه پاسداران،اگست 2003، ص

[30] یاری، هوشنگ، سابق ، ص 174.

[31] معارف جنگ، ص 276.

[32] سابق، ص 257.

[33] وب سایت شرکت پشتیبانی و نوسازی هلی‌کوپترهای ایران(پنها)، www.panha.ir/#services.

[34] «آشنایی با بالگرد شاهد 278»، شرکت صنایع هواپیماسازی ایران،23 جون 2023، www.hesa.ir/hesa/home/Note/105166.

[35] بالگرد ایرانی کجا پشتبانی و نوسازی می شوند،خبرگزاری تسنیم 2020/www.tasnimnews.com/fa/news/1399/06/05/2335350